اکثر مفسرین کرام نے فرمایا ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ بن ابو معیط کے بارے میں نازل ہوئی ہے جبکہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں قبیلہ بنو مصطلق سے زکوة لینے کے لیے بھیجا تھا۔ چنانچہ مسند احمد میں ہے حضرت حارث بن ضرار خزاعی رضی اللہ عنہ جو ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہ کے والد ہیں فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے مجھے اسلام کی دعوت دی جو میں نے منظور کر لی اور مسلمان ہو گیا۔ پھر آپ نے زکوة کی فرضیت سنائی میں نے اس کا بھی اقرار کیا اور کہا کہ میں واپس اپنی قوم میں جاتا ہوں اور ان میں سے جو ایمان لائیں اور زکوۃ ادا کریں میں ان کی زکوة جمع کرتا ہوں اتنے اتنے دنوں کے بعد آپ میری طرف کسی آدمی کو بھیج دیجیے میں اس کے ہاتھ جمع شده مال زکوة آپ کی خدمت میں بجھوا دوں گا۔ حضرت حارث رضی اللہ عنہ نے واپس آ کر یہی کیا مال زکوۃ جمع کیا، جب وقت مقرر گزر چکا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی قاصد نہ آیا تو آپ نے اپنی قوم کے سرداروں کو جمع کیا اور ان سے کہا یہ تو ناممکن ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وعدے کے مطابق اپنا کوئی آدمی نہ بھیجیں مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں کسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے ناراض نہ ہو گئے ہیں ؟ اور اس بنا پر آپ نے اپنا کوئی قاصد مال زکوة لے جانے کے لیے نہ بھیجا ہو اگر آپ لوگ متفق ہوں تو تم اس مال کو لے کر خود ہی مد ینہ شریف چلیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیں، یہ تجویز طے ہو گئی اور یہ حضرات اپنا مال زکوة ساتھ لے کر چل کھڑے ہوئے ادھر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کو اپنا قاصد بنا کر بھیج چکے تھے، لیکن یہ حضرات راستے ہی میں سے ڈر کے مارے لوٹ آئے اور یہاں آ کر کہا کہ حارث نے زکوة کو بھی روک لیا اور میرے قتل کے در پے ہو گیا۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوئے اور کچھ دی حارث کی تنبیہ کے لیے روانہ ہوئے۔ مدینہ کے قریب ہی راستے ہی میں اس مختصر سے لشکر نے حارث عنہ کو پا لیا اور گھیر لیا۔ حضرت حارث رضی اللہ عنہ نے پوچھا : آخر کیا بات ہے؟ تم کہاں اور کسی کے پاس جا رہے ہو؟ انھوں نے کہا ہم تیری طرف بھیجے گئے ہیں۔ پوچھا کیوں؟ کہا اس لیے کہ تو نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد ولید رضی اللہ عنہ کو زکوة نہ دی بلکہ انھیں قتل کرنا چاہا۔ حضرت حارث رضی اللہ عنہ نے کہا : قسم ہے اس اللہ کی جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا رسول بنا کر بھیجا ہے نہ میں نے اسے دیکھا نہ وہ میرے پاس آیا، چلو میں تو خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو رہا ہوں۔ یہاں آئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ تو نے زکوة کو بھی روک لیا اور میرے آدمی کو بھی قتل کرنا چاہا۔ آپ نے جواب دیا ہرگز نہیں، یا رسول الله قسم ہے اس اللہ کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا رسول بنا کر بھیجا ہے نہ میں نے انھیں دیکھا نہ وہ میرے پاس آئے۔ بلکہ قاصد کو نہ دیکھ کر اس ڈر کے مارے کہیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے ناراض نہ ہو گئے ہوں اور اسی وجہ سے قاصد نہ بھیجا تو میں خود حاضر خدمت ہوا، اس پر یہ آیت «حكيم » تک نازل ہوئی۔
طبرانی میں یہ بھی ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد حضرت حارث رضی اللہ عنہ کی بستی کے پاس پہنچا تو یہ لوگ خوش ہو کر اس کے استقبال کے لیے خاص تیاری کر کے نکلے اور ان کے دل میں یہ شیطانی خیال پیدا ہوا کہ یہ لوگ مجھ سے لڑنے کے لیے آ رہے ہیں تو لوٹ کر واپس چلے آئے، انھوں نے جب یہ دیکھا کہ آپ کے قاصد واپس چلے گئے اور خود ہی حاضر ہوئے اور ظہر کی نماز کے بعد صف بستہ ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ نے زکوۃ وصول کرنے کے لیے اپنے آدمی کو بھیجا ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں ہم بے حد خوش ہوئے لیکن اللہ جانے کیا ہوا کہ وہ راستے میں سے ہی لوٹ گئے تو اس خوف سے کہیں اللہ ہم سے ناراض نہ ہو گیا ہو ہم حاضر ہوئے ہیں۔ اسی طرح وہ عذر معذرت کرتے رہے عصر کی اذان جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے دی اس وقت یہ آیت نازل ہوئی، اور روایت میں ہے کہ حضرت ولید رضی اللہ عنہ کی اس خبر پر بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سوچ ہی رہے تھے کہ کچھ آدمی ان کی طرف بھیجیں جو ان کا وفد آ گیا اور انھوں نے کہا آپ کا قاصد آدھے راستے سے ہی لوٹ گیا تو ہم نے خیال کیا کہ آپ نے کسی ناراضگی کی بناء پر انھیں واپسی کا حکم بھیج دیا ہو گا اس لیے حاضر ہوئے ہیں، ہم اللہ کے غصے سے اور آپ کی ناراضگی سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔ پس اللہ تعالی نے یہ آیت اتاری اور اس کا عذر سچا بتایا۔
تحقیق الحدیث :
اسناده ضعیف۔
اس کی سند ضعیف ہے۔ [مسند احمد 279/4 حديث رقم 18650 طبراني فى الكبير رقم 3395 بجمع الزوائد 109/7 رقم الحديث 11352]
اسی طرح کی روایت (طبری 383/1) رقم (31685) میں ہے اس میں موسی بن عبید الربذی راوی ضعیف ہے۔ طبری کی اس کے بعد
والی روایت میں عطیہ بن سعد عوفی راوی ضعیف ہے۔