قبروں والی مسجد میں نماز پڑھنے کا شرعی حکم
ماخوذ: فتاویٰ الدین الخالص، ج1، ص160

سوال:

علمائے کرام اس مسجد کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جس میں ایک یا زیادہ قبریں ہوں؟ کیا اس میں نماز پڑھنا جائز ہے؟ کیا اس میں کوئی فرق ہے کہ قبر نمازی کے آگے، پیچھے یا پہلو میں ہو؟ برائے کرم کتاب و سنت، اجماع امت اور معتبر فقہی دلائل کی روشنی میں فتویٰ دیں۔

الجواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فتویٰ:

سب سے پہلے امام المفتین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فتویٰ ذکر کرتے ہیں، پھر ائمہ اربعہ کے فتاویٰ پیش کریں گے۔

ابن ابی شیبہ (2/83) اور امام مالک (موطأ 1/276) نے حارث نجرانی سے روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے پانچ دن پہلے فرمایا:

"خبردار! جو لوگ ہم سے پہلے تھے، انہوں نے اپنے انبیاء اور صالحین کی قبروں پر مساجد بنا لی تھیں۔ خبردار! قبروں کو مساجد نہ بناؤ، میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں۔”

یہ حدیث صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے اور مختلف طرق سے پندرہ سے زائد سندوں کے ساتھ مروی ہے۔
یہ حدیث عائشہ، اسامہ، جندب، ابو ہریرہ، ابن عباس، ابو عبیدہ بن الجراح، زید بن ثابت، ابن مسعود، علی بن ابی طالب اور امہات المؤمنین رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔
(صحیح بخاری 1/422، صحیح مسلم 2/67، نسائی 1/115، دارمی 1/326، احمد 1/218، عبدالرزاق 1/406، بیہقی 4/80، شرح السنہ للبغوی 2/415)
یہ حدیث قبروں پر مساجد بنانے کی حرمت پر دلالت کرتی ہے، اور اگر کسی مسجد میں قبر داخل کر دی جائے تو وہ بھی اسی ممانعت کے دائرے میں آتی ہے۔

ائمہ اربعہ کے فتاویٰ

1. احناف:

امام محمد رحمہ اللہ نے کتاب الآثار (45) میں فرمایا:
"قبر کے اوپر مزید کوئی تعمیر ہم جائز نہیں سمجھتے، اور قبر کو پختہ بنانا، اس پر لیپ کرنا اور اس کے قریب مسجد بنانا مکروہ سمجھتے ہیں۔”

علامہ ابن مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"قبر پر مسجد بنانا حرام ہے، کیونکہ اس میں نماز پڑھنا یہودیوں کی سنت پر عمل کرنا ہے۔”
(مرقاۃ، 1/470)

فقہ حنفی کی کتابوں میں مزید فتاویٰ:
(الکوکب الدری 1/153، مراقی الفلاح 208، فتاویٰ دیوبند 1/254، عینی شرح بخاری 4/149، تفسیر آلوسی 15/231)

2. شوافع:

امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"میں قبر پر مسجد بنانے کو مکروہ سمجھتا ہوں، اور اسی طرح اس پر نماز پڑھنا، اس کی طرف نیت کرنا یا اس کی طرف رخ کرنا بھی، کیونکہ اس میں فتنہ اور گمراہی کا خدشہ ہے۔”
(کتاب الأم، 1/246)

ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"قبروں پر مسجدیں بنانا کبیرہ گناہ ہے اور شرک کا سبب ہے، یہ مکروہ نہیں بلکہ حرام ہے۔”
(الزواجر عن اقتراف الکبائر، 1/120)

3. مالکیہ:

امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"ہمارے علماء نے کہا ہے کہ مسلمانوں پر حرام ہے کہ وہ انبیاء اور علماء کی قبروں پر مسجدیں بنائیں۔”
(تفسیر قرطبی، 1/38)

4. حنابلہ:

امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"مسجد ضرار کی طرح ہر وہ جگہ جہاں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی ہو، اسے جلایا اور منہدم کیا جانا چاہیے۔ قبر پر بنی ہوئی مسجد کو بھی منہدم کر دینا چاہیے، اور اگر کوئی قبر مسجد میں داخل ہو جائے تو میت کو وہاں سے نکال دینا چاہیے۔ امام احمد رحمہ اللہ نے اس پر نص دی ہے۔”
(زاد المعاد، 3/22)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"ایسی مساجد میں نماز پڑھنا بلا شک حرام ہے اور باطل ہے، ان میں فرض یا نفل کسی بھی نماز کی اجازت نہیں۔”
(مجموع الفتاویٰ، 27/140-141)

مسجد نبوی میں قبرِ مبارک کا معاملہ:

بعض لوگ دلیل دیتے ہیں کہ مسجد نبوی میں قبرِ مبارک موجود ہے، تو ان کے شبہ کا شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے چار جوابات دیے ہیں:

◄ مسجد نبوی قبر پر نہیں بنی، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں تعمیر ہو چکی تھی۔
◄ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں دفن نہیں کیا گیا، بلکہ آپ اپنے حجرے میں دفن ہوئے تھے۔
◄ 94 ہجری میں حجرہ مسجد میں شامل کیا گیا، جو کہ صحابہ کے مشورے سے نہیں ہوا تھا۔
◄ قبر کو تین دیواروں سے گھیر دیا گیا اور اس کا قبلہ کی سمت سے زاویہ منحرف کر دیا گیا، تاکہ کوئی قبر کی طرف رخ کر کے نماز نہ پڑھے۔

نتیجہ:

◄ قبروں پر مسجد بنانا اور ان میں نماز پڑھنا ناجائز اور حرام ہے۔
◄ یہ عمل یہود و نصاریٰ اور مشرکین کی مشابہت ہے، جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے منع فرمایا ہے۔
◄ ائمہ اربعہ کے مطابق ایسی مسجد میں نماز پڑھنا مکروہ تحریمی یا حرام ہے، بلکہ بعض فقہاء کے نزدیک وہ نماز باطل بھی ہو سکتی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1