قحط سالی کے وقت دو رکعتیں نماز جس کے بعد خطبہ ہو مسنون ہے
لغوی وضاحت: لفظ ”استسقاء“ باب اسْتَسْقَى يَسْتَسْقِي (استفعال) سے مصدر ہے۔ اس کا معنی ”پانی مانگنا یا پانی طلب کرنا“ مستعمل ہے ۔
[القاموس المحيط: ص / 1166 ، المنجد: ص/ 381]
شرعی تعریف: قحط سالی کے وقت اللہ تعالیٰ سے ایک مخصوص طریقے کے ساتھ بارانِ رحمت طلب کرنا استسقاء کہلاتا ہے۔
[فتح الباري: 179/3 ، نيل الأوطار: 645/2]
◈ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ایک روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس قوم نے ماپ تول میں کمی کی انہیں قحط سالی سے دو چار ہونا پڑا اور جنہوں نے زکوۃ ادا نہیں کی وہ آسمانی بارش سے محروم کر دیے گئے اور اگر چوپائے نہ ہوتے تو ان پر بارش نہ برسائی جاتی ۔“
[حسن: صحيح ابن ماجة: 3246 ، كتاب الفتن: باب العقوبات ، الصحيحة: 106 ، ابن ماجة: 4019 ، حاكم: 540/4 ، حافظ ابوصيريؒ نے اس كي سند كو صحيح كها هے۔ مصباح الزجاجة: 246/3 ، شيخ محمد صجي حلاق نے اسے حسن كها هے۔ التعليق على سبل السلام: 265/3]
➊ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط سالی کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید گاہ میں منبر لے جانے کا حکم دیا۔ چنانچہ منبر رکھ دیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے ایک دن کا وعدہ کیا جس میں وہ سب باہر نکلیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت نکلے جب سورج کا ایک کنارہ ظاہر ہوا: فـقـعـد عـلـى المنبر
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھ گئے ۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وعظ ونصیحت کیا اور دعا مانگی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں دست مبارک اس طرح اوپر اٹھائے کہ وہ بتدریج آہستہ آہستہ اوپر اٹھتے گئے حتٰی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی جانب اپنی پشت کر کے کھڑے ہو گئے اور اپنی چادر کو پھیر کر پلٹایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے ہوئے تھے۔ پھر لوگوں کی جانب متوجہ ہوئے اور منبر سے نیچے تشریف لے آئے اور دو رکعت نماز پڑھائی ۔ اسی لمحہ اللہ تعالیٰ نے آسمان پر بادل پیدا کیا وہ بدلی گرجی اور چمکی ، اور بارش برسنے لگی۔
[حسن: صحيح أبو داود: 1040 ، كتاب الصلاة: باب رفع اليدين فى الاستسقاء ، ابو داود: 1173 ، حاكم: 328/1 ، شرح معاني الآثار: 325/1 ، بيهقي: 349/3]
➋ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بڑی تواضع کے ساتھ سادہ لباس میں نہایت عاجزی و انکساری ، بہت خشوع اور بڑے تضرع کے ساتھ نماز کے لیے باہر نکلے ، عید کی نماز کی طرح لوگوں کو دو رکعت نماز پڑھائی ۔ تمہارے عام خطبے کی طرح خطبہ ارشاد نہیں فرمایا (بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ کی حالت میں دعا ، تضرع اور اللہ کی بڑائی و کبریائی بیان فرماتے ) ۔
[حسن: صحيح ترمذى: 459 ، أبو داود: 1165 ، كتاب الصلاة ، ترمذي: 555 ، ابن ماحة: 1266 ، نسائي: 156/3 ، أحمد: 230/1 ، ابن خزيمة: 1405 ، بيهقى: 437/3 ، شرح معاني الآثار: 324/1 ، دار قطني: 68/2 ، حاكم: 326/1 ، ابن أبى شيبة: 473/2]
➌ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز استسقاء کے لیے ایک روز نكلے:
فصلى بنا ركعتين بلا أذان ولا إقامة ثم خطبنا و دعا الله وحول وجهه نحو القبلة رافعا يديه ثم قلب رداءه فجعل الأيمن على الأيسر والأيسر على الأيمن
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بغیر آذان و اقامت کے دو رکعت نماز پڑھائی پھر ہمیں خطبہ دیا اور اللہ تعالیٰ سے دعا شروع کر دی ، اپنے ہاتھ بلند کیے ہوئے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا چہرہ قبلے کی جانب پھیر دیا پھر اپنی چادر کو پلٹایا وہ اس طرح کہ اس کے دائیں حصے کو بائیں جانب اور بائیں کو دائیں جانب کر دیا ۔“
[ضعيف: ضعيف ابن ماجة: 261 ، كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها: باب ما جاء فى صلاة الاستسقاء ، ابن ماجة: 1268 ، أحمد: 362/2 ، بيهقى: 347/3]
➍ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش کے لیے دعا فرمائی تو اپنے دونوں ہاتھ الٹی سمت سے آسمان کی طرف اٹھا کر اشارہ فرمایا۔
[مسلم: 896 ، كتاب صلاة الاستسقاء]
➎ حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ :
ثم صلى ركعتين جهر فيهما بالقراءة
”پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھائی اور ان میں جہری قراءت فرمائی ۔“
[بخاري: 1024 ، كتاب الجمعة: باب الجهر بالقراءة فى الاستسقاء ، مسلم: 894 ، أبو داود: 1161 ، ترمذي: 553 ، نسائي: 164/3 ، ابن ماجة: 1267 ، أحمد: 39/4 ، دارمي: 361/1 ، شرح معاني الآثار: 326/1]
➏ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
كان النبى صلى الله عليه وسلم لا يرفع يديه فى شيء من دعائه إلا فى الاستسقاء
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم دعائے استسقاء کے علاوہ کسی دعا میں اپنے ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے ۔“
[بخاري: 1031 ، كتاب الجمعة: باب رفع الإمام يده فى الاستسقاء ، مسلم: 896/6]
ان احادیث سے مندرجہ ذیل مسائل ثابت ہوتے ہیں:
➊ نماز استسقاء قحط سالی کے وقت مشروع ہے۔
➋ اس نماز کے لیے نہایت عاجزی وانکساری کی حالت میں نکلنا چاہیے۔
➌ یہ نماز باہر کھلے میدان میں پڑھنی چاہیے۔
➍ یہ نماز دو رکعت ہے۔
➎ اس میں خطبہ بھی مشروع ہے۔
➏ خطبہ نماز سے پہلے اور بعد میں دونوں طرح درست ہے۔
➐ اس میں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا مسنون ہے۔
➑ دعا کے لیے الٹے ہاتھ آسمان کی جانب اٹھائے جائیں گے۔
➒ امام قبلہ رخ ہو کر اپنی چادر پلٹے گا۔
➓ امام جہری قراءت کرے گا۔
⓫ اس میں بھی آذان و اقامت ثابت نہیں۔
اس قدر واضح دلائل کے باوجود اس نماز کی مشروعیت میں اختلاف ہے۔
(جمہور) یہ نماز مشروع ہے۔
(ابو حنیفہؒ) یہ نماز مشروع نہیں ہے۔
(شوکانیؒ ) اس نماز کی مشروعیت میں امام ابو حنیفہؒ کے سوا کسی نے اختلاف نہیں کیا۔
[سبل السلام: 499/2 ، نيل الأوطار: 649/2]
خطبہ میں ذکر الٰہی ، اطاعت کی ترغیب ، نافرمانی سے بچنے کی تلقین ، امام اور اس کے ساتھ دوسرے لوگوں کا استغفار اور قحط سالی کے خاتمے کی دعا شامل ہونی چاہیے
➊ جیسا کہ گذشتہ احادیث میں مذکور ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے ساتھ خطبہ بھی ارشاد فرمایا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وعظ و نصیحت کے ساتھ مزید دعا بھی مانگی۔
➋ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا – يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا
[نوح: 10 – 11]
” (حضرت نوح علیہ السلام اپنے رب سے مخاطب ہیں کہ ) میں نے (اپنی قوم سے ) کہا اپنے رب سے استغفار کرو یقیناََ وہ بڑا بخشنے والا ہے اور وہ آسمان کو تم پر خوب برستا ہوا چھوڑ دے گا۔“
حضرت حسن بصریؒ سے جب کوئی قحط سالی کی شکایت کرتا تو وہ اسے (اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے ) استغفار کی تلقین کرتے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ دعائے استسقاء کے لیے منبر پر چڑھے تو انہوں نے صرف وہی آیات تلاوت کیں جن میں استغفار کا ذکر ہے۔
[تفسير ابن كثير: 314/6 ، تفسير أحسن البيان: ص/1634]
➌ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ :
وَأَنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُمَعُكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا
[هود: 3]
”تم لوگ اپنے رب سے استغفار کرو پھر اسی کی طرف متوجہ رہو وہ تمہیں اچھا سامان زندگی عطا کرے گا۔“
ان آیات سے معلوم ہوا کہ قحط سالی اور فقر و فاقے سے نجات کے لیے کثرت سے استغفار کرنا خود اللہ تعالیٰ کا بتایا ہوا فارمولا ہے۔