قربانی پر تنقید: غریب دوستی یا دشمنی؟

یہ اعتراض درحقیقت ان لوگوں کے لیے ایک آئینہ ہے جو سال بھر جانوروں کی مختلف شکلوں میں کھانے، پہننے اور دیگر طریقوں سے استعمال کرنے کے عادی ہیں لیکن عیدالاضحی کے موقع پر قربانی پر تنقید کرتے ہیں۔ یہ لوگ سال بھر بڑے شوق سے گوشت کھاتے ہیں، چمڑے کے جوتے، جیکٹس اور دیگر مصنوعات استعمال کرتے ہیں، مگر جب عید کے موقع پر قربانی کا مسئلہ آتا ہے، تو اچانک انہیں جانوروں کے حقوق کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔ یہ تضاد اور منافقت کی ایک واضح مثال ہے۔

عیدالاضحی، جو ایک مذہبی فریضہ اور غریبوں کے ساتھ سخاوت کا اظہار ہے، پر تنقید کرنا اور اسے غریبوں کی مخالفت کے طور پر پیش کرنا حقیقت سے دور بات ہے۔ قربانی کا گوشت تین حصوں میں تقسیم ہوتا ہے، جس میں ایک حصہ غریبوں اور مساکین کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔ یہ گوشت وہ لوگ بھی کھاتے ہیں جنہیں سال بھر گوشت نصیب نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ، یہ قربانی غریب چرواہوں، قصائیوں، مدارس اور مختلف کاروباری افراد کے لیے بھی ایک ذریعہ معاش ہے۔

جو لوگ قربانی پر پابندی کی بات کرتے ہیں، وہ درحقیقت غریبوں کے حق میں بات نہیں کر رہے بلکہ ان کے ذرائع آمدن پر حملہ کر رہے ہیں۔ اس عمل سے سب سے زیادہ نقصان ان لوگوں کو ہوگا جو اس پورے معاشی نظام کا حصہ ہیں، جیسے جانور پالنے والے، قصائی، مدارس، اور وہ کاروبار جن کا ان جانوروں کی خرید و فروخت سے تعلق ہوتا ہے۔

اہم نکات:

➊ عیدالاضحی پر قربانی کا مقصد صرف گوشت کا حصول نہیں، بلکہ ایک مذہبی فریضہ ہے جس میں غریبوں کا حق شامل ہے۔

➋ جانوروں کی قربانی پر اعتراض کرنے والے افراد خود سال بھر جانوروں کے گوشت اور دیگر مصنوعات کا استعمال کرتے ہیں، جو ان کی منافقت کو ظاہر کرتا ہے۔

➌ قربانی سے مختلف معاشی طبقے فائدہ اٹھاتے ہیں، خاص طور پر غریب اور متوسط طبقے کے افراد جو جانوروں کی تجارت اور اس سے متعلقہ کاموں میں مشغول ہوتے ہیں۔

➍ قربانی پر پابندی کی بات کرنے والے اصل میں غریب دشمنی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، کیونکہ اس سے سب سے زیادہ نقصان غریب طبقے کو ہی ہوگا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے