قربانی کے جانوروں کی عمر کا تحقیقی خلاصہ
(تمام حوالہ جات اور اہم دلائل کے ساتھ)
تمہید
قربانی کے صحیح احکامات سمجھنے کے لیے جانور کی کم سے کم عمر کا تعین ضروری ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرمایا کہ قربانی میں عموماً عموماً مسنہ (ثنیہ) جانور ذبح کیا جائے، البتہ بھیڑ (ضأن) میں جزعہ کی اجازت ہے۔ ذیل میں جزعہ و مسنہ کی لغوی و فقہی تشریح اور مختلف جانوروں (اونٹ، گائے، بکری، بھیڑ) کی کم سے کم عمر کے شواہد اور دلائل پیش کیے جاتے ہیں۔
اصل حدیثِ مبارکہ
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: لا تذبحوا إلا مسنةً إلا أن یعسر علیکم فتذبحوا جذعةً من الضأن
(صحیح مسلم)
ترجمہ: قربانی میں صرف مسنہ ذبح کرو، تاہم اگر یہ میسر نہ ہو تو بھیڑ کا جزعہ بھی جائز ہے۔
اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ اصولی حکم مسنہ جانور کا ہے، لیکن بھیڑ کے جزعہ کی اجازت بطورِ خاص دی گئی ہے۔
➊ جزعہ ضان (بھیڑ) کی عمر
جمہور اہل علم اور آئمہ لغت کا مسلک
جمہور کے نزدیک بھیڑ کا جزعہ وہ ہے جو پورے ایک سال کا ہو۔ عربی لغت کے بڑے ماہرین اور محدثین کی تصریحات:
فتح الباری: "فمن الضأن ما أكمل السنة وهو قول الجمهور” (فتح الباری، پ 23، ص 329)
نووی شرح مسلم: (ج 2، ص 155)
نیل الاوطار: "الجزع من الضأن ما له سنة تامة… هذا هو الأشهر عن أهل اللغة وجمهور من العلم من غیرهم” (نیل الاوطار، ج 5، ص 202)
تحفۃ الاحوزی (بحوالہ نہایہ ابن کثیر): "ومن الضأن ما تمت له سنة” (تحفۃ الاحوزی، ج 2، ص 55)
مجمع البحار: "الجزع من الضأن ما تمت له سنة” (مجمع البحار، ج 1، ص 181)
بذل المجہود: "في اللغة ما تمت له سنة” (بذل المجہود، ج 4، ص 71)
نتیجہ: جمہور محدثین، فقہا اور آئمہ لغت کے مطابق بھیڑ کا جزعہ ایک سال مکمل ہونے والے بچے کو کہتے ہیں۔ یہی راجح موقف ہے۔
حنفیہ اور حنابلہ کا موقف
احناف اور بعض حنابلہ کے نزدیک جزعہ ضأن وہ بھیڑ ہے جو 6 ماہ کی ہو۔ چنانچہ:
ہدایہ: "والجزع من الضأن ما تمت له ستة أشهر في مذهب الفقهاء” (ہدایہ مع کفایہ، ج 4، ص 34)
فتح الباری: "نصف سنة وهو قول الحنفية وحنابلة” (فتح الباری، پ 23، ص 329)
بذل المجہود: "لأنه في اللغة ما تمت له سنة” (بذل المجہود، ج 4، ص 71)
لیکن چونکہ یہ قول جمہور اہل لغت کے خلاف ہے، لہٰذا راجح قول وہی ہے کہ جزعہ ضأن کے لیے ایک سال ہونا ضروری ہے۔
➋ جزعہ معز (بکری) کی عمر اور حکم
حدیثِ ابو بردہ بن نیارؓ
آپؓ نے عید کی نماز سے پہلے قربانی کردی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"شاتُکَ شاةُ لحمٍ”
(صحیح بخاری، پ 23)
یعنی یہ محض گوشت خوری رہی، قربانی ادا نہ ہوئی۔
انھوں نے عرض کیا کہ میرے پاس جزعہ معز (بکری کا کم عمر جانور) ہے جو موٹا تازہ ہے۔ اجازت ہو تو اسے قربانی میں ذبح کروں؟ آپؐ نے فرمایا:
"اذبحها ولا تصلح لغیرک”
(بخاری، مسلم)
یعنی یہ اجازت صرف تمہارے لیے ہے، عام مسلمانوں کے لیے نہیں۔
تشریحِ ائمہ
"وفيه أن جذعةً من المعز لا تجزي في الأضحية، قال النووي: وهذا متفقٌ عليه” (نیل الاوطار، ج 5، ص 202)
"إن الجذع من المعز لا يجزي عن أحد…” (عون المعبود، ج 3، ص 54)
جزعہ معز کی لغوی تعریف
فتح الباری: "فهو ما دخل في السنة الثانية” (فتح الباری، پ 23، ص 324)
تحفۃ الاحوزی (بحوالہ نہایہ ابن اثیر): "الجزع من البقر والمعز ما دخل في السنة الثانية” (تحفۃ الاحوزی، ج 2، ص 355)
مجمع البحار: "الجزع من البقر والمعز ما تم له سنة وطعن في الثانية” (مجمع البحار، ج 1، ص 181)
نتیجہ: بکری کا جزعہ وہ ہے جو کم از کم ایک سال مکمل کرکے دوسرے سال میں داخل ہو۔ لیکن حدیثِ ابو بردہؓ اور دیگر نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ عام حکم میں جزعہ معز کی قربانی درست نہیں۔
حدیثِ عقبہ بن عامرؓ
جب انہیں چند قربانی کے جانور بانٹنے کو ملے تو سب تقسیم ہوگئے، آخر میں ایک عتود رہ گیا، تو انہوں نے عرض کیا کہ میرے لیے تو کچھ بچا ہی نہیں۔ آپؐ نے فرمایا:
"ضحِّ بہ أنت”
(صحیح بخاری، مسلم)
صحیح سند سے امام بیہقی کی روایت میں یہ اضافہ ہے:
"ولا رخصة فیھا لأحدٍ بعدک”
(بیہقی بحوالہ فتح الباری، پ 23، ص 327؛ نووی شرح مسلم)
عتود کیا ہے؟
فتح الباری: "وهو من أولاد المعز ما قوي ورعى وأتى عليه حولٌ” (فتح الباری، پ 23، ص 327)
نووی: "قال أهل اللغة: العَتود من أولاد المعز… وهو ما بلغ سنةً” (نووی، ج 2، ص 155)
نتیجہ: عتود ایک سالہ بکری کو کہتے ہیں۔ یہ اجازت بھی حضرت عقبہ بن عامرؓ کے لیے خاص تھی، عام حکم میں ایک سالہ بکری (جزعہ معز/عتود) کی قربانی جائز نہیں۔
➌ جزعہ بقر (گائے) کی عمر
تحفۃ الاحوزی (بحوالہ نہایہ): "الجزع من المعز والبقر ما دخل في السنة الثانية” (تحفۃ الاحوزی، ج 2، ص 355)
کفایہ (بحوالہ مغرب): "الجزع من البهائم ما قبل الثني، ومن البقر والشاة في السنة الثانية” (کفایہ، ج 4، ص 34)
نتیجہ: گائے کا جزعہ وہ بچہ ہے جو ایک سال مکمل کرکے دوسرے سال میں داخل ہوا۔ مگر حدیث کے مطابق گائے کا جزعہ قربانی کے لیے جائز نہیں؛ مسنہ (ثنیہ) ہونا ضروری ہے۔
➍ جزعہ ابل (اونٹ) کی عمر
فتح الباری: "الجزع من الإبل ما دخل في الخامسة” (فتح الباری، پ 23، ص 324)
کفایہ (بحوالہ مغرب): "الجزع من البها ئم ما قبل الثني، إلا أنه من الإبل في السنة الخامسة” (کفایہ، ج 4، ص 34)
نتیجہ: اونٹ کا جزعہ وہ ہے جو چار سال پورے کرکے پانچویں میں داخل ہو۔ لیکن قربانی کے لیے بھیڑ کے علاوہ کسی جانور کا جزعہ جائز نہیں، اس لیے اونٹ بھی کم از کم مسنہ (ثنی) ہونا چاہیے۔
➎ مسنہ (ثنیہ) جانور کی تعریف
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: "لا تذبحوا إلا مسنة…”
(صحیح مسلم)
محدثین و آئمہ لغت کی تشریح کے مطابق "مسنہ” سے مراد وہ جانور ہے جو ثنیہ ہو جائے، یعنی اس کے سامنے کے دودھ کے دانت گر کر نئے دانت نکل آئیں۔
نووی شرح مسلم: "المسنة هي الثنية من کل شيء، والثنية أكبر من الجزعة بسنة” (ج 2، ص 155)
نیل الاوطار: "المسنة هي الثنية من كل شيء من الإبل والبقر والغنم بسنة فما فوقها” (نیل الاوطار، ج 5، ص 212)
فتح الباری: "قال أهل اللغة المسن الثني الذي يلقي سنَّه… ويكون… في ذات الظلف والحافر في السنة الثالثة، وفي الخف في السنة السادسة” (فتح الباری، پ 23، ص 328)
مسوٰی شرح موطا (شاہ ولی اللہؒ): "لا يجوز من الإبل والبقر والمعز دون الثني” (ج 1، ص 181)
بذل المجہود: "لا يجوز الجذع من المعز وغيره بلا خلاف” (بذل المجہود، ج 4، ص 71)
مختلف جانوروں میں ثنیہ ہونے کی عمریں
◈ اونٹ (ابل): پانچ سال پورے کرکے چھٹے میں قدم رکھے۔
◈ گائے (بقر): دو سال پورے کرکے تیسرے میں قدم رکھے۔
◈ بکری (معز): دو سال پورے کرکے تیسرے میں قدم رکھے۔
◈ بھیڑ (ضأن): اگر جزعہ نہ کرنا چاہتے تو یہ بھی دو سال پورے کرکے تیسرے میں داخل ہو تو ثنیہ کہلائے گی۔ البتہ اس میں ایک سال کا جزعہ بھی قربانی کے لیے جائز ہے۔
➏ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کا عمل
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ ہمیشہ دانت والا (ثنیہ) جانور ہی قربانی کرتے تھے، خواہ بھیڑ ہو یا بکری، اونٹ ہو یا گائے۔ حالانکہ حدیث سے بھیڑ کے جزعہ کی اجازت ملتی ہے، مگر وہ بھی اس میں احتیاط کیا کرتے تھے۔
(ملاحظہ ہو: مصفٰی، ج 1، ص 181؛ زرقانی، ج 3، ص 223)
➐ خلاصۂ بحث
◈ عام قاعدہ: قربانی کے لیے مسنہ (ثنیہ) جانور ضروری ہے۔
◈ اونٹ کم از کم پانچ سال پورے کرکے چھٹے میں جائے۔
◈ گائے دو سال پورے کرکے تیسرے میں جائے۔
◈ بکری دو سال پورے کرکے تیسرے میں جائے۔
◈ استثناء: صرف بھیڑ (ضأن) کا ایک سالہ جزعہ (جو پورا ایک سال کا ہو) قربانی میں جائز ہے۔
◈ خاص دو صحابہؓ (ابو بردہ بن نیارؓ اور عقبہ بن عامرؓ) کو ایک سالہ بکری (جزعہ معز) کرنے کی انفرادی اجازت ملی تھی، جو دیگر امت کے لیے عمومی طور پر جائز نہیں۔
◈ دانت نکل آنے کو بھی ثنیہ ہونے کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ بعض اوقات مخصوص علاقے یا آب و ہوا میں جانور جلد دانت بدل سکتا ہے، تو وہاں اصل اعتبار دانت گرنے اور نئے نکل آنے کا ہوگا۔ لیکن اکثر و بیشتر مذکورہ بالا معیاری عمریں ہی جانور کے ثنیہ ہونے کا عمومی پیمانہ ہیں۔
➑ آخری بات
قربانی ایک اہم عبادت ہے جس میں احتیاط اور سنتِ نبویؐ کا مکمل اتباع مطلوب ہے۔ بغیر دلیل کوئی بات نہ کہنی چاہیے، اور اسی لیے محدثین و فقہا نے واضح طور پر ان عمروں اور دانت کے مسئلے کو بیان کیا ہے۔
و اللہ اعلم بالصواب
ماخذ و مراجع:
◈ صحیح بخاری
◈ صحیح مسلم
◈ فتح الباری (ابن حجر)
◈ شرح مسلم للنووی
◈ نیل الاوطار (شوکانی)
◈ تحفۃ الاحوزی (مبارکپوری)
◈ مجمع البحار (طاہر پٹنی)
◈ بذل المجہود (خلیل احمد سہارنپوری)
◈ ہدایہ مع کفایہ
◈ زرقانی شرح موطا
◈ مسویٰ، مصفیٰ شرح موطا (شاہ ولی اللہؒ)
◈ عون المعبود شرح ابو داود
◈ تیسرا الوصول، فقہ اللغۃ، منتہی الارب، کشف الغمہ وغیرہ
اللہ تعالی ہمیں قربانی کا صحیح فہم اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔