قتل شبہ کی دیت کیا ہے ؟
وَفِي رِوَايَةٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَأَنَّ رَسُولَ اللهِ لا قَالَ: عَقْلُ شِبْهِ الْعَمَدِ مُغَلَّظَةٌ مِثْلُ قَتْلِ الْعَمَدِ، وَلَا يُقْتَلُ صَاحِبُهُ، وَذَلِكَ أَنْ يَنزِعَ الشَّيْطَانُ بَيْنَ النَّاسِ فَيَكُونَ رَمَيًّا فِي عَميًّا، فِي غَيْرِ ضَعِينَةٍ وَلَا حَمْلِ سَلَاحٍ
اس سلسلہ سند کی ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”شبہ عمد کی دیت قتل عمد کے مانند ہوگی اس کے قاتل کو قتل نہیں کیا جائے گا اور یہ کہ شیطان لوگوں کے درمیان کچھ ڈال دے اور ہو اندھیر نگری میں تیروں کی بوچھاڑ بغیر کینے کے اور اسلحہ اٹھانے کے۔ “
تحقيق و تخریج:
حدیث حسن ہے۔
[الامام احمد: 2/ 183، ابوداؤد: 4565 ، ترمذي: 1387 ، ابن ماجة: 2726 بيهقي 70/8]
فوائد:
➊ قتل شبہ عمد میں قصاص نہیں ہے۔
➋ قتل شبہ عمد میں دیت مغلظہ ہوتی ہے۔ مغلظہ سو اونٹ ہوتی ہے۔ چالیس اونٹنیاں ایسی جو کہ حاملہ ہوں یہ سو میں شامل ہیں .
➌ قتل و غارت کے فروغ کے لیے شیطان شب و روز کاوش کرتا ہے۔
➍ قتل شبه عمد ایسے الہ سے قتل کرنا جس سے قتل ہو جانے کا امکان نہ ہو جبکہ وہ قتل کا ارادہ بھی رکھتا تھا۔

[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے