قرآن پڑھنے والوں کی تین اقسام والی حدیث کی حقیقت
ماخوذ: فتاویٰ الدین الخالص ج1ص58

سوال

کیا درج ذیل حدیث صحیح ہے؟ اور یہ کہاں موجود ہے؟

"جو شخص قرآن لوگوں سے کھانے کے لیے پڑھتا ہے، قیامت کے دن اس حالت میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت نہیں ہوگا۔ قرآن پڑھنے والے تین قسم کے ہیں:

➊ وہ شخص جو قرآن پڑھتا ہے اور صرف اس کے حروف کا خیال رکھتا ہے، حدود کا خیال نہیں رکھتا، ایسے لوگ بہت ہیں، اللہ کرے کہ یہ زیادہ نہ ہوں۔

➋ وہ شخص جو قرآن پڑھتا ہے اور بادشاہوں کی توجہ حاصل کرنے یا لوگوں کو مائل کرنے کے لیے اسے اپنی تجارت بنا لیتا ہے۔

➌ وہ شخص جو قرآن پڑھتا ہے، اسے اپنے دل کی دوا بناتا ہے، رات کو اس کے ساتھ قیام کرتا ہے، دن کو روزہ رکھ کر تلاوت کرتا ہے، اور اس کے ذریعے اپنی مساجد میں قیام کرتا ہے، تو ایسے لوگوں کی وجہ سے اللہ بلائیں ٹالتا ہے، دشمنوں کو دور کرتا ہے، اور آسمان سے بارش برساتا ہے۔ یہ قراء اللہ کے نزدیک کبریت احمر (نایاب چیز) سے زیادہ عزیز ہیں۔”

الجواب

الحمد للہ، والصلاة والسلام علی رسول اللہ، أما بعد!
یہ روایت ضعیف بلکہ موضوع (من گھڑت) ہے۔

حدیث کے مصادر اور ضعف کی وجوہات

امام ابن حبان نے اس روایت کو "الضعفاء والمتروکین” (1/148) میں ذکر کیا ہے۔

امام بیہقی نے اسے "کتاب الایمان” میں نقل کیا ہے۔

امام سیوطی نے اسے "الجامع الصغیر” (حدیث 5763) میں ذکر کیا ہے۔

امام ابن جوزی نے اسے "الاحادیث الواہیہ” (1/148) میں درج کر کے فرمایا:

"یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں، بلکہ حسن بصری رحمہ اللہ کا قول ہے۔”

امام البانی رحمہ اللہ نے "ضعیف الجامع” میں اسے موضوع (من گھڑت) قرار دیا ہے، اور "السلسلہ الضعیفہ” (حدیث 1356) میں اس کی علتیں بیان کی ہیں۔

حدیث کی سند میں "احمد بن مقیم بن نعیم” نامی راوی موجود ہے، جو منکر اور مقلوب حدیثیں بیان کرتا تھا، یعنی اس کی روایات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔

شیخ زکریا کاندھلوی نے "فضائل الاعمال” (1/106) میں اس حدیث کو ذکر کیا ہے، حالانکہ یہ ثابت نہیں۔

کیا اس مفہوم کی کوئی صحیح حدیث موجود ہے؟

یہ مفہوم کسی حد تک صحیح احادیث میں موجود ہے، مگر یہ خاص روایت درست نہیں۔

قرآن کو دنیاوی فائدے کے لیے پڑھنے کی مذمت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض صحیح احادیث میں ملتی ہے۔

📖 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"جو شخص قرآن پڑھ کر اس کے ذریعے دنیاوی فائدہ حاصل کرے، وہ قیامت کے دن اس حالت میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت نہیں ہوگا۔”

(سنن ابن ماجہ، حدیث 252)

📖 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا:

"سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔”

(صحیح بخاری، حدیث 5027)

نتیجہ

یہ حدیث ضعیف بلکہ موضوع (من گھڑت) ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔

اس حدیث کو نقل کرنا درست نہیں، خصوصاً بغیر وضاحت کے کہ یہ ضعیف ہے۔

قرآن کو اخلاص کے ساتھ پڑھنا اور سیکھنا بہترین عمل ہے، مگر اسے دنیاوی فوائد کے لیے استعمال کرنا ناپسندیدہ ہے، جیسا کہ صحیح احادیث میں مذمت موجود ہے۔

(الضعفاء لابن حبان، الاحادیث الواہیہ لابن جوزی، السلسلہ الضعیفہ، سنن ابن ماجہ، صحیح بخاری)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1