قرآن کی پیشگوئیاں: الٰہی کلام کی دلیل
اللہ تعالیٰ کا یہ مستقل طریقہ ہے کہ جب وہ کسی کو اپنا نبی بنا کر بھیجتا ہے اور اس پر اپنا کلام نازل کرتا ہے، تو اس کلام کو لوگوں کے سامنے حق ثابت کرنے کے لیے اس میں آئندہ آنے والے کچھ واقعات کی پیشگوئیاں شامل کی جاتی ہیں۔ اگرچہ پیشگوئیاں نجومی بھی کرتے ہیں، مگر ان میں یقین اور قطعیت نہیں ہوتی۔ تاریخ گواہ ہے کہ کوئی بھی نجومی یہ دعویٰ نہیں کرسکا کہ اس کی تمام پیشگوئیاں ہمیشہ درست ثابت ہوئیں اور کبھی کوئی غلطی نہ ہوئی۔
اللہ کی سنت یہ بھی ہے کہ جھوٹی نبوت کے دعویدار کی پیشگوئیاں پوری نہیں ہونے دی جاتیں۔ قرآن کریم میں بہت سی ایسی پیشگوئیاں شامل ہیں جو حرف بہ حرف درست ثابت ہوئیں۔ ان کی صداقت کا اعتراف اسلام کے بڑے سے بڑے مخالفین نے بھی کیا ہے۔ یہاں تمام پیشگوئیوں کو تفصیل سے بیان کرنا ممکن نہیں، لیکن چند اہم مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔
رومیوں کی فتح: ایک حیران کن پیشگوئی
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں روم اور ایران کے درمیان شدید جنگ جاری تھی۔ ایرانی فوجیں رومیوں پر غالب آچکی تھیں اور رومی سلطنت زوال پذیر نظر آ رہی تھی۔ ان حالات میں مشرکین مکہ ایران کی فتح کو اپنی کامیابی اور مسلمانوں کی شکست کے طور پر دیکھتے تھے، کیونکہ ایرانی آتش پرست تھے اور روم اہل کتاب۔
ایسے موقع پر سورہ روم کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں:
"الم ﴿۱ غُلِبَتِ الرُّومُ ﴿۲ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُم مِّن بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ ﴿۳ فِي بِضْعِ سِنِينَ لِلَّهِ الْأَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِن بَعْدُ وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ ﴿۴”
(سورہ روم: 1-4)
ترجمہ: "روم مغلوب ہوگئے ہیں، قریب کی زمین میں، اور وہ اپنی مغلوبیت کے بعد چند سالوں میں غالب آجائیں گے۔ اس دن مومنین خوش ہوں گے اللہ کی مدد سے۔”
یہ پیشگوئی اس وقت کے حالات میں ناممکن نظر آتی تھی، کیونکہ رومیوں کی حالت دن بدن خراب ہوتی جارہی تھی۔ کفار مکہ نے اس پیشگوئی کا مذاق اڑایا اور قریش کے سردار ابی بن خلف نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے شرط لگا لی کہ اگر تین سال کے اندر رومی غالب آئے تو وہ دس اونٹ دیں گے، ورنہ حضرت ابوبکر کو دینے ہوں گے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت کی کہ عربی میں "بضع” کا مطلب 3 سے 9 سال کے درمیان ہوتا ہے، لہذا شرط کی مدت بڑھا کر 9 سال اور اونٹوں کی تعداد سو کردی گئی۔
رومیوں کی شکست کے 7 سال بعد قیصر روم ہرقل نے ایران کے خلاف جنگ میں زبردست کامیابیاں حاصل کیں۔ مسلمانوں کو بدر کے میدان میں فتح کی خبر کے ساتھ رومیوں کی کامیابی کی خوشخبری بھی ملی۔ قرآن کی یہ پیشگوئی اس وقت دوہری خوشی کا سبب بنی۔
حوالہ: سقوط زوال سلطنت روما، جلد 5، صفحہ 73-74
فتح مکہ کی پیشگوئی
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کفار مکہ کے ظلم و ستم سے تنگ آکر ہجرت کے ارادے سے مکہ مکرمہ سے نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غار ثور میں قیام کے دوران مکہ کی یاد ستائی۔ اس وقت قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی:
"إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَىٰ مَعَادٍ”
(سورہ قصص: 85)
ترجمہ: "جس ذات نے آپ پر قرآن فرض کیا ہے، وہ آپ کو دوبارہ واپس لوٹائے گا۔”
ظاہری حالات کے لحاظ سے اس پیشگوئی کا پورا ہونا ناممکن لگ رہا تھا، لیکن چند سال بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاتح کی حیثیت سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ یہ قرآن کی معجزانہ خبر کا ایک اور واضح ثبوت ہے۔
یہودیوں کی تمنائے موت
یہودی اس بات کے دعوے دار تھے کہ آخرت میں کامیابی صرف ان کے لیے خاص ہے۔ اس کے جواب میں قرآن نے چیلنج دیا:
"قُلْ إِن كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْآخِرَةُ عِندَ اللَّهِ خَالِصَةً مِّن دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ”
(سورہ البقرہ: 94-95)
ترجمہ: "کہہ دو کہ اگر آخرت کا گھر صرف تمہارے لیے مخصوص ہے تو موت کی تمنا کرو، اگر تم سچے ہو۔ لیکن یہ اپنے اعمال کے سبب کبھی موت کی تمنا نہیں کریں گے۔”
یہودی جو ہمیشہ بحث و مناظرے میں سرگرم رہتے تھے، اس چیلنج کے بعد خاموش ہوگئے۔ نہ کوئی یہودی موت کی تمنا کرنے کی ہمت کرسکا اور نہ اس چیلنج کا جواب دیا۔ یہ قرآن کی صداقت اور وحی کی سچائی کی روشن دلیل ہے۔
قرآن کی حفاظت: اللہ کا وعدہ
قرآن نے اپنی حفاظت کے متعلق واضح طور پر اعلان کیا:
"إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ”
(سورہ حجر: 9)
ترجمہ: "ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔”
چودہ سو سال گزر جانے کے باوجود قرآن کا ایک لفظ بھی تبدیل نہ ہوسکا۔ پچھلی آسمانی کتابوں کے برخلاف، جن میں تحریف و ترمیم کی گئی، قرآن آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔ لاکھوں افراد کے سینوں میں محفوظ قرآن کے نسخے آج بھی ہر چیلنج کے مقابلے میں کھڑے ہیں۔
خلاصہ
قرآن کریم کی پیشگوئیاں، جیسے رومیوں کی فتح، فتح مکہ، یہودیوں کا چیلنج اور اس کی حفاظت کا وعدہ، تمام انسانوں کے لیے ایک کھلی دلیل ہیں کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ ان پیشگوئیوں کا معجزانہ طور پر پورا ہونا انسانی کوشش یا تدبیر سے باہر کی بات ہے۔