قرآن کی زبان پر اعتراضات اور تاریخی حقائق کا جواب

چند سال پہلے ایک کتاب شائع ہوئی جو چار پانچ جلدوں پر مشتمل تھی۔ اس میں قرآن پاک کے حوالے سے دورِ جدید کے معروف مستشرقین کے منتخب مضامین شامل کیے گئے تھے۔ ان مضامین میں کئی باتیں کہی گئیں، جن میں سے ایک عجیب بات یہ تھی کہ قرآنِ پاک میں صرفی اور نحوی غلطیاں موجود ہیں۔ اس بات کو خاصی شدت سے پیش کیا گیا۔

جب یہ کتاب نئی نئی شائع ہوئی تھی، تو مجھے ایک مغربی ملک جانے کا موقع ملا۔ وہاں ایک شخص سے ملاقات ہوئی، جو دیگر غیر مسلموں کی نسبت مسلمانوں کے بارے میں زیادہ ہمدردی رکھتے تھے۔ ان سے کئی دن گفتگو رہی۔ ایک دن انہوں نے اس کتاب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ قرآنِ پاک میں صرفی و نحوی غلطیاں پائی جاتی ہیں، اور اس بات پر زور بھی دیا۔ یہ سن کر مجھے بڑی حیرت ہوئی۔

میں نے ان سے سوال کیا کہ انگریزی زبان کی سب سے قدیم گرامر کی کتاب کب لکھی گئی تھی؟ انہوں نے کہا کہ انہیں اس کا علم نہیں۔ میں نے کہا کہ چلیں کسی اور سے معلوم کرتے ہیں۔ کسی شخص سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ یہ کتاب تقریباً دو سو یا سوا دو سو سال پہلے لکھی گئی تھی۔ میں نے اس پر کہا کہ اگر انگریزی گرامر کی کتاب اور شیکسپیئر کے کلام میں کوئی اختلاف ہو، تو آپ شیکسپیئر کو غلط قرار دیں گے یا اس گرامر کی کتاب کے مصنف کو؟

انہوں نے جواب دیا کہ یقیناً گرامر کی کتاب کے مصنف نے غلط لکھا ہوگا۔ اس پر میں نے کہا کہ عربی زبان کی جو سب سے پرانی گرامر کی کتابیں لکھی گئیں، وہ قرآن کے نزول کے تقریباً دو سو سال بعد کی ہیں، اور انہیں غیر عربوں نے تحریر کیا۔ اگر قرآن میں کوئی گرامیٹیکل غلطی ہوتی تو مکہ کے کفار، مشرکین اور پوری عرب دنیا اس پر خاموش نہ رہتی، بلکہ اس کو بڑا موضوع بناتے۔ وہ عرب کے فصحاء، جو قرآن کے چیلنج کے جواب میں خاموش تھے، وہ اس غلطی کی نشاندہی کرتے۔ لیکن کبھی بھی کسی عرب ادیب یا شاعر نے قرآن کے کسی اسلوب کو عربی زبان اور گرامر سے متصادم نہیں کہا۔

پھر میں نے ان سے مزید وضاحت کی کہ اردو زبان کی سب سے قدیم گرامر ایک مغربی مصنف، ڈاکٹر گل کرائسٹ نے لکھی تھی۔ گل کرائسٹ کی گرامر اردو کی قدیم ترین گرامر سمجھی جاتی ہے۔ میں نے کہا کہ اردو وہ ہے جو مرزا غالب نے لکھی ہے، چاہے گل کرائسٹ کچھ بھی کہے۔ اگر مرزا غالب کی تحریر گل کرائسٹ کے قواعد کے خلاف بھی ہو، تو یہی کہا جائے گا کہ گل کرائسٹ نے غلط سمجھا ہے۔ گل کرائسٹ کے کسی بیان سے مرزا غالب کا کلام غلط نہیں ہوگا۔ اسی طرح، اردو وہی ہے جو ذوق یا میر تقی میر نے لکھی ہے۔ اگر اردو کے کسی بڑے ماہر صرف نے ان کے خلاف کوئی بات لکھی ہے، تو وہ غلط ہوگی۔

اسی طرح عربی زبان وہی ہے جو قرآن پاک میں بیان ہوئی ہے۔ عربی وہ ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانِ مبارک سے نکلی۔ جسے دشمنوں اور اپنوں دونوں نے عربی کا اعلیٰ ترین معیار تسلیم کیا۔ وہ لوگ جنہوں نے قرآن کے ادبی اعجاز کے سامنے سر تسلیم خم کیا، انہوں نے اس کی فصاحت کو مانا۔ اس اصول کے تحت، قرآن مجید اور حدیث رسول کی زبان ہی اصل، معیاری، اور مستند عربی ہے۔ اگر گرامر کی کسی کتاب میں اس کے برعکس کچھ لکھا گیا ہے، تو وہ غلط ہے۔
(از محاضراتِ سیرت، ڈاکٹر محمود احمد غازی، ص 715-716)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!