قرآن کا علمی اعجاز اور پروفیسر کا قبول اسلام
شیخ العریفی کی بیان کردہ یہ حیرت انگیز کہانی قرآن کے علمی اعجاز اور اس کے اثرات کا ایک واضح ثبوت ہے، جو عقل و شعور رکھنے والے انسان کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ شیخ عبد المجید زندانی کی ملاقات ایک غیر مسلم پروفیسر سے ہوئی، جس میں یہ واقعہ اس بات کا گواہ ہے کہ قرآن کریم کی سچائی کو سائنسی تحقیق کے ذریعے بھی ثابت کیا جا سکتا ہے۔
اس واقعے میں، ایک پروفیسر نے انسانی جلد میں موجود درد کے احساس کی وضاحت پیش کی کہ انسانی جسم میں درد کا مرکز جلد ہے، اور جب جلد کو نقصان پہنچتا ہے تو ہمیں درد کا احساس ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ جب جلد ختم ہو جائے تو درد کا احساس بھی ختم ہو جاتا ہے۔ یہ تحقیق سائنسی تجربات پر مبنی تھی اور حالیہ دور کی نئی دریافتوں میں شمار ہوتی تھی۔
شیخ زندانی نے اس موقع پر پروفیسر کو قرآن کی آیت سنائی جو سورة النساء (56) میں موجود ہے، جس میں اللہ تعالیٰ اہل جہنم کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جب ان کی کھال جل جائے گی، تو انہیں نئی کھال دی جائے گی تاکہ وہ مسلسل عذاب کا مزہ چکھتے رہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ درد کا مرکز جلد ہی ہے، اور جب وہ ختم ہو جائے تو درد کا احساس بھی ختم ہو جاتا ہے۔
پروفیسر اس بات پر حیران رہ گیا کہ جو بات حالیہ تحقیق سے معلوم ہوئی ہے، وہ قرآن میں چودہ سو سال پہلے بیان کی جا چکی ہے۔ اس نے مختلف ذرائع سے قرآن کے ترجمے کی تصدیق کی، اور آخرکار اسلام قبول کر لیا۔ مزید حیران کن بات یہ ہے کہ ایک سال بعد اس پروفیسر نے خود کے اسلام قبول کرنے کے ساتھ یہ بھی بتایا کہ اس کے ہاتھ پر مزید پانچ سو افراد نے بھی اسلام قبول کیا۔
اس واقعے کے اہم نکات
➊ قرآن کا علمی اعجاز: قرآن کی آیت کا سائنسی تحقیق سے تصدیق ہونا کہ درد کا مرکز انسانی جلد میں ہے۔
➋ پروفیسر کا قبول اسلام: ایک غیر مسلم سائنسدان کا قرآن کی سچائی کو تسلیم کر کے اسلام قبول کرنا۔
➌ اسلام کی تبلیغ: پروفیسر نے اسلام قبول کرنے کے بعد مزید پانچ سو لوگوں کو بھی اسلام کی طرف راغب کیا۔
خلاصہ
یہ واقعہ ہمیں اس حقیقت کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ قرآن محض ایک مذہبی کتاب نہیں، بلکہ اس میں ایسے علمی اور سائنسی حقائق موجود ہیں جو آج کی تحقیق سے بھی ہم آہنگ ہیں۔ یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن کی حکمت نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں کو بھی متاثر کر کے حق کی طرف لے جاتی ہے۔