نبی کریم ﷺ کی بعثت اور قرآن کی خصوصیات
سابقہ انبیاء کرام کو اللہ تعالیٰ نے ایک خاص قوم کی طرف مبعوث فرمایا، لیکن نبی کریم ﷺ کو تمام انسانیت، یعنی عرب و عجم، سرخ و سفید، سب کے لیے رسول بنا کر بھیجا۔ عرب کے مختلف قبائل اپنی جداگانہ لغات اور لہجات رکھتے تھے۔ ان کے لیے کسی ایک مخصوص لغت یا لہجے میں قرآن پڑھنا یا ادا کرنا مشکل ہو سکتا تھا، کیونکہ بعض لوگ اپنی زبان چھوڑ کر دوسرا لہجہ یا لغت سیکھنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ نبی اکرم ﷺ نے اس حوالے سے امت پر آسانی کی دعا فرمائی، جو قبول ہوئی اور مختلف قراءتوں کی اجازت دی گئی تاکہ کسی پر مشقت نہ ہو۔ (النشر: 1؍22)
قرآن کریم کی قراءتوں میں تنوع کی ابتدا
ابتدائی دور میں عرب قرآن کے اسلوب کے عادی نہیں تھے، اس لیے مختلف لہجات اور اسالیب (جیسے اسماء، افعال اور الفاظ میں تقدیم و تاخیر) کے ساتھ قراءتوں کی اجازت دی گئی۔
نبی کریم ﷺ ہر سال رمضان میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کا دور کرتے تھے۔ وفات کے سال یہ دور دو مرتبہ کیا گیا، جسے "عرصۂ اخیرہ” کہتے ہیں۔ (السنن الکبریٰ للنسائی، حدیث نمبر 2794)
اس موقع پر بعض قراءتیں منسوخ کر دی گئیں، اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہی مستند قراءتوں پر امت کو جمع کیا، جو آج تک تواتر کے ساتھ محفوظ ہیں۔
قراءتوں کے فوائد اور حکمتیں
1. تفسیر اور معانی میں وسعت
قراءتوں کے اختلاف سے معانی میں مزید گہرائی پیدا ہوتی ہے۔
اگر اختلاف صرف لفظی ہو، تو معنی نہیں بدلتے۔ مثلاً "الصراط” کو سین یا اشمام کے ساتھ پڑھنے سے مفہوم پر فرق نہیں پڑتا۔
جہاں لفظ کی تبدیلی سے معنی بدلیں، وہ بھی ایک دوسرے کے متضاد نہیں ہوتے بلکہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔
مثال:
سورۃ الفاتحہ میں:
- "مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ” (جزا کے دن کا مالک)
- "مَلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ” (قیامت کے دن کا بادشاہ)
دونوں اللہ کی صفات کو واضح کرتی ہیں۔
سورۃ یونس کی آیت:
"فَبِذَلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ہُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ”
’’اس پر تولوگوں کوخوشی منانی چاہئے ، یہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ سمیٹ رہے ہیں۔‘‘
اس آیت میں مزید دو قراء تیں ہیں:
- "تجمعون” (تم جمع کرتے ہو)
- "یجمون” (وہ جمع کرتے ہیں)
دونوں کے معانی مختلف مگر متکمل ہیں۔
2. فقہی احکام میں تنوع
قراءتوں نے فقہ میں گہرائی اور جامعیت پیدا کی:
- ایک قراءت، مختلف احکام:
- سورۃ البقرہ: ’’فَاعْتَزِلُوْا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيْضِ وَلَا تَقْرَبُوْهُنَّ حَتّٰی یَطْهُرْنَ‘‘
- "یطهرن” (سکون کے ساتھ): حیض کے ختم ہونے پر پاکیزگی۔
- "یطهرن” (تشدید کے ساتھ): حیض کے بعد غسل ضروری۔
’’پس حیض کے دوران عورتوں سے علیحدہ رہو اور ان کے قریب نہ جاؤ یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائیں۔‘‘
- حالات کے مطابق احکام:
- سورۃ المائدہ: "وَاَرْجُلَكُمْ إِلَی الْكَعْبَیْنِ”
- نصب کی صورت: پاؤں دھونا۔
- جر کی صورت: موزوں پر مسح۔
3. عربی لغات کا تحفظ
قراءتوں نے مختلف عربی قبائل کی فصیح لغات کو محفوظ رکھا۔
امام ابوعبید کے مطابق قراءتوں میں عرب کے مشہور قبائل (ہوازن، تمیم، قریش وغیرہ) کی لغات کا خلاصہ موجود ہے۔
لغت قریش کی فصاحت، مقامِ وسطیٰ، اور عجمی و صحرائی اثرات سے پاک ہونے کے سبب اللہ نے اسے قرآن کے لیے منتخب کیا۔
4. بلاغت اور اعجاز
قرآن کا ہر لفظ اختصار اور کمال بلاغت کا مظہر ہے۔
قراءتوں کے تنوع نے اس اعجاز کو مزید نمایاں کیا۔
ہر قراءت کئی مسائل کی دلیل بن سکتی ہے، اور ان میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا۔
5. اعجازِ قرآنی کے چیلنج کی وسعت
سبعۃ احرف پر نزول نے قرآن کے چیلنج کو وسیع تر کر دیا۔
قریش سمیت تمام قبائل کو مخاطب کیا گیا۔
کسی قبیلے کے لیے یہ عذر باقی نہ رہا کہ قرآن ہماری لغت میں نازل نہیں ہوا۔
6. حفظ میں آسانی
مختلف قراءتوں نے حفظ کرنے والوں کے لیے یادداشت کو مضبوط اور معانی کو واضح کیا۔
ایک رسم الخط میں مختلف قراءتوں کی گنجائش نے یادداشت کے لیے سہولت پیدا کی۔ (النشر: 1؍52-53)
7. نبوت اور حقانیت کی دلیل
قراءتوں کے اختلاف کے باوجود قرآن میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا۔
یہ اختلاف نبی کریم ﷺ کی صداقت اور قرآن کے کلامِ الٰہی ہونے کی واضح دلیل ہے۔
ہر قراءت دوسری کی تصدیق کرتی ہے اور معانی میں وسعت پیدا کرتی ہے۔ (النشر: 1؍52)