قربانی کا وقت: عید کے بعد سے ایام تشریق کے آخر تک
تحریر: عمران ایوب لاہوری

اس کا وقت عید الاضحیٰ کے بعد سے لے کر ایام تشریق کے آخر تک ہے
➊ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من ذبح قبل الصلاة فإنما ذبح لنفسه ومن ذبح بعد الصلاة فقد تم نسكه وأصاب سنة المسلمين
”جس نے نماز سے پہلے (جانور) ذبح کر لیا تو اس نے محض اپنے نفس کے لیے ہی ذبح کیا اور جس نے نماز کے بعد ذبح کیا اس کی قربانی مکمل ہوئی اور وہ مسلمانوں کی سنت کو پہنچا ۔ “
[بخارى: 5546 ، كتاب الأضاحي: باب سنة الأضحية ، مسلم: 1962 ، نسائي: 223/7 ، احمد: 113/3 ، ابو يعلى: 2826 ، بيهقي: 262/9]
➋ حضرت جندب بن سفیان بجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من كان ذبح قبل أن يصلى فليذبح مكانها أخرى
”جس نے نماز سے پہلے قربانی کر لی وہ اس کی جگہ دوسرا جانور قربان کرے ۔“
[بخارى: 500 ، كتاب الذبائح والصيد: باب قول النبى فليذبح على اسم الله ، مسلم: 1960 ، ابن ماجة: 3152 ، نسائي: 224/7 ، حميدي: 775 ، ابو يعلى: 1532 ، ابن حبان: 5913 ، شرح معاني الآثار: 173/4 ، بيهقي: 262/9]
حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
كل أيام التشريق ذبح
”تمام ايام تشريق قربانی کے دن ہیں ۔“
[صحيح: صحيح الجامع الصغير: 4537 ، احمد: 82/4 ، ابن حبان: 3854 ، بيهقى: 295/5 ، نيل الأوطار: 490/3 ، فتح البارى: 11/10 ، زاد المعاد: 318/2]
(شوکانیؒ ) ایام تشریق یوم النحر اور اس کے بعد تین دن ہیں یعنی 10 ، 11 ، 12 اور 13 ذوالحجہ ۔
[نيل الأوطار: 490/3]
(علیؒ) قربانی کے دن ، یوم الاضحیٰ اور اس کے بعد تین دن ہیں ۔
[زاد المعاد: 319/2]
(نوویؒ) اسی کے قائل ہیں ۔
[شرح مسلم: 128/7]
حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ، امام عطا ، حضرت حسن بصری ، حضرت عمر بن عبد العزیز ، امام سلیمان بن موسی ، امام مکحول ، امام شافعی اور داور ظاہری رحمہم اللہ کا بھی یہی موقف ہے ۔
[بيهقي: 296/5 – 297 ، نيل الأوطار: 490/3]
(ابو حنیفہؒ ، مالکؒ ، احمدؒ) قربانی کا وقت یوم النحر اور اس کے بعد دو دن ہیں ۔
[نيل الأوطار: 490/3 ، بدائع الصنائع: 73/5 ، تبيين الحقائق: 4/6 ، الدر المحتار: 222/5 ، اللباب: 233/3]
ان کی دلیل حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ، حضرت انس رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی یہ اثر ہے:
الأضحى يومان بعد يوم الأضحى
”قربانی یوم الاضحیٰ کے بعد دو دن ہے ۔“
[مؤطا: 487/2 ، بيهقي: 297/9 ، شرح مسلم: 128/7]
(راجح) امام شافعیؒ وغیرہ کا موقف راجح ہے کیونکہ حضرت جبیر رضی اللہ عنہ کی حدیث مرفوع (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ) ہے اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما وغیرہ کی روایت محض ان کا اپنا قول ہی ہے لٰہذا پہلی حدیث کو ترجیح دی جائے گی نیز جس روایت میں ایک دن کم کا ذکر ہے اس میں زیادتی کی نفی بھی نہیں ہے ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1