اعتراض:
سورة الأحزاب کی آیت نمبر 4 میں اللہ فرماتا ہے کہ "ہم نے کسی انسان کے سینے میں دو دل نہیں بنائے”، جبکہ کچھ بچوں کی تصویریں گوگل پر موجود ہیں جن کے سینے میں دو دل ہیں۔ اللہ نے تو ایک دل والے انسان پیدا کیے، تو پھر ان انسانوں کو کس نے بنایا؟
جواب:
یہ اعتراض بنیادی طور پر قرآن کی آیات کو سیاق و سباق سے ہٹ کر دیکھنے کا نتیجہ ہے۔ جب قرآن کسی بات کا ذکر کرتا ہے، تو وہ عمومی اصول بیان کرتا ہے، اور ان اصولوں کا اطلاق انسانی فطرت اور عام حالتوں پر ہوتا ہے۔ اسی طرح، اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ عمومی اصول بیان کر رہا ہے کہ عام طور پر انسان کے جسم میں ایک ہی دل ہوتا ہے۔
1. عمومی اصول اور استثناء:
اللہ تعالیٰ اکثر انسانی جسمانی اور فطری خصوصیات کو بیان کرتے وقت عمومی حالتوں کو بطور دلیل پیش کرتا ہے۔ لاکھوں، کروڑوں انسانوں میں ایک یا دو استثنائی حالتیں ہو سکتی ہیں، مگر یہ قرآن کے عمومی اصولوں کے خلاف نہیں۔ مثال کے طور پر، اللہ فرماتا ہے:
"کیا ہم نے انسان کو دو آنکھیں نہیں دیں؟” (سورۃ البلد: 8)
اب اگر کسی انسان کی ایک آنکھ نہ ہو یا وہ نابینا ہو، تو کیا اس سے اللہ کے عمومی اصول کا انکار ہو جائے گا؟ نہیں، یہ صرف استثنائی حالات ہیں جو عمومی قانون کو تبدیل نہیں کرتے۔
2. سیاق و سباق میں آیت کا مقصد:
اس آیت کا سیاق و سباق دیکھیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ یہاں جسمانی ساخت کے بجائے ایک نفسیاتی اور سماجی معاملے کی بات کر رہا ہے۔ آیت میں اللہ نے کہا:
"نہ تمہاری بیویاں تمہاری مائیں ہو سکتی ہیں اور نہ تمہارے منہ بولے بیٹے حقیقت میں تمہارے بیٹے ہو سکتے ہیں۔” (سورۃ الأحزاب: 4)
یہ آیت دراصل اس بات کی وضاحت کر رہی ہے کہ ایک انسان کے دل میں دو مختلف حیثیتیں نہیں ہو سکتیں۔ یعنی کوئی شخص ایک عورت کو بیک وقت اپنی بیوی اور ماں تصور نہیں کر سکتا، اور اسی طرح منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹا نہیں کہا جا سکتا۔
3. دو دل اور دو شخصیتیں:
اگر کسی انسان کے سینے میں جسمانی طور پر دو دل موجود ہوں بھی، تو اس سے اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دو مختلف شخصیتیں اختیار کر لے گا۔ اس کے باوجود، ایک انسان کی شناخت، شخصیت اور احساسات ایک ہی ہوتے ہیں، چاہے دل ایک ہو یا دو۔ اس لیے اللہ تعالیٰ اس آیت میں نفسیاتی اور سماجی پہلو کو واضح کر رہا ہے کہ ایک انسان دو مختلف حیثیتیں ایک ساتھ نہیں رکھ سکتا۔
4. استثنائی حالات:
جہاں تک استثنائی طور پر دو دل رکھنے والے بچوں کا تعلق ہے، وہ ایک غیر معمولی حالت ہے، جو اللہ کی تخلیق کا ہی حصہ ہے۔ اللہ نے دنیا میں استثنائی حالتیں پیدا کی ہیں تاکہ لوگ اس کی تخلیق کی قدرت اور عظمت کو سمجھیں۔ لیکن یہ استثنائی حالتیں قرآن کے عمومی اصولوں کو چیلنج نہیں کرتیں۔
5. اللہ کی قدرت:
اللہ وہ ہے جو ہر چیز کو تخلیق کرتا ہے اور جسے چاہے، جیسے چاہے پیدا کرتا ہے۔ بعض اوقات اللہ استثنائی تخلیقات پیدا کرتا ہے تاکہ اس کی قدرت اور عظمت کو پہچانا جا سکے۔ یہ اعتراض دراصل دین دشمنوں کی جانب سے لوگوں کے ایمان میں شک ڈالنے کی کوشش ہے، جبکہ حقیقت میں قرآن کے اصول درست اور مستند ہیں۔
نتیجہ:
یہ آیت نفسیاتی اور سماجی حقیقت کی بات کر رہی ہے، نہ کہ جسمانی دل کی تعداد کی۔ ایک انسان کے اندر دو مختلف حیثیتیں نہیں ہو سکتیں، اور یہ استثنائی جسمانی حالتیں اللہ کی تخلیق کا حصہ ہیں جو قرآن کے عمومی اصولوں سے متصادم نہیں۔