قدر کی رات کونسی ہے
اس میں بے حد اختلاف ہے یہی وجہ ہے کہ اس کے متعلق حافظ ابن حجرؒ نے چالیس (40) اور امام شوکانیؒ نے پینتالیس (45) اقوال نقل فرمائے ہیں ۔
[فتح البارى: 794/4 – 799 ، نيل الأوطار: 263/3 – 266]
ان سب میں راجح اور قوی تر قول یہ ہے کہ شب قدر آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
تحروا ليلة القدر فى الوتر من العشر الأواخر من رمضان
”شب قدر رمضان کے آخری دھاکے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔“
[بخاري: 2017 ، كتاب فضل ليلة القدر: باب تحرى ليلة القدر فى الوتر من العشر الأواخر ، مسلم: 1129 ، ترمذي: 792 ، موطا: 319/1 ، أحمد: 50/6 ، ابن أبى شيبة: 9525 ، بيهقى: 307/4]
(ابن حجرؒ ، شوکانیؒ ) انہوں نے اسی قول کو ترجیح دی ہے۔
[فتح البارى: 795/4 ، نيل الأوطار: 271/3]
لیکن جمہور کے نزدیک شب قدر ستائیسویں رات ہے۔
[سبل السلام: 915/2]
ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شب قدر کے متعلق فرمایا:
ليلة سبع وعشرين
”يہ ستائیس کی رات ہے ۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 1236 ، كتاب الصلاة: باب من قال: سبع وعشرون ، أبو داود: 1386]
یاد رہے کہ حافظ ابن حجرؒ نے اسی کو ترجیح دی ہے کہ یہ حدیث موقوف ہے۔
[بلوغ المرام: 576]
علاوہ ازیں ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
فمن كان متحريها فليتحرها فى السبع الأوخر
”جو اسے تلاش کرنے کا خواہش مند ہو وہ اسے آخری سات (راتوں) میں تلاش کرے ۔“
[بخاري: 2015 ، كتاب فضل ليلة القدر: باب التماس ليلة القدر فى السبع الأواخر ، مسلم: 1165 ، موطا: 321/1 ، أحمد: 17/2 ، عبد الرزاق: 7688 ، ابن خزيمة: 2182]
یہ اور اس طرح کی دیگر تمام احادیث میں شب قدر کے تعین کا ذکر اس لیے ہے کیونکہ اس سال وہ رات شب قدر تھی لٰہذا وہی رات بتلا دی گئی۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ہمیشہ وہی رات شب قدر ہو گی۔