قربانی کے احکام ومسائل قرآن و حدیث کی روشنی میں

تحریر: قاری اسامہ بن عبدالسلام حفظہ اللہ

عید الاضحٰی کے موقع پر جو قربانی کی جاتی ھے اس کے بعض اہم مسائل پیش خدمت ہیں :

جو شخص قربانی کی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ عید کے دن بال کاٹ لے اور ناخن تراش لے، البتہ سر منڈوانا ضروری نہیں، تراشنا بھی کافی ہے

حدیث شریف کی اس بشارت پر اس کو قربانی کا ثواب ملے گا۔
جیسا کہ حدیث ملاحظہ کیجیے:
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ،حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ،حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ،حَدَّثَنِي عَيَّاشُ بْنُ عَبَّاسٍ الْقِتْبَانِيُّ،عَنْ عِيسَى بْنِ هِلَالٍ الصَّدَفِيِّ،عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ،أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ: قَال:َ أُمِرْتُ بِيَوْمِ الْأَضْحَى عِيدًا جَعَلَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ. قَالَ الرَّجُلُ: أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ أَجِدْ إِلَّا أُضْحِيَّةً أُنْثَى! أَفَأُضَحِّي بِهَا؟ قَالَ: لَا, وَلَكِنْ تَأْخُذُ مِنْ شَعْرِكَ،وَأَظْفَارِكَ،وَتَقُصُّ شَارِبَكَ،وَتَحْلِقُ عَانَتَكَ،فَتِلْكَ تَمَامُ أُضْحِيَّتِكَ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ.
ترجمہ
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے اضحیٰ کے دن کے متعلق حکم دیا گیا ہے کہ اسے بطور عید مناؤں جسے کہ اللہ عزوجل نے اس امت کے لیے خاص کیا ہے۔‘‘ ایک آدمی نے کہا: فرمائیے کہ اگر مجھے دودھ کے جانور کے سوا کوئی جانور نہ ملے تو کیا میں اس کی قربانی کر دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں ‘ بلکہ اپنے بال کاٹ لو ‘ ناخن اور مونچھیں تراش لو اور زیر ناف کی صفائی کر لو۔اﷲ کے ہاں تمہاری یہی کامل قربانی ہو گی۔
أخرجه:صحیح ابن حبان حدیث (1043).الإمام أحمد في مسنده في «مسند عبد الله بن عمرو» (11/ 139) برقم (6575)، وأبوداود في سننه في«باب ما جاء في إيجاب الأضاحي» (44) برقم (2789)، والنسائي في «باب من لم يجد الأضحية»(7/ 212) برقم (4365)، والدارقطني في«الصيد والذبائح والأطعمة وغير ذلك» (5/ 507) برقم (4749)، والحاكم في«كتاب الأضاحي» (4/248) برقم (7529)،وقال: هذا حديث صحيح الإسناد، ولم يخرجاه. وقال الذهبي في تعليقه على المستدرك: هذا حديث صحيح.
تنبیہ:
عیسی بن ھلال: صدوق، و ثقہ ابن حبان والحاکم وغیرھما و حدیثہ حسن
نوٹ:
اس کو امام احمد ، امام ابوداود، امام نسائی , امام دارقطنی اور امام حاکم رحمہم اللہ نے روایت کیا ہے اورامام حاکم اور امام ذہبی رحمہما اللہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔

قربانی سنت مؤکدہ ہے چار دلائل ملاحظہ کیجیے

وحَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ ، حَدَّثَنِي يَحْيَي بْنُ كَثِيرٍ الْعَنْبَرِيُّ أَبُو غَسَّانَ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، أَنَّ ّالنَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:  إِذَا رَأَيْتُمْ هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ، فَلْيُمْسِكْ عَنْ شَعْرِهِ وَأَظْفَارِهِ .
ترجمہ
ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھو اور تم میں سے کوئی شخص قربانی کاا رادہ رکھتا ہو، وہ اپنے بالوں اور ناخنوں کو (نہ کاٹے) اپنے حال پر رہنے دے۔“
تنبیہ:
اس حدیث میں ،ارادہ کرنے سے یہ ظاہر ھے کہ قربانی کرنا واجب نہیں بلکہ سنت ہے ملاحظہ کیجیے حوالہ:
(مُحَلّٰیْ باِلْاٰثَار فِىْ شَرحِ اْلمُجَلّٰىْ بِالْحِجَجُ وَاْلآٰثَارِ لابن حزم الأندلسي-7-355-مسئلہ 973)

(2) ابو سریحہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما دونوں میرے پڑوسی تھے اور دونوں قربانی نہیں کرتے تھے۔[معرفۃ السنن والآثار للبیہقی: 5633، مسند الفاروق: 332/1]
اس کی سند حسن ھے۔
امام نووی فرماتے ہیں: حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما سے صحیح ثابت ہے کہ وہ اس ڈر سے قربانی نہ کرتے تھے کہ لوگ اسے واجب نہ سمجھ لیں۔[المجموع شرح المہذب: 383/8]

حضرت عقبہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے ارادہ کیا کہ قربانی چھوڑدوں، حالانکہ میں تم سب سے زیادہ استطاعت والا ہوں، کہ کہیں لوگ قربانی کو واجب نہ سمجھنے لگیں۔[مصنف عبدالرزاق: 8148]
اس کی سند حسن ھے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قربانی واجب نہیں۔ تم میں سے جو کوئی قربانی کرنا چاہے کر لے اور جو چاہے نہ کرے۔“[مصنف عبدالرزاق: 8137]
اس کی سند حسن ھے۔

اور اس قسم کے مزید بھی کچھ آثار سلف صالحین سے مروی ہیں،امام ابن عبد البر اس طرح کے بعض آثار ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
مَحْمَلُهُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لِئَلَّا يُعْتَقَدَ فِيهَالِلْمُوَاظَبَةِ عَلَيْهَا أَنَّهَا وَاجِبَةٌ فَرْضًا وَكَانُوا أَئِمَّةً يَقْتَدِي بِهِمْ مَنْ بَعْدَهُمْ مِمَّنْ يَنْظُرُ فِي دينه إليهم لأنهم الواسطة بين النبي وَبَيْنَ أُمَّتِهِ فَسَاغَ لَهُمْ مِنَ الِاجْتِهَادِ فِي ذَلِكَ مَا لَا يَسُوغُ الْيَوْمَ لِغَيْرِهِمْ وَالْأَصْلُ فِي هَذَا الْبَابِ أَنَّ الضَّحِيَّةَ سُنَّةٌ مُؤَكَّدَةٌ لأن رسول الله فَعَلَهَا وَوَاظَبَ عَلَيْهَا أَوْ نَدَبَ أُمَّتَهُ إِلَيْهَا وَحَسْبُكَ أَنَّ مِنْ فُقَهَاءِ الْمُسْلِمِينَ مَنْ يَرَاهَا فرضا… (التمهيد (24/ 195)
ان آثار کا اہلِ علم کے ہاں مطلوب ومقصود یہی ہے تاکہ ان صحابہ کرام کی قربانی پر ہمیشگی کی وجہ سے کوئی اسے فرض اور واجب نہ سمجھ لے، کیونکہ لوگ انہیں بطور امام و مقتدی سمجھتے تھے، کیونکہ وہی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور امت کے درمیان واسطہ ہیں، لہذا ان کے لیے اس عذر کے باعث ترکِ قربانی والے اجتہاد کی گنجائش تھی، جبکہ د رحقیقت یہ سنتِ موکدہ ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہ صرف کیا، بلکہ اس پر ہمیشگی فرمائی، اور امت کو ترغیب دلائی۔

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَيَّاشٍ،عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ،عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ كَانَ لَهُ سَعَةٌ،وَلَمْ يُضَحِّ،فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا»

ترجمہ
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس کے پاس (قربانی کرنے کی)گنجائش ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو اسے چاہیے کہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے۔
سنن ابن ماجہ حدیث (3123)

➊ اس حدیث سے بظاہر قربانی کا وجوب ثابت ہوتا ہے لیکن دوسرے دلائل سے اس کا استحباب واستنان معلوم ہوتا ہےاس لیے محدثین نے ان سارے دلائل کو سامنے رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے کہ قربانی سنت مؤکدہ ہے۔ یعنی ایک اہم اور مؤکد حکم ہے۔
فرض نہیں تاہم استطاعت کے باوجود اس سنت مؤکدہ سے گریز کسی طرح بھی صحیح نہیں۔

➋ قربانی مسلمانوں کی اجتماعیت کا مظہر ہے اور اس سے آپس کے تعلقات بہتر ہوتے ہیں۔

➌ قربانی نہ کرنے والا مسلمانوں کی خوشیوں میں شریک ہونے کا حق نہیں رکھتا تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسے نماز عید پڑھنے کی ضرورت نہیں بلکہ مقصد اسے تنبیہ کرنا ہے تاکہ وہ قربانی ترک نہ کرے۔

کن جانوروں کی قربانی کرنی چاہیے

قران کو پڑھا جائے تو قرآن کے دو مقامات سے معلوم ہوتا ہے قربانی صرف چار جانوروں کی ہی کی جائے گئی۔
(١)اونٹ اور اونٹنی
(٢)گائے اور بیل
(٣)بھیڑ اور دنبہ
(٤)بکری اور بکرا
حوالے کے لئے ملاحظہ کیجیے:
سورۃ الانعام آیت (١٤٣)–(١٤٤)
سورۃ الحج ایت میں بَهِيۡمَةُ الۡاَنۡعَامِ سے مراد ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ) اونٹ ،گائے ،بھیڑ , بکری اور دنبہ ہی ہے اور قربانی بھی انہی جانوروں کی کرنی چاہیے کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سنت متواترہ ہے۔
حوالہ ملاحظہ کیجیے: (شرح صحیح مسلم للنووی (١٣)-(١٢٥))

قربانی کے جانور کی عمر کتنی ہونی چاہیے

ملاحظہ کیجیے:
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي شُعَيْبٍ الْحَرَّانِيُّ،حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُعَاوِيَةَ،حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ،عَنْ جَابِرٍ،قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم:َ لَا تَذْبَحُوا إِلَّا مُسِنَّةً،إِلَّا أَنْ يَعْسُرَ عَلَيْكُمْ،فَتَذْبَحُوا جَذَعَةً مِنَ الضَّأْنِ.
ترجمہ
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : صرف دو دانتا جانور ہی ذبح کرو ‘ سوائے اس کے کہ تمہارے لیے بہت مشکل ہو جائے تو بھیڑ کا جذع ذبح کر سکتے ہو۔
صحیح مسلم حدیث (5082)-(1963)
مسنہ وہ جانور جس کے دودھ کے دانت ٹوٹ چکے ہوں، یہ اونٹ میں عموماً اس وقت ہوتا ہے جب وہ پانچ برس پورے کر کے چھٹے میں داخل ہو گیا ہو، گائے، بیل جب وہ دو برس پورے کرکے تیسرے میں داخل ہو جائیں، بکری اور بھیڑ میں جب ایک برس پورا کرکے دوسرے میں داخل ہو جائیں۔
دیکھیے:
(شرح عون المعبود ، فتح الباری )
جذعہ اس دنبہ یا بھیڑ کو کہتے ہیں جو سال بھر کا ہو چکا ہو، اہل لغت اور شارحین میں محققین کا یہی قول صحیح ہے، (دیکھئے مرعاۃ شرح مشکاۃ )
امام نووی اس کی بابت فرماتے ہیں:
جزع کی عمر کے بارے میں سب سے راحج قول یہ ہے کہ اس کی عمر مکمل ایک سال ہو۔
(کتاب المجموع:365/8)

حافظ ابن حجر اس کی بابت یوں فرماتے ہیں:
جمہور کے قول کے مطابق بھیڑ (دنبہ چھترا) کا جزع وہ ہے۔
جس کی عمر کا ایک سال مکمل ہوچکا ہو۔
(فتح الباري: 21/10)
لہذا جو حضرات بھیڑ (دنبہ۔ چھترا) کی قربانی چاہتے ہوں۔ وہ اس بات کو ضرور مد نظر رکھیں۔ کہ اس کی عمر کم از کم ایک سال ہو۔

خصی جانور کی قربانی بھی کرنا جائز ھے 

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ،حَدَّثَنَا عِيسَى،حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ،عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ،عَنْ أَبِي عَيَّاشٍ،عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ،قَالَ: ذَبَحَ النَّبِيُّ ﷺ-يَوْمَ الذَّبْحِ-كَبْشَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ مُوجَأَيْنِ
ترجمہ
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے قربانی کے دن دو مینڈھے ذبح کیے جو سینگوں والے ‘ چتکبرے اور خصی تھے۔
احمد بن حنبل، المسند، 6: 220، رقم: 25885، مصر: مؤسسة قرطبة ، أبو داود، السنن، كتاب الضحايا، باب ما يستحب من الضحايا، 3: 95، رقم: 2795، دار الفکر ،ابن ماجه، السنن، كتاب الأضاحي، باب أضاحي رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم ، 2: 1043، رقم: 3122، بیروت: دار الفکر۔
نوٹ:
➊ قربانی کے جانور عمدہ ہونے چاہییں۔
➋ جانور ظاہری شکل وصورت میں بھی اچھا ہونا چاہیے۔
➌ خصی جانور کی قربانی درست ہے اسے عیب نہ شمار کیا جاتا۔
➍ گھر کے تمام افراد کی طرف سے ایک جانور کی قربانی کافی ہے۔
➎ کسی اور کی طرف سے قربانی کرنا درست ہے۔
➏ میت کی طرف سے قربانی كرنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔
نبی اکرم ﷺ کے عمومی عمل سے استدلال اس لیے صحیح نہیں کہ بعض علماء کے نزدیک وہ آپ ﷺ کا خاصہ ہے جس میں امت کے لیے آپکی اقتداء جائز نہیں۔ دیکھیے: (إرواء الغليل: 4/ 354)
علاوہ ازیں خیر القرون (صحابہ وتابعین کے بہترین ادوار) میں بھی میت کی طرف سے قربانی کرنے کا ثبوت نہیں ملتا۔
صرف ایک نقطۂ نظر سے اس کا جواز ہو سکتا ہے کہ میت کی طرف صدقہ کرنا جائز ہے یعنی ایصال ثواب کے طور پر اس کا انکار کرنا ممکن نہیں ہے۔
واللہ اعلم۔

قربانی کا جانور بے عیب ہونا چاہیے

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ،‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ،‏‏‏‏ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق،‏‏‏‏ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ،‏‏‏‏ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ،‏‏‏‏ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ فَيْرُوزَ،‏‏‏‏ عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ،‏‏‏‏ رَفَعَهُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ لَا يُضَحَّى بِالْعَرْجَاءِ بَيِّنٌ ظَلَعُهَا،‏‏‏‏ وَلَا بِالْعَوْرَاءِ بَيِّنٌ عَوَرُهَا،‏‏‏‏ وَلَا بِالْمَرِيضَةِ بَيِّنٌ مَرَضُهَا،‏‏‏‏ وَلَا بِالْعَجْفَاءِ الَّتِي لَا تُنْقِي،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا هَنَّادٌ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ،‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ،‏‏‏‏ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ،‏‏‏‏ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ فَيْرُوزَ،‏‏‏‏ عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ،‏‏‏‏ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ،‏‏‏‏
ترجمہ

سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«أربع لا تجوز في الأضاحي:العوراء بين عورها، والمريضة بين مرضها، والعرجاء بين ظلعها، والكسير التي لا تنقى.»
‘‘چار قسم کے جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے:
➊ ایسا کانا جانور جس کا کانا پن ظاہر ہو ۔
➋ ایسا بیمار جس کی بیماری واضح ہو ۔
➌ ایسا لنگڑا جانور جس کا لنگڑاپن ظاہر ہو۔
➍ انتہائی کمزور اور لاغر جانور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو۔“
(سنن ابوداؤد حدیث (2802)، سنن نسائی: حدیث (2372)، سنن ترمذی حدیث (1297)،سنن ابن ماجہ حدیث (3122):،صحیح ابن خزیمہ حدیث(2912)،المنتقی لابن الجارود:(907)(2819)،صحیح ابن حبان:(1026)،سنن دارمی:(1992)،مسند احمد:(18510)
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (2912)،امام ابن حبان (1026) اور امام ابن الجارود (907) نے صحیح کہا ہے۔
امام ترمذی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ھذا حدیث حسن صحیح“
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔(سنن ترمذی:(1297)

امام حاکم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
ھذا حدیث صحیح
یہ حدیث صحیح ہے۔(مستدرک حاکم(1718)۔
امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔

علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح کہا ہے۔(ارواءالغلیل:2-(360) (1128)

حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے لکھا:
"إسنادہ صحیح“
(سنن ابوداود بتحقیق زبیر علی زئی:(2802)

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ , حَدَّثَنَا عَبْدَةُ , عَنْ سَعِيدٍ , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ جُرَيِّ بْنِ كُلَيْبٍ النَّهْدِيِّ , عَنْ عَلِيٍّ , قَالَ: ” نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُضَحَّى بِأَعْضَبِ الْقَرْنِ , وَالْأُذُنِ ” , قَالَ قَتَادَةُ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ , فَقَالَ: الْعَضْبُ: مَا بَلَغَ النِّصْفَ فَمَا فَوْقَ ذَلِكَ , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

ترجمہ
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان جانوروں کی قربانی کرنے سے منع فرمایا جن کے سینگ ٹوٹے اور کان پھٹے ہوئے ہوں۔ قتادہ کہتے ہیں: میں نے سعید بن مسیب سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے کہا: «عضب» (سینگ ٹوٹنے) سے مراد یہ ہے کہ سینگ آدھی یا اس سے زیادہ ٹوٹی ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الأضاحى عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1504]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الضحایا 6 (2805)، سنن النسائی/الضحایا 12 (4382)، سنن ابن ماجہ الأضاحي 8 (3145)، (تحفة الأشراف: 10031)، و مسند احمد (1/83، 101، 109، 127، 129، 150)
یہ روایت حسن لذاتہ ہے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے راوی جری بن کلیب کو مجہول کہا ہے،
امام ابو حاتم نے اس راوی کو ناقابل احتجاج قرار دیا ہے(الجرح والتعدیل:۲؍۵۲۷)
لیکن جری بن کلیب صدوق اور حسن الحدیث راوی ہے،تفصیل درج ذیل ہے:

✓ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح کہا ہے۔ (صحیح ابن خزیمہ:۲۹۱۳)
✓ امام حاکم رحمہ اللہ نے کہا:
"هذا حديث صحيح الإسناد“۔ (مستدرک حاکم:۴؍۲۲۴،ح۷۵۳۰)
حافظ ضیاءالمقدسی رحمہ اللہ (المتوفی:٦٤٣ھ) نے اس روایت کو صحیح کہا ہے۔ (الأحادیث المختارة ج٢ ص٢٩-٣٠ ح٤٠٧-٤٠٨)
✓ امام ترمذی کہتے ہیں:
"هذا حديث حسن صحيح“۔ (سنن ترمذی:۱۵۰۴)
✓ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے جری بن کلیب کو کتاب الثقات (۴؍۱۱۷) میں ذکر کیا ہے ۔
✓ امام ابو الحسن عجلی رحمہ اللہ (المتوفی:۲۶۱ھ) نے لکھا:
"جرى بن كليب بصرى تابعي ثقة“
( معرفة الثقات: ج۱ ص۲۶۷)

خلاصہ یہ ہے کہ جری بن کلیب حسن الحدیث راوی ہے،
اور مذکورہ تفصیل سے ان کی جہالت ختم ہوگئی۔
لہذا انھیں مجہول یا ناقابل احتجاج قرار دینا درست نہیں ہے۔

اندھے جانور کی بھی قربانی نہیں ہوتی جیسا کہ
أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: ۶۷۶هـ) نے کہا:
«أجمعوا على أن العمياء لا تجزئ.»
اس پر اجماع ہے کہ اندھے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے۔(المجموع شرح المہذب:۸؍۴۰۴)

عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:‏‏‏‏ أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَ،‏‏‏‏ وَالْأُذُنَ،‏‏‏‏ وَأَنْ لَا نُضَحِّيَ بِمُقَابَلَةٍ،‏‏‏‏ وَلَا مُدَابَرَةٍ،‏‏‏‏ وَلَا شَرْقَاءَ،‏‏‏‏ وَلَا خَرْقَاءَ
ترجمہ
علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ (قربانی والے جانور کی) آنکھ اور کان اچھی طرح دیکھ لیں،اور ایسے جانور کی قربانی نہ کریں جس کا کان آگے سے کٹا ہو،یا جس کا کان پیچھے سے کٹا ہو،یا جس کا کان چیرا ہوا ہو (یعنی لمبائی میں کٹا ہوا ہو)،یا جس کے کان میں سوراخ ہو۔

دوسری روایت کے الفاظ یہ ھیں:
الْمُقَابَلَةُ:‏‏‏‏ مَا قُطِعَ طَرَفُ أُذُنِهَا،‏‏‏‏ وَالْمُدَابَرَةُ:‏‏‏‏ مَا قُطِعَ مِنْ جَانِبِ الْأُذُنِ،‏‏‏‏ وَالشَّرْقَاءُ:‏‏‏‏ الْمَشْقُوقَةُ،‏‏‏‏ وَالْخَرْقَاءُ:‏‏‏‏ الْمَثْقُوبَةُ۔
ترجمہ
اس میں یہ اضافہ ہے کہ «مقابلة» وہ جانور ہے جس کے کان کا کنارہ (آگے سے) کٹا ہو،«مدابرة» وہ جانور ہے جس کے کان کا کنارہ (پیچھے سے) کٹا ہو،«شرقاء» جس کا کان (لمبائی میں) چیرا ہوا ہو،اور «خرقاء» جس کے کان میں (گول) سوراخ ہو۔
سنن أبي داود حدیث (2804)، نسائي حدیث (4377-4380) ، ابن ماجہ حدیث (3142)

دم کٹے جانور کی قربانی جائز ہے یا نہیں؟

حدیث براء بن عازب میں صرف چارعیب سےممانعت آئی ہے کیا یہ ممانعت انہی چار عیبوں میں منحصر ہے ؟ یا مطلق عیب دار جانور مراد ہیں؟
حنابلہ کے نزدیک دم کٹے جانور کی قربانی جائز ہے۔
قال ابن حزم: وَأَجَازَ قَوْمٌ أَنْ يُضَحَّى بِالْأَبْتَرِ، وَاحْتَجُّوا بِأَثَرَيْنِ رَدِيئَيْنِ – أَحَدُهُمَا: مِنْ طَرِيقِ جَابِرٍ الْجُعْفِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَرَظَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: «اشْتَرَيْتُ كَبْشًا لِأُضَحِّيَ بِهِ فَعَدَا الذِّئْبُ عَلَى ذَنَبِهِ فَقَطَعَهُ فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -؟ فَقَالَ: ضَحِّ بِهِ» ، وَالْآخَرُ: مِنْ طَرِيقِ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ عَنْ بَعْضِ شُيُوخِهِ «أَنَّ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – سُئِلَ أَيُضَحَّى بِالْبَتْرَاءِ؟ قَالَ: لَا بَأْسَ بِهَا» . جَابِرٌ كَذَّابٌ، وَحَجَّاجٌ سَاقِطٌ، وَعَنْ بَعْضِ شُيُوخِهِ رِيحٌ (محلى7/360)

وقال البيهقى: فَقَدْ رَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , عَنْ حَجَّاجٍ , عَنْ عَطِيَّةَ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَاةٍ قَطَعَ الذِّئْبُ ذَنَبَهَا يُضَحِّي بِهَا؟ قَالَ: ” ضَحِّ بِهَا "وقال:ابن قدامة فى المغنى13/372 وَتُجْزِئُ الصَّمْعَاءُ، وَهِيَ الَّتِي لَمْ يُخْلَقْ لَهَا أُذُنٌ، أَوْ خُلِقَتْ لَهَا أُذُنٌ صَغِيرَةٌ كَذَلِكَ. وَتُجْزِئُ الْبَتْرَاءُ، وَهِيَ الْمَقْطُوعَةُ الذَّنَبِ كَذَلِكَ.عمرو وسعيدبن المسيب والحسن وسعيد بن جبير والنخعى والحكم انتهى .
حنفیۃ کےنزدیک اگر آدھی یا آدھی سے زیادہ یا پوری دم کٹی ہوئی ہےتوقربانی ناجائز ہوگی اوراگرآدھی سےکم کٹی ہے جائز ہوگی عالمگیری وغیرہ
صحیح اورحق یہ ہےکہ دم گٹے جانور کی قربانی ممنوع ہے
وقال ابن حزم فى المحلى 7/359: رُوِّينَا مِنْ طَرِيقِ أَحْمَدَ بْنِ شُعَيْبٍ أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ آدَمَ عَنْ عَبْدِ الرَّحِيمِ هُوَ ابْنُ سُلَيْمَانَ – عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ السَّبِيعِيِّ عَنْ شُرَيْحِ بْنِ النُّعْمَانِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ «أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَ وَالْأُذُنَ وَأَنْ لَا نُضَحِّيَ بِمُقَابَلَةٍ، وَلَا بِمُدَابَرَةٍ، وَلَا بَتْرَاءَ، وَلَا خَرْقَاءَ» .
اس حديث میں آدھی یا تہائی کافرق کئےہوئے بغیر مطلق دم کٹے جانور کی قربانی سے منع کردیاگیا ۔حضرت براء   کی حدیث جن چار عیب والے جانوروں کی قربانی کی ممانعت آئی ہے یہ ممانعت ان چار عیبوں میں منحصر نہیں ہے دوسری حدیثوں میں ان جانوروں کی قربانی سےبھی منع کیا گیا ہے۔
المصفرة:المهزولةأوذاهبة جميع الاذن
المستاصلة:ذاهبة القرن من اصله
اعضب القرن والاذن: الذى ذهب نصف اذنه اوقرنه اولذى جاوز القطع الربع.
المقابلة
المدابرة
شرقاء
خرقاء
اورجب کانےجانور کی قربانی ناجائز ہےتواندھے اورہاتھ یا پاؤں کٹے کی قربانی بھی ناجائز ہوگی کیوں کہ ظاہریہ ہےکہ نبی ﷺ کا مقصود ہر اس جانور کی قربانی سے منع کرناہےجس میں کوئی ظاہر کھلا ہواعیب ہو۔

خارش زدہ جانور کی بھی قربانی کرنا جائز نہیں ھے ۔
جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خارش زدہ جانور اور دم کٹا جانور کی قربانی کرنا جائز نہیں ھے ( معجم الاوسط للطبرانی)
خلاصہ:
ان احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ کانے، لنگڑے، واضح بیمار، بہت زیادہ کمزور، سینگ (ٹوٹے یا) کٹے اور کان کٹے جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے۔

علامہ خطابی (متوفی 388ھ) نے فرمایا:
اس (سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ) حدیث میں دلیل ہے کہ قربانی میں معمولی نقص معاف ہے۔ الخ
(معالم السنن 2/ 199 تحت ح 683)
معلوم ہوا کہ اگر سینگ میں معمولی نقص ہو یا تھوڑا سا کٹا یا ٹوٹا ہوا ہو تو اس جانور کی قربانی جائز ہے۔

نووی نے کہا:
اس پر اجماع ہے کہ اندھے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے۔
(المجموع شرح المہذب 8/ 404)

خصی جانور کی قربانی بھی جائز ھے

ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی قربانی کا ارادہ کرتے تو دو بڑے، موٹے سینگ دار، چتکبرے، خصی کئے ہوئے مینڈھے خریدتے۔
سنن ابن ماجہ حدیث (3122)مصنف عبدالرزاق حدیث (8130)حسن

قصاب کی اجرت

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے منع فرمایا تھا قصاب کو بطور اجرت قربانی کا گوشت اور کھالیں دونوں نھیں دے سکتے مسلم حدیث (1317) بخاری حدیث (1717)

قربانی کاگوشت ذخیرہ کرنا قربانی کا گوشت ذخیرہ کرنا بھی اور ذخیرہ کرنا بھی جائز ہے اور اس کے تین حصےبھی کئے جاسکتے ھیں

➊ غریبوں ,مسکینوں کے لئے کا حصہ
➋ رشتہ داروں کے اور دوستوں کے لئے
➌ اور اپنے لئے
سورہ حج ایت( 28)-(36)

قربانی کے جانور میں حصہ

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، ح وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، – وَاللَّفْظُ لَهُ – قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ:نَحَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ الْبَدَنَةَ عَنْ سَبْعَةٍ، وَالْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ
ترجمہ:
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، انھوں نے کہا حدیبیہ کے سال رسول اللہ ﷺ کی معیت میں ہم نے ساتھ افراد کی طرف سے ایک اونٹ سات کی طرف سے اور ایک گا ئے سات کی طرف سے قربانی دیں ۔صحيح مسلم:(1318)

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:
كنَّا معَ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ في سفَرٍ، فحضرَ الأضحى، فاشترَكْنا في البقرةِ سبعةً، وفي البعيرِ عشرةً
ترجمہ
ہم لو گ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفرمیں تھے کہ قربانی کا دن آگیا ،چنانچہ ہم نے گائے کی قربانی میں سات آدمیوں اور اونٹ کی قربانی میں دس آدمیوں کوشریک کیا ۔
(صحيح الترمذي:1501)

پورے گھر کی طرف سے ایک بکری کفایت کرجائے گئی

جیسا کہ ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آپ لوگوں کی قربانیاں کیسی ہوتی تھیں؟ تو انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آدمی اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری قربانی کرتا تھا تو اسے سارے گھر والے کھاتے اور لوگوں کو کھلاتے، پھر لوگ فخر و مباہات کرنے لگے، تو معاملہ ایسا ہو گیا جو تم دیکھ رہے ہو۔
«سنن الترمذی حدیث (1505)، (تحفة الأشراف: 3481) (صحیح)»

قربانی اپنے گھر میں یا عید گاہ میں بھی کی جا سکتی ھے

دونوں طرح سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ثابت ھے بخاری حدیث (1552)-(1551)
تنبیہ:
قربانی کا جانور خود ذبح کرنا اور دوسروں سے ذبح کروانا بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ثابت ھے
دیکھیے مؤطا امام مالک حدیث (145)سنن صغری للنسائی حدیث (4424 حسن)

دودھاری اور حاملہ جانور کی قربانی کا حکم

جانور کا دودھاری یا حاملہ ہونا قربانی سے مانع نہیں ہے اس لئے بلاشبہ دودھاری اور حاملہ اونٹنی، گائے اور بکری بطور قربانی ذبح کرسکتے ہیں ، اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔
عن أبي سعيدٍ الخدري قالَ سألتُ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ عنِ الجنينِ فقالَ كلوهُ إن شئتُم . وقالَ مسدَّدٌ قلنا يا رسولَ اللَّهِ ننحرُ النَّاقةَ ونذبحُ البقرةَ والشَّاةَ فنجدُ في بطنِها الجنينَ أنلقيهِ أم نأْكلُهُ قالَ كلوهُ إن شئتُم فإنَّ ذَكاتَهُ ذَكاةُ أمِّهِ (صحيح أبي داود:2827)
ترجمہ
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بچے کے بارے میں پوچھا جو ماں کے پیٹ سے ذبح کرنے کے بعد نکلتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر چاہو تو اسے کھا لو۔ مسدد کی روایت میں ہے: ہم نے کہا: اللہ کے رسول! ہم اونٹنی کو نحر کرتے ہیں، گائے اور بکری کو ذبح کرتے ہیں اور اس کے پیٹ میں مردہ بچہ پاتے ہیں تو کیا ہم اس کو پھینک دیں یا اس کو بھی کھا لیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چاہو تو اسے کھا لو، اس کی ماں کا ذبح کرنا اس کا بھی ذبح کرنا ہے۔
اس حدیث سے ایک مسئلہ یہ معلوم ہوا کہ حاملہ جانور (اونٹنی ،گائے،بکری)کی قربانی کرنا جائز ہے اور دوسرا مسئلہ یہ معلوم ہوا کہ حاملہ جانور کو ذبح کرنے کے بعد پیٹ سے جو بچہ نکلے گا اس کو ذبح کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ ماں کا ذبح کرنا گویا بچے کا بھی ذبح کرنا ہےاس لئے بچے کو ذبح کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، بغیر ذبح کے اسے کھاسکتے ہیں خواہ پیٹ سے زندہ باہر نکلے یا مردہ ۔
اسی طرح دودھاری جانور کی قربانی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، بلا شک وشبہ دودھاری جانور کی قربانی کرسکتے ہیں ۔ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
أمرت بيوم الأضحى عيدا جعله الله عز وجل لهذه الأمة قال الرجل أرأيت إن لم أجد إلا أضحية أنثى أفأضحي بها قال لا ولكن تأخذ من شعرك وأظفارك وتقص شاربك وتحلق عانتك فتلك تمام أضحيتك عند الله عز وجل (سنن أبي داود:2789)
ترجمہ:
مجھے اضحیٰ کے دن کے متعلق حکم دیا گیا ہے کہ اسے بطور عید مناؤں جسے کہ اللہ عزوجل نے اس امت کے لیے خاص کیا ہے ۔ ایک شخص کہنے لگا : بتائیے اگر میں بجز مادہ اونٹنی یا بکری کے کوئی اور چیز نہ پاؤں تو کیا اسی کی قربانی کر دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں ، تم اپنے بال کتر لو ، ناخن تراش لو ، مونچھ کتر لو ، اور زیر ناف کے بال لے لو ، اللہ عزوجل کے نزدیک ( ثواب میں ) بس یہی تمہاری پوری قربانی ہے ۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے ایک راوی عیسی بن ہلال صدفی کی وجہ سے ضعیف کہا ہے مگر دوسرے محدثین سے ان کی توثیق بھی ثابت ہے ۔
اس حدیث میں ” أضحية أنثى” یعنی مادہ قربانی کا ذکر ہے جبکہ سنن نسائی میں دودھاری قربانی کا ذکر ہے ۔ الفاظ اس طرح وارد ہیں ۔
أرأيتَ إن لم أجِدْ إلَّا مَنيحةً أنثى أفأُضحِّي بِها ؟(سنن النسائي:4370)
ترجمہ
اگر میرے پاس سوائے ایک دو دھاری بکری کے کچھ نہ ہو تو آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا میں اس کی قربانی کروں؟
ان دونوں حدیث سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھاری بکری کی قربانی سے منع کیا ہے مگر بات ایسی نہیں ہے ۔ آپ نے صرف اس صحابی کو (جس کے پاس گزربسرکے لئے ایک ہی مادہ یعنی دودھاری جانور تھا ) منع کیا تاکہ وہ اس جانور کے دودھ سے فائدہ اٹھائے ۔ اگر اس کے پاس دوسرا جانور بھی ہوتا یا دوسری قربانی خریدنے کی وسعت ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے ضرور دوسرے جانور کی قربانی کا حکم دیتے ۔ تو یہ ایک خاص واقعہ ہے جو ایک خاص صحابی سے متعلق ہے ، آج بھی کسی کے ساتھ ایسی صورت حال ہو تو اس کا بھی یہی حکم ہوگا۔
بعض لوگوں کو شبہ ہوتا ہے کہ شریعت نے حاملہ جانور کی قربانی کی اجازت دی ہے جبکہ دودھاری جانور سے منع کیاہے ، یہ حقیقت نہیں ہے اور مذکورہ حدیث سے یہ مفہوم نہیں نکلتا ہے ۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس ایک ہی جانور ہو جو اس کی ضرورت کے لئے ہو تو اس کی قربانی دینا اس کے ضروری نہیں ہےاور دودھاری جانور کی قربانی بالکل جائز ہے ۔
اللہ کی راہ میں پسندیدہ جانورقربان کرنا تو بہت اعلی معیار ہے ، اور دودھاری جانور انسانی سماج میں قیمتی مانا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے جانور کا ہدیہ دخول جنت کا سبب قرار دیا ہے ۔ آپ نے ارشاد فرمایا:
أرْبَعُونَ خَصْلَةً أعْلَاهُنَّ مَنِيحَةُ العَنْزِ، ما مِن عَامِلٍ يَعْمَلُ بخَصْلَةٍ منها رَجَاءَ ثَوَابِهَا، وتَصْدِيقَ مَوْعُودِهَا، إلَّا أدْخَلَهُ اللَّهُ بهَا الجَنَّةَ (صحيح البخاري:2631)
ترجمہ
چالیس خصلتیں جن میں سب سے اعلیٰ و ارفع دودھ دینے والی بکری کا ہد یہ کرنا ہے۔ ایسی ہیں کہ جو شخص ان میں سے ایک خصلت پر بھی عامل ہوگا ثواب کی نیت سے اور اللہ کے وعدے کو سچا سمجھتے ہوئے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اسے جنت میں داخل کرے گا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ حاملہ اور دودھاری جانور کی قربانی کرنا جائز ومشروع ہے اور حاملہ قربانی کے بچے کو ذبح کرنے یا نہ کرنے میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے تاہم اللہ کے رسول کےفرمان سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ بچے کو ذبح کرنا ضروری نہیں ہے ، اس کی ماں کا ذبح کرنا ہی کافی ہے اور بغیرذبح کے اس بچے کا گوشت کھاسکتے ہیں۔

قربانی کرنے کا وقت

نماز عید سے پہلے قربانی کی ممانعت۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے قربانی کے دن قربانی کر لی یعنی نماز عید سے پہلے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دوبارہ قربانی کرنے کا حکم دیا۔
[سنن ابن ماجه حدیث حدیث: 3151]

➊ نماز سے مراد عید کی نماز ہے۔
حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہےانھوں نے فرمایا:
عیدالاضحی کے دن نبیﷺ باہر (عید گاہ میں) تشریف لے گئے اور دو رکعت نماز عید ادا فرمائی پھر ہماری طرف متوجہ ہوکر فرمایا:اس دن ہماری پہلی عبادت یہ ہے کہ پہلے نمازپڑھیں پھر (عیدگاہ سے) واپس جاکر جانور ذبح کریں۔ (صحیح البخاری، العیدین، باب استقبال الإمام الناس فی خطبة العید، حدیث: 976)
➋ عید کی نماز سے پہلے کی گئی قربانی کی حیثیت عام گوشت کی ہے۔
ایسے شخص کو قربانی کا ثواب نہیں ملے گا۔
➌ ثواب کا دارومدار عمل کے سنت کے مطابق ہونے پر ہے۔
➍ کوئی شخص غلطی سے نماز سے پہلے قربانی کرلے تو دوسرا جانور میسر ہونے کی صورت میں اسے نماز عید کے بعد دوسرا جانور قربان کرنا چاہیے۔
تنبیہ:
ان احادیث سے پتہ چلا کہ شہر ہو یا گاؤں نماز عید سے پہلے قربانی کرنا جائز نہیں ھے۔

قربانی کی دعا ۔

حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ،عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ،عَنْ أَبِي عَيَّاشٍ،عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ،قَالَ: ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عِيدٍ،بِكَبْشَيْنِ فَقَالَ: حِينَ وَجَّهَهُمَا «إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا،وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ،إِنَّ صَلَاتِي،وَنُسُكِي،وَمَحْيَايَ،وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ،لَا شَرِيكَ لَهُ،وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ،وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ،اللَّهُمَّ مِنْكَ،وَلَكَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِهِ»
ترجمہ
حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے،انہوں نے فرمایا:رسول اللہ ﷺ نے عید کے دن جو مینڈھے قربان کیے جب انہیں قبلہ رخ کیا تو فرمایا: قرآن إِنِّی وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِیفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِینَ إِنَّ صَلَاتِی وَنُسُکِی وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ لَا شَرِیکَ لَہُ وَبِذَلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِین
’’میں نے یکسو ہو کر اپنا چہرہ اللہ کی طرف کرلیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں مشرکین میں سے نہیں۔بے شک میری نماز،میری قربانی،میری موت اللہ کے لیے ہے جو سارے جہانوں کا مالک ہے،اسکا کوئی شریک نہیں۔مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا فرماں بردار ہوں۔اے اللہ!یہ جانور تجھی سے ملا اور تیرے ہی لیے قربان کیا۔محمد ﷺاور انکی امت سے۔‘‘
اَللّهُمَّ مِنْک وَلَکَ عَنْ مُحَمَّدٍوَاُمَّتِہْ بِسْم آللَّـهِ وَآللَّـهُ آکبر
سنن ابن ماجہ حدیث (2121)سنن أبی داود حدیث (2795) صحیح ابن خزیمہ حدیث (2899)
تنبیہ:
ابو عیاش زرقی حسن الحدیث راوی ھیں اور محمد بن اسحٰق نے سماع کی تصریح کررکھی ھے

تیز چھری سے ذبح کرنا چاہئیے قربانی کا جانور

جیسا کہ ملاحظہ کیجیے :
حَدَّثَنَا أَنَسٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ أَقْرَنَيْنِ،وَيَضَعُ رِجْلَهُ عَلَى صَفْحَتِهِمَا وَيَذْبَحُهُمَا بِيَدِهِ
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ نبی کریم ﷺ سینگ والے دو چتکبرے مینڈھوں کی قربانی کیا کرتے تھے اور آنحضرت ﷺ اپنا پاؤں ان کی گردنوں کے اوپررکھتے اور انہیں اپنے ہاتھ سے ذبح کرتے تھے۔
صحیح البخاری حدیث (5564) صحیح مسلم حدیث (1966)

´چھری تیز کرنے کا حکم۔`
شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو باتیں یاد کی ہیں، آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے تم پر ہر چیز میں احسان (اچھا سلوک کرنا) فرض کیا ہے، تو جب تم قتل کرو تو اچھی طرح قتل کرو، اور جب تم ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو، اور تم میں سے ہر ایک کو چاہیئے کہ اپنی چھری تیز کر لے اور اپنے جانور کو آرام پہنچائے
[سنن نسائي۔ حدیث: 4410]

فوائد:
➊ جانور کو ذبح کرنے کے لیے چھری کو تیز کرنا چاہیے تا کہ ذبح ہونے والے جانور کو تکلیف کم ہو۔
➋ امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ حدیث قواعد اسلام کی جامع ہے۔ دیکھیے:(صحیح مسلم بشرح النووي:157/13)
➌ یہ حدیث مبارکہ اللہ تعالیٰ کے، اپنی تمام مخلوق کے ساتھ، بے پناہ لطف و کرم پر دلالت کرتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و شفقت ہی ہے کہ اس نے ضروری قرار دیا ہے کہ ہر چیز کے ساتھ احسان کیا جائے بلکہ اس نے جانوورں تک کے ساتھ سلوک کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح غلاموں اور مجرموں کے ساتھ بھی، مثلاََ: اگر کسی مجرم کو قصاصاََ قتل کرنے کا حکم ہے، نہ کہ اسے ایذائیں دے دے کر قتل کیا جائے۔ مزید برآں یہ بھی کہ قتل کے مجرم کو بھی کھانے، پینے، پہننے اور زندگی کی دیگر لذتوں سے جو جائز اور مناسب ہوں، محروم نہیں کرنا۔
➍ رسول اللہ ﷺ کے فرمان إذا ذبَحتُم فأَحْسِنوا ”جب تم ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو۔“ کی بابت امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ذبح کرنے میں جانور کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرے۔ ذبح کرنے کی خاطر اسے سختی، اور بے دردی سے نہ گرائے اور نہ اسے گھسٹیتے ہوئے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جائے، تیز چھری کے ساتھ اسے ذبح کرے۔ (نیز جانور کے سامنے چھری تیز نہ کرے۔) جانور کو ذبح کرتے ہوئے اسے حلال کرنے اور اس سے تقرب الٰہی حاصل کرنے کی نیت کرے۔ اسے قبلہ رخ لٹائے۔ اللہ کا نام لے کر ذبح کرے۔ جلدی جلدی ذبح کرے۔ جانور کا گلا اور اس کی گردن کی رگیں کاٹے۔ اسے آرام پہنچائے اور(ذبح کرنے کے فوراََ بعد اس کا چمڑا اور کھال اتارنا شروع نہ کرے بلکہ) ٹھنڈا ہونے دے۔ (اس کا تڑپنا ختم ہو تو تب اس کی کھال اور چمڑا اتارے۔) اور(اس کے ساتھ ساتھ) اللہ تعالیٰ کا احسان مند ہو کر اس کے احسان اور فضل و کرم کا اعتراف وا قرار کرے، نیز اللہ تعالیٰ کے اس عظیم انعام واحسان پر کہ اس نے یہ جانور(جسے اس نے ذبح کیا ہے) اس کے لیے مسخر کر دیا تھا، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے، نیز اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے۔ اگر اللہ چاہتا تو(اسے مسخر نہ فرماتا بلکہ) ہم پر مسلط کر دیتا۔ اسی طرح اگر وہ چاہتا تو اس جانور کو ہمارے لیے حلال کرنے کی بجائے ہم پر حرام کر دیتا (پھر ہم اس کا کیا بگاڑ سکتے تھے؟) اور ربیعہ کہتے ہیں کہ ذبح میں احسان یہ ہے کہ اسے دوسرے جانور کے سامنے ذبح نہ کرے (تاکہ دیکھنے والے کو تکلیف محسوس نہ ہو)۔ امام قرطبی رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کے فرمان: إذا قتَلتُم فأَحْسِنوا القِتْلةَ ”جب تم قتل کرو تو اچھے طریقے سے قتل کرو“ کو ہر چیز کی بابت عموم پر محمول کیا جائےگا، خواہ کسی جانور کو ذبح کرنا ہو یا کسی انسان کو حدود و قصاص میں قتل کرنا اور مارنا ہو۔ (کسی جانور کو ذبح کرنا ہو یا کسی انسان کو قصاص میں قتل کرنا،ہر صورت میں) جلدی جلدی ذبح یا قتل کر دیا جائے اور انھیں تکلیف اور عذاب دے کر نہ مارا جائے۔ دیکھیے: (المفھم: 241،240/5)۔
➎ اگر کسی شخص نے مقتول کو برے طریقے سے قتل کیا ہو تو اسے بھی برے طریقے سے قتل کیا جائے گا

قربانی کے تین دن ھیں (10-11-12)

دلائل ملاحظہ کیجیے :
و حَدَّثَنِي ‏ ‏يَحْيَى ‏ ‏عَنْ ‏ ‏مَالِك ‏ ‏عَنْ ‏ ‏نَافِعٍ ‏ ‏أَنَّ ‏ ‏عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ‏ ‏قَالَ ‏ ‏الْأَضْحَى يَوْمَانِ بَعْدَ يَوْمِ الْأَضْحَى
نافع سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: قربانی دو دن تک درست ہے بعد عید الاضحیٰ کے۔
( سنن الكبری للبیہقی برقم: 19254، 19249، 19250)
وَمَا قَد حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بنُ مَرْزُوْقِ، قَالَ حَدَّثَنَا وَھَبُْ بْنِ جَرِیْر ، قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَن مَیْسَرَۃ بنِ حَبِیْبٍ عَنْ مَنْہَالِ بْنِ عَمْرِو عَنْ سَعِید بن جبیر عَنْ ابِنِ عَبَّاسِ رَضِیْ آللَّـهُ عَنْہُ قَالَ اَلنَحْرُیَوْمَاْنِ بَعْدَیَوْمِ النَحْرِوَاَفْضَلُھَا یَوْمُ النَحرِ
قربانی کے دن کے بعد دو دن قربانی ہے اور افضل قربانی ، ۱۰- (۱۱-۱۲)ذوالحجہ ہے۔
احکام القرآن للطحاوی ج ۲-۲۰۵حدیث (۱۵۷۱) حسن
عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالكٍ رَضِیْ آللَّـهُ عَنْہُ قَالَ اَلاضْحٰي يَوْمَانِ بَعْدَہُ
قربانی والے (اَوَّلْ)دن کے بعد دو دن قربانی ہوتی ہے۔
آحْکاَمُ القُرآن للطحاوی ج2ص206حدیث (1576) سنده صحيح
عَنْ عَلَيَّ بْنِ آ بی طَالِبٍ رَضِیْ آللَّـهُ عَنْہُ الَنَحْرُثَلاَثَۃُاَیَّام
قربانی والے (اَوَّلْ) دن کے بعد دو دن قربانی ہوتی ہے۔
آحْکاَمُ القُرآن للطحاوی ج2ص256حدیث (569) سنده صحيح
تنبیہ:
لیکن مصنف ابن أبی شیبۃ (مطبوعہ )میں یہ روایت نہیں ملی ۔ (واللہ أعلم)
فائدہ :
خلاصہ یہی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صراحتاً اس بارے میں کچھ بھی ثابت نہیں ہے اور آثار میں اختلاف ہے لیکن حضرت ابو ہریرہ ، حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابن عباس، حضرت ابنِ عمر اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابۂ کرام سے مروی ہے کہ قربانی کے (۱۰-۱۱-۱۲-) تین دن ہیں اور پہلے دن قربانی کرنا افضل ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
لنکڈان
ٹیلی گرام
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل