قراءت میں سورتوں کی ترتیب
تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : کیا نماز میں سورۂ فاتحہ کے بعد قراءت میں سورتوں کی ترتیب ملحوظ رکھنا ضروری ہے ؟ ہمارے بعض بھائی اسے سنت کہتے ہیں ؟ تفصیل سے جواب دیں۔
جواب : نماز میں بہتر تو یہی ہے کہ قرآن پاک کی قرأت موجودہ ترتیب کے مطابق کی جائے لیکن اگر کسی وقت ترتیب آگے پیچھے ہو جائے تو کوئی حرج نہیں۔ ایسا کرنا کئی ایک صحیح احادیث سے ثابت ہے، اس سے نماز میں خلل اور خرابی واقع نہیں ہوتی۔
عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ ” صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَافْتَتَحَ الْبَقَرَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ يَرْكَعُ عِنْدَ الْمِائَةِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ مَضَى، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يُصَلِّي بِهَا فِي رَكْعَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَمَضَى، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَرْكَعُ بِهَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ افْتَتَحَ النِّسَاءَ فَقَرَأَهَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ افْتَتَحَ آلَ عِمْرَانَ فَقَرَأَهَا، ‏‏‏‏‏‏يَقْرَأُ مُتَرَسِّلًا، ‏‏‏‏‏‏إِذَا مَرَّ بِآيَةٍ فِيهَا، ‏‏‏‏‏‏تَسْبِيحٌ سَبَّحَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا مَرَّ بِسُؤَالٍ سَأَلَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا مَرَّ بِتَعَوُّذٍ تَعَوَّذَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ رَكَعَ [مسلم، كتاب صلاة المسافرين : باب استحباب تطويل القراءة فى الصلاة الليل 772، نسائي 1665، أحمد 382/5 ]
واضح رہے کہ بریکٹ والے الفاظ سنن نسائی کے ہیں۔
”حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک رات میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی تو آپ نے سورۂ بقرہ پڑھنی شروع کی، میں نے خیال کیا کہ آپ سو آیات پر رکوع کریں گے، آپ آگے گزر گئے پھر میں نے خیال کیا کہ دو سو آیات پر رکوع کریں گے، آپ آگے نکل گئے، میں نے سوچا کہ آپ اسی پر سلام پھیریں گے (یعنی اسے دو رکعتوں میں تقسیم کریں گے ) مگر آپ آگے نکل گئے۔ میں نے سوچا بقرہ کے آخر پر آپ رکوع کریں گے مگر آپ نے سورۂ نساء شروع کر دی۔ اسے پڑھنے کے بعد آپ نے سورۂ آل عمران شروع کر دی۔ آپ نے اس کی قرأت کی۔ آپ ٹھہر ٹھہر کر قرأت کرتے تھے، جب کسی ایسی آیت سے گزرتے جس میں تسبیح ہوتی تو آپ تسبیح پڑھتے اور جب سوال والی آیت پڑھتے تو اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے اور جب عذاب والی آیت تلاوت کرتے تو اعوذ باللہ پڑھتے۔ “
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی پہلی رکعت میں سورۂ بقرہ پڑھی پھر سورۂ نساء پڑھی پھر سورۂ آل عمران پڑھی حالانکہ سورۂ آل عمران سورۂ نساء سے پہلے ہے لہٰذا معلوم ہوا کہ سورتوں کی ترتیب قرأت میں لازم نہیں۔
علامہ سندھی فرماتے ہیں :
قَوْلُهُ ”ثُمَّ افْتَتَحَ آلَ عِمْرَانَ“ مُقْتَضَاهُ عَدْمُ لَزْمِ التَّرْتِيْبِ بَيْنَ السُّوَرِ فِي الْقِرَاءَةِ [حاشية سندهي على النسائي 250/2]
”اس حدیث کا مقتضیٰ یہ ہے کہ قرأت کے دوران سورتوں کی ترتیب لازم نہیں“۔
➋ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
”ایک انصاری آدمی مسجد قباء میں ان کی امامت کرواتا تھا، وہ جب بھی کوئی سورت پڑھتا تو اس سے پہلے ﴿قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ﴾ پڑھتا۔ جب اس سے فارغ ہوتا تو اس کے ساتھ کوئی اور سورت پڑھتا اور ہر رکعت میں ایسے ہی کرتا۔ اس کے ساتھیوں نے گفتگو کی اور کہا: ”تم اس سورت کے ساتھ شروع کرتے ہو پھر اسے کافی نہیں سمجھتے حتی کہ دوسری سورت پڑھتے ہو یا تو ﴿قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ﴾ پڑھا کرو یا اسے چھوڑ کر کوئی اور سورت پڑھ لیا کرو۔“
اس نے کہا: ”میں اسے چھوڑنے والا نہیں ہوں، اگر تم پسند کرو تو تمہاری امامت کراؤں گا اور اگر ناپسند کرو تو تمہیں چھوڑ دیتا ہوں“۔ وہ اس شخص کو اپنے ساتھیوں میں سے افضل سمجھتے تھے۔ لہٰذا انہوں نے اس کے علاوہ کسی اور کی امامت کو ناپسند کیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی اطلاع دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تجھے اپنے ساتھیوں کی بات ماننے سے کون سی چیز روکتی ہے ؟ کس چیز نے تمہیں ابھارا ہے کہ تم ہر رکعت میں اس سورت کو لازماً پڑھو ؟“ اس نے کہا:
اِنِّيْ اُحِبُّهَا فَقَالَ حُبُّكَ اِيَّاهَا اَدْخَلَكَ الْجَنَّةَ [بخاري، كتاب الأذان : باب الجمع بين السورتين فى ركعة والقراءة بالخواتيم وبسورة قبل سورة وبأول سورة 774، ترمذي 2901 ]
”مجھے اس سورت سے محبت ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تیری اس سورت سے محبت تجھے جنت میں داخل کر دے گی“۔ اس صحیح حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ ترتیب لازمی نہیں ہے کیونکہ انصاری صحابی جب نماز پڑھاتے تو سورۂ فاتحہ کے بعد پہلے سورہ اخلاص پڑھتے پھر کوئی اور سورت پڑھتے اور ہر رکعت میں اسی طرح کر تے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ بات بتائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم منع نہیں فرمایا بلکہ اسے اس کے بدلے جنت کا وارث قرار دے دیا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فر ماتے ہیں : ” اس صحابی کا نام کلثوم بن الھدم تھا۔ “ [فتح الباري 2/ 258 ]
➌ حضرت عبداللہ بن شقیق سے روایت ہے :
صَلّٰي بِنَا الْأَحْنَفُ بْنُ قَيْسٍ الْغَدَاةَ فَقَرَأَ فِي الرَّكْعَةِ الْاُوْلٰي بِالْكَهْفِ وَفِي الثَّانِيْ بِيُوْنُسَ وَ زَعَمَ اَنَّهُ صَلّٰي خَلْفَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَقَرَأَ فِي الْاُوْلٰي بِالْكَهْفِ وَفِي الثَّانِيَةِ بِيُوْنُسَ [تغليق التعليق 313/2، بخاري مع الفتح 257/2]
، یہ حدیث کتاب الصلاۃ لجعفر القریابی اور مستخرج ابی نعیم میں بھی موجود ہے۔
”ہمیں احنف بن قیس نے صبح کی نماز پڑھائی، انہوں نے پہلی رکعت میں سورۂ کہف اور دوسری میں سورۂ یونس پڑھی اور کہا: ”انہوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے بھی پہلی رکعت میں سورۂ کہف اور دوسری میں سورۂ یونس پڑھی“۔
قرآن پاک میں سورۂ کہف کا نمبر اٹھارواں ہے جبکہ سورۂ یونس کا نمبر دسواں ہے۔ خلیفہ راشد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں قرأت کرتے ہوئے سورتوں کی ترتیب لازمی نہیں وگرنہ وہ پندرھویں او سولھویں پارے سے سورۂ کہف پہلی رکعت میں اور گیارھویں پارے سے سورۂ یونس دوسری رکعت میں نہ پڑھتے۔
مذکورہ بالا صحیح احادیث و آثار سے معلوم ہوا کہ نماز میں سورتوں کی ترتیب کے لحاظ سے قرأت کرنا لازمی نہیں، لہٰذا جن حضرات نے اسے بدعت کہا: ہے وہ اپنی بات سے رجوع کریں۔ معلوم ہوا ہے کہ لوگوں نے جہالت ونادانی اور ضد و تعصب کی وجہ سے ایسے کہا ہے۔ ان حضرات کے پاس اس کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں۔ ان کا استہزا و طعن اس بات پر دلالت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت سے نوازے اور صراط مستقیم پر گامزن فرمائے۔ حنفی علماء میں سے کئی ایسے ہیں جو اس صورت کو جائز کہتے ہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب : اَلْجَمْعُ بَيْنَ السُّوْرَتَيْنِ فِيْ رَكْعَةٍ وَالْقِرَاءَةُ بِالْخَوَاتِيْمِ وَبِسُوْرَةٍ قَبْلَ سُوْرَةٍ وَبِأَوَّلِ سُوْرَةٍ “ میں قرأت کی چار صورتیں ذکر کی ہیں :
① ایک رکعت میں دو سورتوں کو جمع کرنا۔
② سورتوں کے آخری حصے کی قرأت کرنا۔
③ سورتوں کی تقدیم و تاخیر۔ ④ سورتوں کو ابتدا سے پڑھنا۔
مشہور متعصب حنفی احمد رضا بجنوری اپنے استاد انور شاہ کاشمیری کے بارے میں لکھتا ہے کہ انہوں نے کہا:
”امام طحاوی نے ان چاروں صورتوں کو جائز لکھا ہے اور میرے نزدیک طحاوی کو ترجیح ہے “۔ [انوار الباري 350/2 ]
مولوی غلام رسول سعیدی بریلوی نے لکھا ہے :
”ائمہ ثلاثہ کے نزدیک ترتیب کے خلاف پڑھنا مطلقاً جائز ہے۔“ [شرح مسلم 530/2 ]
بہرکیف صحیح احادیث اس بات پر دلا لت کرتی ہیں کہ ترتیب کے خلاف پڑھنا جائز ہے، اس سے نماز میں کوئی خلل واقع نہیں ہو تا۔ جاہل و ناواقف افراد کا خلاف سنت و حدیث کا فتوٰی لگانا سوائے گمراہی کے اور کیا ہو سکتا ہے ؟ ایسے حضرات کو پیار اور محبت سے سمجھائیں اور ان میں قرآن و حدیث کی اہمیت کا احساس پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: