قربانی میں کم از کم ایک بکری ہے
عطاء بن سیارؒ نے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قربانیاں کیسے ہوتی تھیں تو انہوں نے کہا:
كان الرجل فى عهد النبى صلى الله عليه وسلم يضحي بالشاة عنه وعن أهل بيته
”عہد رسالت میں آدمی اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری قربان کرتا تھا ۔“
وہ اسے کھاتے تھے اور کھلاتے تھے حتی کہ لوگوں نے تکبر شروع کر دیا تو اس طرح ہو گیا جو تم آج دیکھ رہے ہو ۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 2546 ، كتاب الأضاحي: باب من ضحى بشاة عن أهله ، ابن ماجة: 3147 ، ترمذي: 1505 ، كتاب الأضاحى: باب ما جاء أن الشاة الواحدة تجزئ عن أهل البيت]
اس مسئلے میں اہل علم نے اختلاف کیا ہے کہ کیا ایک بکری تمام گھر والوں کی طرف سے کفایت کر جائے گی یا صرف ایک آدمی کو ہی کافی ہو گی ۔
(احناف) ایک بکری صرف ایک آدمی کو ہی کفایت کرتی ہے ۔
[بدائع الصنائع: 70/5 ، الدر المختار: 222/5 ، بداية المجتهد: 420/1 ، مغني المحتاج: 285/4 ، المهذب: 238/1 ، المغني: 619/8 ، كشاف القناع: 617/2]
(نوویؒ) انہوں نے بزعم خویش احناف کے موقف کو متفق علیہ مسئلہ قرار دیا ہے ۔
[شرح مسلم: 132/7]
(مالکؒ ، اوزاعیؒ ، لیثؒ) ایک بکری تمام گھر والوں کی طرف سے کفایت کر جاتی ہے ۔
[تحفة الأحوذى: 72/5 ، موطا ، كتاب الضحايا: باب الشركة]
(ابن قیمؒ) ایک بکری تمام گھر والوں کی طرف سے کافی ہو جائے گی خواہ گھر والے کثیر تعداد میں ہی کیوں نہ ہوں یہی رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے ۔
[زاد المعاد: 323/2]
(شوکانیؒ ) حق بات یہ ہے کہ ایک بکری تمام گھر والوں کی طرف سے کافی ہو جائے گی خواہ ان کی تعداد سو یا اس سے زیادہ ہی کیوں نہ ہو ۔
[نيل الأوطار: 485/3]
(راجح) امام شوکانیؒ اور ان کے ہم رائے حضرات کا مؤقف راجح ہے کیونکہ گذشتہ حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کی حدیث اس پر دلالت کرتی ہے ۔
(زیلعیؒ) اس (حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کی ) حدیث نے حنفی مذہب کو مشکل میں ڈال دیا ہے ۔
[نصب الراية: 210/4]