اعتراض: "قرآن ہی کافی ہے، حدیث کی کیا ضرورت ہے؟”
اعتراض 1: قرآن ہر چیز کی وضاحت کرتا ہے، حدیث کی ضرورت کیوں؟
یہ اعتراض اس بنیاد پر کیا جاتا ہے کہ قرآن خود کو ہر چیز کی وضاحت کرنے والی کتاب قرار دیتا ہے۔ جیسے کہ قرآن میں آیا:
"وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ”
(النحل: 89)
ترجمہ: "اور ہم نے تم پر ایسی کتاب نازل کی جو ہر چیز کو کھول کر بیان کرتی ہے۔”
جواب:
قرآن کی جامعیت کا مطلب یہ نہیں کہ ہر مسئلے کی تمام جزئیات تفصیل سے قرآن میں موجود ہوں۔ قرآن کریم نے اصول اور کلیات بیان کیے ہیں، جبکہ ان اصولوں کی وضاحت اور جزئیات کے لیے پیغمبر اکرم ﷺ کی سنت کو ضروری قرار دیا ہے۔
مثلاً:
- نماز کا حکم قرآن میں آیا، مگر نماز پڑھنے کا مکمل طریقہ قرآن میں تفصیل سے نہیں دیا گیا۔
- زکوٰۃ کا حکم موجود ہے، لیکن زکوٰۃ کی شرح اور نصاب قرآن میں وضاحت سے نہیں ملتا۔
لہٰذا، قرآن کریم کی جامعیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ اصولی رہنمائی فراہم کرتا ہے، جبکہ سنت ان اصولوں کی عملی تفصیلات مہیا کرتی ہے۔ جیسا کہ قرآن کہتا ہے:
"وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ”
(النحل: 44)
ترجمہ: "اور ہم نے آپ پر ذکر (قرآن) نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کے لیے واضح کریں جو ان پر نازل کیا گیا ہے۔”
اعتراض 2: وحی صرف قرآن ہے، حدیث کی ضرورت نہیں؟
یہ اعتراض اس بات پر زور دیتا ہے کہ قرآن میں صرف وحی کی پیروی کا ذکر ہے اور وحی کو صرف قرآن تک محدود کیا جاتا ہے۔
جواب:
قرآن مجید واضح کرتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کو اللہ کی جانب سے دو قسم کی وحی دی گئی:
- قرآن کی وحی: جو اللہ کا کلام ہے۔
- غیر قرآنی وحی: جو نبی اکرم ﷺ کے افعال، اقوال، اور تفسیرات پر مشتمل ہے۔
"وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ”
(النجم: 3-4)
ترجمہ: "اور وہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے، یہ تو وحی ہے جو ان پر بھیجی جاتی ہے۔”
نبی اکرم ﷺ نے قرآن کے ساتھ ساتھ غیر قرآنی وحی کے ذریعے بھی امت کی رہنمائی کی۔ احادیث دراصل اسی غیر قرآنی وحی کی عکاس ہیں۔
اعتراض 3: قرآن میں ہر چیز کی وضاحت ہے، حدیث کی ضرورت کیوں؟
یہ اعتراض سورہ النحل کی آیت 89 اور سورہ الانعام کی آیت 38 کی بنیاد پر کیا جاتا ہے:
"مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ”
(الانعام: 38)
ترجمہ: "ہم نے کتاب میں کسی چیز کو نہیں چھوڑا۔”
جواب:
قرآن میں اصول اور کلیات موجود ہیں، مگر ان اصولوں کی وضاحت اور تفصیل کے لیے نبی ﷺ کی سنت ناگزیر ہے۔
مثلاً:
- چوری کی سزا: قرآن کہتا ہے کہ چور کے ہاتھ کاٹے جائیں (المائدہ: 38)، لیکن کس مقدار کی چوری پر؟ اور کن حالات میں؟ یہ وضاحت احادیث سے ملتی ہے۔
- نماز کے اوقات اور رکعات: قرآن میں نماز کا ذکر موجود ہے، مگر اس کی مکمل تفصیلات حدیث کے ذریعے معلوم ہوتی ہیں۔
"لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ”
ترجمہ:”یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات میں بہترین نمونہ ہے۔”
(الاحزاب: 21)
اعتراض 4: اگر قرآن کی تفسیر حدیث سے ہو، تو قرآن حدیث کا محتاج ہو جائے گا؟
یہ اعتراض ان لوگوں کی طرف سے کیا جاتا ہے جو سمجھتے ہیں کہ قرآن مکمل طور پر خود کفیل ہے اور کسی بیرونی وضاحت کی ضرورت نہیں۔
جواب:
یہ بات سمجھنی ضروری ہے کہ قرآن اور حدیث ایک دوسرے کے معاون ہیں، محتاج نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو قرآن کی تشریح کا فریضہ دیا ہے، جیسا کہ قرآن خود کہتا ہے:
"وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ”
ترجمہ:”اور ہم نے آپ کی طرف یہ ذکر (قرآن) نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کے لیے وہ واضح کریں جو ان کی طرف نازل کیا گیا ہے۔”
(النحل: 44)
اگر حدیث کو مسترد کر دیا جائے تو کئی اہم قرآنی احکامات پر عمل ممکن نہیں:
- حج کے مناسک
- زکوٰۃ کی شرح
- رمضان کے روزے رکھنے کے تفصیلی احکام
احادیث کی اہمیت کے سوالات کے عملی جوابات
- نماز کی ترتیب: قرآن صرف نماز کا حکم دیتا ہے، لیکن نماز کے رکوع، سجدے، قیام اور ترتیب کی تفصیل حدیث سے معلوم ہوتی ہے۔
- زکوٰۃ کی شرح: قرآن زکوٰۃ کا حکم دیتا ہے، لیکن اس کی مقدار، نصاب اور اقسام کی تفصیل حدیث سے آتی ہے۔
- حلال و حرام: قرآن میں بعض جانوروں کے حلال و حرام ہونے کا ذکر ہے، مگر بہت سی اشیاء کی وضاحت حدیث سے ملتی ہے، جیسے مچھلی کی حلت۔
خلاصہ
قرآن اور حدیث دونوں اسلام کی بنیاد ہیں۔ قرآن اللہ کا کلام ہے اور حدیث رسول اللہ ﷺ کی قولی و عملی تشریح۔ دونوں کو الگ کرنے کی کوشش دین کے بنیادی اصولوں کو متاثر کرتی ہے۔
"قرآن مختصر ہونے کے باوجود جامع ہے، اور یہ جامعیت تبھی درست ہو سکتی ہے جب اس میں اصول و کلیات کا بیان ہو۔”
(الموافقات: 3/132)