قربانی کی کھالوں کا مصرف
تحریر: عمران ایوب لاہوری

قربانی کی کھالوں کا مصرف
قربانی کی کھالوں کا بھی وہی مصرف ہے جو قربانی کے گوشت کا ہے یعنی جیسے قربانی کا گوشت خود بھی کھایا جا سکتا ہے دوسروں کو بھی کھلایا جا سکتا ہے اور صدقہ بھی کیا جا سکتا ہے اس طرح کھال کو خود بھی استعمال کیا جا سکتا ہے کسی دوسرے کو بھی استعمال کے لیے دی جا سکتی ہے اور صدقہ بھی کی جا سکتی ہے کیونکہ اس کے استعمال کا کوئی الگ طریقہ کتاب و سنت میں موجود نہیں ایک حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
دف أهل أبيات من أهل البادية حضرة الأضحى زمن رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ادخروا ثلاثا ثم تصدقوا بما بقي فلما كان بعد ذلك قالوا يا رسول الله إن الناس يتخذون الأسقية من ضحايا هم ويجملون فيها الودك فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم وما ذاك؟ قالو نهيت أن تؤكل لحوم الضحايا بعد ثلاث فقال إنما نهيتكم من أجل الدافة التى دفت فكلوا وادخروا وتصدقوا
”رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قربانی کے وقت اہل بادیہ کے کچھ گھر (مدینہ میں ) آباد ہو گئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین دن تک قربانی کا گوشت ذخیرہ کرو پھر باقی صدقہ کر دو ۔ پس جب اس سے اگلا سال آیا تو لوگوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! بلاشبہ لوگ قربانیوں سے مشکیزے بناتے ہیں اور ان میں چربی پگھلاتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو کیا بات ہے؟ لوگوں نے کہا آپ نے تین دن کے بعد قربانی کا گوشت کھانے سے منع کیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہیں صرف ان لوگوں کی وجہ سے منع کیا تھا جو باہر سے آ کر یہاں آباد ہو گئے تھے اب تم کھاؤ اور ذخیرہ کرو اور صدقہ کرو ۔“
[مسلم: 1971 ، كتاب الأضاحى: باب بيان ما كان من النهى عن أكل لحوم الأضاحى بعد ثلاث فى أول الإسلام وبيان نسخه وإباحته إلى متى شاء]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کھالوں کا بھی وہی مصرف ہے جو گوشت کا ہے کیونکہ اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلق طور پر یہ فرمایا ہے کہ قربانیوں سے کھاؤ ، ذخیرہ کرو اور صدقہ کرو ۔ اس لیے کھال کو خود استعمال کر لینا چاہیے مثلاً بطورِ مصلی یا بطور چٹائی وغیرہ جیسا کہ صحابہ نے مشکیزے بنا لیے تھے ۔ یا کسی دوست کو استعمال کے لیے دے دینی چاہیے یا صدقہ کر دینی چاہیے ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1