قدرتی شر، اخلاقی شر اور خدا کی رحمت پر سوال
سوال کا خلاصہ:
ایک عزیز نے یہ سوال کیا کہ قدرتی شر (Natural Evil) اور اخلاقی شر (Moral Evil) کی موجودگی میں کیا خدا کو رحیم و کریم کہا جا سکتا ہے؟ مثلاً معصوم بچوں کی مہلک بیماریوں اور بے گناہوں کی اموات کو کیسے خدائی رحمت کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے؟
قدرتی شر اور خدا کی موجودگی پر اعتراض
قدرتی شر کی وضاحت یوں کی جا سکتی ہے کہ یہ وہ حالات ہیں جہاں قدرتی آفات، بیماریاں اور دیگر غیر متوقع نقصانات انسانی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ معترضین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ قدرتی شر کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا موجود نہیں ہے یا اگر ہے تو رحم دل نہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ قدرتی شر، خدا کی غیر موجودگی کو ثابت کیسے کرتا ہے؟ اس کا معترضین کے پاس کوئی واضح جواب نہیں ہوتا۔
اگر ہم ان سے یہ بھی مان لیں کہ قدرتی شر کی وجہ سے خدا محبت کرنے والا نہیں رہا، تو بھی اس سے خدا کے وجود کا انکار ممکن نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ مانا جا سکتا ہے کہ خدا محبت نہیں کرتا، لیکن وجود تو برقرار ہے۔
خدا کی رحمت اور خوشحال انسانوں کی موجودگی
معترضین کا دوسرا دعویٰ یہ ہوتا ہے کہ آفات اور بیماریاں خدا کے رحیم و کریم نہ ہونے کی دلیل ہیں۔ لیکن اگر یہ استدلال صحیح ہے تو پھر دنیا کے کروڑوں انسان جو خوشحال زندگی گزار رہے ہیں، کیا وہ خدا کی رحمت اور کرم کی دلیل نہیں؟
دنیا میں آفات سے متاثرہ افراد کی تعداد، عام انسانوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ تو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ صرف آفات کی بنیاد پر خدا کی رحمت پر سوال اٹھایا جائے؟
قدرتی اور اخلاقی شر کے پیچھے حکمت
قدرتی اور اخلاقی شر بظاہر ایک سطحی مسئلہ لگتا ہے، لیکن اس کے پیچھے گہری منصوبہ بندی اور حکمت کار فرما ہوتی ہے۔ آفات اور بیماریاں جانداروں کی بقا کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ اگر کسی نوع میں حد سے زیادہ اضافہ ہو جائے تو قدرتی نظام خود بخود اسے قابو میں لاتا ہے تاکہ توازن برقرار رہے۔
مثال کے طور پر، Lemmings کے خودکش مارچ کا واقعہ مشہور ہے، جب ان کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوتا ہے تو وہ ہجرت کے دوران بڑی تعداد میں ہلاک ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک حیاتیاتی اور ماحولیاتی توازن کا حصہ ہے، جو دیگر جانداروں کے ساتھ انسانوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔
اس بظاہر شر کے ذریعے مجموعی خیر وجود میں آتا ہے، جسے عام انسان نہیں سمجھ پاتا۔
آخرت میں انصاف اور مسلمانوں کا عقیدہ
بطورِ مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ دنیاوی زندگی کی حیثیت وقتی ہے، جبکہ اصل زندگی آخرت کی ہے۔ جو معصوم بچے یا بے گناہ افراد دنیاوی آفات یا بیماریوں میں مارے جاتے ہیں، ان کے لیے خدا نے آخرت میں بہتر انتظام کر رکھا ہے۔
ان معصوم افراد کو دنیاوی آزمائشوں سے آزاد کر کے آخرت میں بغیر کسی حساب کے دائمی رحمت عطا کی جائے گی۔ یہ دنیاوی نقصان دراصل ان کے لیے آخرت میں ایک بڑا انعام ثابت ہو گا۔
نتیجہ:
قدرتی اور اخلاقی شر کے وجود سے خدا کی رحمت پر اعتراض درست نہیں۔ ان مشکلات کے پیچھے ایک اجتماعی حکمت کار فرما ہے، اور آخرت میں ان معصوم جانوں کو وہ سب کچھ ملے گا جس کا دنیا میں نقصان ہوا۔ اس لیے خدا کی رحمت پر شک کی گنجائش نہیں۔