قربانی کی مشروعیت اور اس کا شرعی مقام
تحریر: عمران ایوب لاہوری

قربانی ہر خاندان کے لیے مشروع ہے
لفظِ اُضحِية سے مراد ”قربانی“ ہے ۔
[المنجد: ص/ 494]
امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ اضحية میں چار لغات ہیں:
أضحية
اِضْحِيَّة اس کی جمع أَضَاحِي ہے ۔
ضَحِيَّة اس کی جمع ضَحَايَا ہے ۔
أَضْحَاة اس کی جمع اضحٰي ہے ۔
[شرح مسلم للنووي: 127/7 ، تحفة الأحوذي: 50/5]
اردو کا لفظ قربانی قربان سے مشتق ہے اور لغوی اعتبار سے قربان سے مراد ”ہر وہ چیز ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کیا جائے چاہے ذبیحہ ہو یا کچھ اور ۔“
[مصباح اللغات: ص/ 668]
صاحب قاموس فرماتے ہیں کہ :
والقربان بالضم: ما يتقرب به إلى الله تعالىٰ
”اور قربان ضمہ کے ساتھ یہ ہے کہ جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا جائے ۔“
[القاموس المحيط: ص/ 127]
وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ [الحج: 34]
”اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تا کہ وہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دے رکھے ہیں ۔“
➋ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے چھری چلا دی تو اللہ تعالیٰ نے ایک مینڈھا بھیج دیا اور چھری اس پر چل گئی۔ اس بات کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یوں کیا ہے:
وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [الصافات: 107]
”اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے فدیہ میں دے دیا ۔“
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ ‎ [الكوثر: 2]
”اپنے رب کے لیے نماز پڑھ اور قربانی کر ۔“
قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ [الأنعام: 162]
”کہہ دیجیے! میری نماز ، میری قربانی ، میرا جینا اور میرا مرنا اللہ رب العالمین کے لیے ہے ۔“
➎ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
كان النبى صلى الله عليه وسلم يضحي بكبشين وأنا أضحى بكبشين
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو مینڈھوں کی قربانی کرتے تھے اور میں بھی دو مینڈھوں کی قربانی کرتا تھا ۔“
[بخاري: 5553 ، كتاب الأضاحي: باب فى أضحية النبي]
➏ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو تنو مند ، چتکبرے اور سینگوں والے مینڈھے قربان کرتے تھے ۔
[بخاري: 1712 ، كتاب الحج: باب من نحر هديه بيده]
➐ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
كان الرجل فى عهد رسول الله يضحي بالشاة عنه وعن أهل بيته
”عہد رسالت میں آدمی اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری قربان کرتا تھا ۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 2546 ، كتاب الأضاحي: باب من ضحى بشاة عن أهله ، ابن ماجة: 3147 ، ترمذي: 1505]
(ابن قدامہؒ) مسلمانوں نے قربانی کی مشروعیت پر اجماع کیا ہے ۔
[المغنى: 360/13]
قربانی کے فرض یا سنت ہونے میں اہل علم نے اختلاف کیا ہے ۔
(احناف) قربانی ہر صاحب استطاعت پر واجب ہے ۔
[بدائع الصنائع: 62/5 ، اللباب: 232/3 ، تكملة فتح القدير: 67/8]
(شافعیؒ ، مالکؒ ، احمدؒ) قربانی سنت مؤکدہ ہے ۔
[بداية المجتهد: 415/1 ، القوانين الفقهية: ص/ 186 ، الشرح الكبير: 118/2 ، المهذب: 237/1 ، المغنى: 617/8]
(جمہور ، ابن حزمؒ ) صحابہ سے وجوب کی کوئی دلیل ثابت نہیں ۔
[نيل الأوطار: 472/3]
واجب کہنے والوں کے دلائل:
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ ‎ [الكوثر: 2]
”اپنے رب کے لیے نماز پڑھ اور قربانی کر .“
اس کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ یہاں حکم قربانی کی فرضیت کے لیے نہیں بلکہ خالص رب کے لیے بتوں کے سوا قربانی کرنے پر دلالت کرتا ہے ۔
[تحفة الأحوذى: 76/5]
➋ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من وجد سعة فلم يضح فلا يقربن مصلانا
”جس کے پاس وسعت و طاقت ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی ہرگز نہ آئے ۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 2532 ، كتاب الأضاحي: باب الأضاحي واحبة هي أم لا ، ابن ماجة: 3123 ، احمد: 331/2]
➌ حضرت مخنف بن سلیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يأيها الناس إن على كل أهل بيت فى كل عام أضحية
”اے لوگو! بے شک ہر گھر والوں پر ہر سال قربانی (کرنا مشروع) ہے ۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 2533 ، كتاب الأضاحي: باب الأضاحي واحبة هي أم لا ، ابن ماجة: 3125 ، ابو داود: 2788 ، ترمذي: 1518]
سنت کہنے والوں کے دلائل:
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے وقت فرمایا:
اللهُمَّ هَذَا عَنِّى وَعَمَّنْ لَمْ يُضَحُ مِنْ أُمَّتِي
”اے اللہ! یہ (قربانی) میری طرف سے اور اس شخص کی طرف سے ہے جس نے میری اُمت سے قربانی نہیں کی ۔“
[صحيح: إرواء الغليل: 1138 ، 349/4 ، ابو داود: 2810 ، كتاب الضحايا: باب فى الشاة يضحى بها عن جماعة ، ترمذى: 1521]
اگر قربانی فرض ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہرگز نہ کہتے ۔
➋ ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
ثلاث من على فرائض وهن لكم تطوع: النحر والوتر وركعتا الضحى
”تین کام ایسے ہیں جو مجھ پر تو فرض ہیں لیکن تم لوگوں پر نفل ہیں: قربانی ، وتر اور نماز چاشت کی دو رکعتیں ۔“
[ضعيف: تلخيص الحبير: 254/3 ، بيهقي: 264/9 ، حافظ ابن حجرؒ فرماتے هيں كه يه حديث اپني تمام سندوں سے ضعيف هے۔ فتح الباري: 6/10]
➌ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق روایت منقول ہے کہ وہ وجوب کے قائل حضرات کے قول سے کراہت کرتے ہوئے قربانی نہیں کرتے تھے ۔“
[بيهقى: 265/9 ، نيل الأوطار: 473/3]
(راجح) قربانی کرنا سنت مؤکدہ ہے ۔
➊ امام بخاریؒ نے باب قائم کیا ہے کہ :
باب سنة الأضحية
”قربانی کی سنت کا بیان ۔“
پھر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ قول نقل فرمایا ہے کہ :
هي سنة و معروف
”قربانی سنت ہے اور یہ امر مشہور ہے ۔“
اس کے بعد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث نقل فرمائی ہے کہ :
ومن ذبح بعد الصلاة فقد تم نسكه وأصاب سنة المسلمين
”اور جس نے نماز کے بعد جانور ذبح کیا اس کی قربانی مکمل ہوئی اور وہ مسلمانوں کی سنت کو پہنچا ۔“
[بخارى: 5546 ، كتاب الأضاحي: باب سنة الأضحية]
➋ امام ترمذیؒ نے باب قائم کیا ہے کہ :
الدليل على أن الأضحية سنة
”اس بات کی دلیل کہ قربانی سنت ہے ۔“
پھر وہ روایت نقل کی ہے جس میں مذکور ہے کہ ایک شخص نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے قربانی کے متعلق دریافت کیا کہ کیا وہ فرض ہے یا سنت تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے صرف انہی الفاظ پر اکتفا کیا:
ضحي رسول الله والمسلمون
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں نے قربانی کی ہے ۔“
[ضعيف: ضعيف ابن ماجة: 672 ، كتاب الأضاحي: باب ثواب الأضحية ، ابن ماجة: 3127 ، المشكاة: 1476 ، ترمذي: 1506]
اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد امام ترمذیؒ رقمطراز ہیں کہ :
والعمل على هذا عند أهل العلم أن الأضحية ليست بواجبة ولكنها سنة من سنن النبى صلى الله عليه وسلم يستحب أن يعمل بها وهو قول سفيان الثورى وابن المبارك
”اہل علم کے نزدیک اسی پر عمل ہے کہ قربانی واجب نہیں ہے بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے (لٰہذا) اس کے مطابق عمل کرنا مستحب ہے۔ امام سفیان ثوریؒ اور امام ابن مبارکؒ کا بھی یہی قول ہے ۔“
[ترمذي: بعد الحديث / 1506]
(عبدالرحمٰن مبارکپوریؒ) رقمطراز ہیں کہ ہم تو وہی کہیں گے جو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں نے قربانی کی ہے ۔“
[تحفة الأحوذي: 76/5]
(شوکانیؒ) قربانی کی مشروعیت میں کوئی اختلاف نہیں اور یہ عظیم قربت اور سنت مؤکدہ ہے ۔
[السيل الجرار: 73/4]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1