قبرنبویﷺ میں درود سننے سے متعلق 13 روایات کی تحقیق
اصل مضمون غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

بعض لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں درود و سلام سنتے ہیں، جبکہ کچھ لوگوں کے نزدیک یہ سننے کی کیفیت مختلف ہو سکتی ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریب سے سلام خود سنتے ہیں، جبکہ دور سے فرشتے آپ تک سلام پہنچاتے ہیں۔ تاہم، اس معاملے کی حقیقت کیا ہے؟ آئیے اس موضوع پر مختلف دلائل کا اصولِ محدثین کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں۔

روایت نمبر 1: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منسوب روایت

ایک روایت جو سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے، اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے: "جو آدمی مجھ پر میری قبر کے پاس درود پڑھے گا، میں اسے سنوں گا اور جو دور سے مجھ پر درود بھیجے گا، مجھے اس کا درود پہنچا دیا جائے گا۔” (شعب الإیمان للبیہقي: 1481، حیاۃ الأنبیاء في قبورہم للبیہقي: 19، الضعفاء الکبیر للعقیلي: 136/4-137، تاریخ بغداد للخطیب: 292/3، الترغیب والترہیب لأبي القاسم الأصبہاني: 1666)

تبصرہ:

یہ روایت انتہائی کمزور (ضعیف) ہے اور اس کے مختلف پہلو درج ذیل ہیں:

راوی کی حیثیت:

اس روایت کا ایک راوی محمد بن مروان السدی (صغیر) ہے، جسے محدثین نے متفقہ طور پر جھوٹا (کذاب) اور ترک شدہ قرار دیا ہے۔
امام احمد بن حنبل، امام ابو حاتم رازی، امام یحییٰ بن معین، امام بخاری، امام نسائی، امام جوزجانی اور امام ابن عدی رحمہم اللہ نے اس پر سخت تنقید کی ہے۔

مدلس راوی:

اس روایت کی سند میں سلیمان بن مہران اعمش بھی شامل ہیں، جو کہ مدلس راوی ہیں، اور انہوں نے اس حدیث کو سماع کی تصریح کے بغیر بیان کیا ہے۔
محدثین کرام اعمش کی ابو صالح سے بغیر سماع والی روایت کو کمزور مانتے ہیں۔

محدثین کی آراء:

امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث "اعمش کی سند سے بے اصل ہے” اور اسے کسی محفوظ روایت کے طور پر نہیں مانا جا سکتا۔ مزید یہ کہ اس روایت کی متابعت کرنے والا دوسرا راوی بھی کمزور ہے۔ (الضعفاء الکبیر: 137/4)

سنن بیہقی کی روایت میں ابو عبدالرحمن نامی راوی، اعمش سے بیان کرتا ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ کے مطابق یہ راوی بھی محمد بن مروان السدی ہی ہے، اور اس کی روایت میں بھی کلام کیا گیا ہے۔ (حیاۃ الأنبیاء في قبورہم، ص: 103)

امام ابن نمیر رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو بے وقعت قرار دیتے ہوئے کہا: "محمد بن مروان کی کوئی حیثیت نہیں۔” (تاریخ بغداد للخطیب: 292/3)

حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو "صحیح نہیں” قرار دیا ہے۔ (الموضوعات: 303/1)

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس روایت کی سند پر اعتراض ہے اور اس کا راوی محمد بن مروان سدی متروک ہے۔ (تفسیر ابن کثیر: 228/5)

خلاصہ:

اس روایت کی تحقیق کے بعد محدثین کی واضح رائے یہ ہے کہ یہ حدیث کمزور (ضعیف) ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی قبر مبارک میں سلام سننا ثابت نہیں۔

روایت نمبر 2: درود سننے کی تفصیل

یہ روایت ان الفاظ میں بھی ملتی ہے: "جو آدمی مجھ پر میری قبر کے پاس درود پڑھے گا، میں اسے سنوں گا، اور جو دور سے مجھ پر درود پڑھے گا، اس پر ایک فرشتہ مقرر کر دیا جائے گا، جو اسے مجھ تک پہنچائے گا۔ اس درود کے ذریعے اس شخص کے دنیا و آخرت کے معاملات سدھر جائیں گے اور میں اس کے لئے گواہ اور سفارشی بن جاؤں گا۔” (شعب الإیمان للبیہقي: 1481، تاریخ بغداد للخطیب: 291/3-292، الترغیب والترہیب لأبي القاسم الأصبہاني: 1698)

تبصرہ:

یہ روایت موضوع (من گھڑت) ہے اور اس کی کمزوریاں درج ذیل ہیں:

راویوں کی حیثیت:

اس روایت میں محمد بن مروان السدی (صغیر) شامل ہے، جسے محدثین نے "وضاع” یعنی حدیثیں گھڑنے والا قرار دیا ہے۔
اس روایت کا ایک اور راوی محمد بن یونس بن موسیٰ قرشی کدیمی بھی ہے، جسے محدثین نے جھوٹا کہا ہے۔

اعمش کی تدلیس:

روایت میں اعمش کی تدلیس بھی موجود ہے، یعنی انہوں نے سماع کی وضاحت نہیں کی، جو کہ روایت کی کمزوری ہے۔

تنبیہ:

ایک دوسری سند میں محمد بن مروان السدی کی متابعت ابو معاویہ محمد بن خازم ضریر نے کی ہے، اور ان کے الفاظ یہ ہیں: "جو آدمی مجھ پر میری قبر کے پاس درود پڑھے گا، میں اسے سنوں گا، اور جو دور سے درود پڑھے گا، مجھے اس کی اطلاع دی جائے گی۔” (الصلاۃ علی النبي لأبي الشیخ، نقلاً عن جلاء الأفہام لابن القیّم، ص: 19، الثواب لأبي الشیخ، نقلاً عن اللّآلي المصنوعۃ للسیوطي، ص: 283/1)

تبصرہ:

اس روایت کی سند بھی کمزور ہے، کیونکہ اس میں عبدالرحمن بن اعرج راوی موجود ہے، جس کی توثیق کا کوئی معتبر حوالہ نہیں ہے۔ اگرچہ بعض محدثین نے اس کے حالات درج کیے ہیں، تاہم اس کی قابلِ قبول توثیق موجود نہیں ہے۔ لہٰذا حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور حافظ سخاوی رحمہ اللہ کا اس روایت کی سند کو "جید” کہنا درست نہیں ہے۔

روایت نمبر 3: جمعہ کے دن درود

ایک روایت سیدنا ابو دردا رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "جمعہ کے دن مجھ پر زیادہ درود پڑھا کرو، کیونکہ اس دن فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ جو بھی آدمی مجھ پر درود بھیجتا ہے، وہ جہاں بھی ہو، مجھے اس کی آواز پہنچ جاتی ہے۔” ہم نے عرض کیا: کیا آپ کی وفات کے بعد بھی ایسا کریں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں! میری وفات کے بعد بھی۔ یقیناً اللہ رب العزت نے زمین پر انبیاء کرام کے جسموں کا کھانا حرام کر دیا ہے۔” (الطبراني، نقلاً عن جلاء الأفہام لابن القیّم الجوزیۃ، ص: 63)

تبصرہ:

اس روایت کی سند "انقطاع” کی وجہ سے کمزور ہے، کیونکہ سعید بن ابو ہلال کا سیدنا ابو دردا سے سماع ثابت نہیں ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے انہیں طبقہ سادسہ (چھٹے طبقہ) میں ذکر کیا ہے، اور اس طبقہ کے راویوں کی کسی صحابی سے ملاقات ثابت نہیں ہوتی۔

خلاصہ:

یہ روایات مختلف دلائل کے ساتھ پیش کی گئی ہیں، لیکن محدثین کے اصولوں کے مطابق ان کی سندیں یا تو موضوع (من گھڑت) ہیں یا ضعیف، اور اس بنیاد پر ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔

روایت نمبر 4: اہل محبت کا درود سننا

ایک روایت کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ جو لوگ آپ پر نزدیک اور دور سے درود بھیجتے ہیں اور بعد میں آنے والے بھی درود بھیجیں گے، کیا یہ سب درود آپ پر پیش کیے جاتے ہیں؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں اہل محبت کا درود سنتا اور انہیں پہچانتا ہوں۔” (دلائل الخیرات، ص: 32)

تبصرہ:

یہ روایت بے سند اور جھوٹی ہے۔ جو لوگ اس سے استدلال کرتے ہیں، ان پر لازم ہے کہ اس کی کوئی معتبر سند پیش کریں۔ کسی بھی عقیدہ یا عمل کی بنیاد بے سروپا اور جھوٹی روایات پر رکھنا ایک سچے مسلمان کے شایان شان نہیں ہے۔

روایت نمبر 5: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب میں درود سننا

سلیمان بن سحیم کہتے ہیں کہ: "میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور عرض کی: اللہ کے رسول! یہ لوگ آپ کی قبر مبارک کے پاس آ کر آپ پر سلام پیش کر رہے ہیں؛ کیا آپ ان کا سلام سمجھتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! اور میں ان کا جواب بھی دیتا ہوں۔” (شعب الإیمان للبیہقي: 3868، حیاۃ الأنبیاء في قبورہم للبیہقي: 19)

تبصرہ:

یہ روایت سخت ضعیف ہے، اور اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:

سماع کی عدم تصدیق:

عبدالرحمن بن ابو الرجال کا سلیمان بن سحیم سے سماع ثابت نہیں ہو سکا ہے۔

راوی کی کمزوری:

سوید بن سعید حدثانی کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: "یہ بذات خود صدوق تھا، مگر جب نابینا ہو گیا تو ایسی باتیں قبول کرنے لگا، جو اس کی اپنی بیان کردہ نہیں تھیں۔” (تقریب التہذیب: 2690)

مزید برآں، امام ابن ابی الدنیا رحمہ اللہ کا سوید سے قبل از اختلاط روایت لینا ثابت نہیں ہے۔

خلاصہ:

یہ دونوں روایات، جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درود و سلام سننے کا ذکر ہے، محدثین کے اصولوں کے مطابق ضعیف اور بے بنیاد ہیں۔ اس طرح کی روایات پر عقیدہ قائم کرنا درست نہیں، اور ان کی کوئی مضبوط سند موجود نہیں ہے۔

روایت نمبر 6: قبر پر مقرر فرشتہ اور درود کا پہنچانا

سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما سے منسوب روایت کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ میری قبر پر ایک فرشتہ مقرر فرمائے گا جسے تمام مخلوقات کی آوازیں سننے کی صلاحیت عطا کی گئی ہو گی۔ قیامت تک جو بھی شخص مجھ پر درود پڑھے گا، وہ فرشتہ درود پڑھنے والے اور اس کے والد کا نام مجھ تک پہنچائے گا اور عرض کرے گا: اللہ کے رسول! فلاں کے بیٹے فلاں نے آپ پر درود بھیجا ہے۔” (مسند البزّار: 254/4، ح: 1425، التاریخ الکبیر للبخاري: 416/6، مسند الحارث: 962/2، ح: 1063، الترغیب لأبي القاسم التیمي: 319/2، ح: 1671)

تبصرہ:

یہ روایت بھی سخت ضعیف ہے، اور اس کی سند میں درج ذیل کمزوریاں ہیں:

مجہول راوی:

اس روایت کا راوی عمران بن حمیری جعفی ہے، جو "مجہول الحال” ہے۔ امام ابن حبان رحمہ اللہ کے علاوہ کسی محدث نے اس کی توثیق نہیں کی۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں فرمایا: "اس کی کوئی بھی تائید نہیں” (التاریخ الکبیر: 416/6)، جبکہ امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے اس راوی کے بارے میں کوئی جرح و تعدیل ذکر نہیں کی۔
علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اسے مجہول قرار دیتے ہوئے فرمایا: "یہ راوی غیر معروف ہے” (میزان الاعتدال: 236/3)۔

ضعیف راوی:

روایت میں موجود ایک اور راوی نعیم بن ضمضم کو محدثین نے "ضعیف” قرار دیا ہے۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نعیم بن ضمضم "ضعیف الحدیث” ہے (المغني في الضعفاء: 701/2)۔
علامہ ہیثمی رحمہ اللہ بھی لکھتے ہیں: "نعیم بن ضمضم ضعیف ہے” (مجمع الزوائد: 162/10)۔

دیگر محدثین کی آراء:

علامہ ہیثمی رحمہ اللہ، حافظ ذہبی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ "یہ راوی غیر معروف ہے” (مجمع الزوائد: 162/10)۔
علامہ عبد الرؤف مناوی رحمہ اللہ نے بھی علامہ ہیثمی کے حوالے سے بیان کیا کہ "میں اسے پہچان نہیں پایا” (فیض القدیر: 612/2)۔

خلاصہ:

یہ روایت، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام کے فرشتہ کے ذریعے پہنچنے کا ذکر ہے، سخت ضعیف ہے۔ اس روایت کی سند میں موجود راویان کی کمزوریوں کی بنا پر اسے قابل اعتماد نہیں مانا جا سکتا، اور محدثین کے اصولوں کے مطابق اس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔

روایت نمبر 7: قبر پر مقرر فرشتہ اور درود کی اطلاع

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھ پر زیادہ سے زیادہ درود پڑھا کرو۔ اللہ تعالیٰ میری قبر کے پاس ایک فرشتہ مقرر فرمائے گا۔ جب میری امت میں سے کوئی فرد مجھ پر درود بھیجے گا تو یہ فرشتہ میری خدمت میں عرض کرے گا: اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)! فلاں بن فلاں نے ابھی آپ پر درود بھیجا ہے۔” (اللّآلي المصنوعۃ في الأحادیث الموضوعۃ للسیوطي: 259/1، السلسلۃ الصحیحۃ للألباني: 1530)

تبصرہ:

اس روایت کی سند ضعیف ہے اور اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:

مجہول راوی:

اس روایت کا راوی بکر بن خداش مجہول الحال ہے۔ صرف امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اس کی توثیق کی ہے (الثقات: 148/8)، لیکن دوسرے محدثین نے اس کی توثیق نہیں کی۔

محمد بن عبد اللہ بن صالح مروزی:

اس راوی کے حالات زندگی دستیاب نہیں ہیں اور اس کی توثیق کے بارے میں کوئی معلومات نہیں مل سکی۔

ابوالفضل کرابیسی:

اس راوی کے حالات اور توثیق بھی دستیاب نہیں ہیں۔

محدثین کی آراء:

حافظ سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس کی سند میں کمزوری ہے۔” (القول البدیع في الصلاۃ علی الحبیب الشفیع، ص: 161)

روایت نمبر 8: فرشتوں کا درود اور اعمال کا پیش کیا جانا

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "زمین میں اللہ تعالیٰ کے فرشتے گشت کرتے ہیں، جو میری امت کی طرف سے پیش کیا گیا سلام مجھ تک پہنچاتے ہیں۔ میری زندگی تمہارے لیے بہتر ہے کہ ہم آپس میں بات چیت کرتے ہیں، اور میری وفات بھی تمہارے لیے بہتر ہے کہ تمہارے اعمال مجھ پر پیش کیے جاتے ہیں۔ جو بھلائی دیکھتا ہوں، اس پر اللہ کی تعریف کرتا ہوں اور جو برائی دیکھتا ہوں، اس پر تمہارے لیے استغفار کرتا ہوں۔” (مسند البزّار: 308/5، ح: 1925)

تبصرہ:

یہ روایت بھی ضعیف ہے، اور اس کی سند میں درج ذیل مسائل ہیں:

مدلس راوی:

امام سفیان ثوری رحمہ اللہ بصیغہ "عن” روایت کر رہے ہیں۔ محدثین کا اصول ہے کہ "ثقہ مدلس” جب صحیح بخاری و مسلم کے علاوہ غیر صریح الفاظ سے حدیث بیان کرے، تو جب تک سماع کی تصریح نہ ملے، وہ روایت ضعیف ہی مانی جاتی ہے۔

عبد المجید بن ابو رواد:

یہ راوی بھی مدلس ہے اور اس کی طرف سے سماع کی کوئی تصریح موجود نہیں ہے۔
عبد المجید بن ابو رواد کو جمہور محدثین نے ضعیف اور مجروح قرار دیا ہے۔

محدثین کی آراء:

امام حمیدی، امام ابو حاتم رازی، امام ابن حبان، امام دارقطنی، امام ابن عدی، اور امام ابوزرعہ رحمہم اللہ نے اس راوی پر سخت جرح کی ہے۔
حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اسے جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔” (المغني عن حمل الأسفار في تخریج الإحیاء: 144/4)

خلاصہ:

یہ دونوں روایات، جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام کا فرشتوں کے ذریعے پہنچنے کا ذکر ہے، سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں۔ ان روایات میں شامل راویان کی کمزوریاں اور مدلس ہونے کی بنا پر ان روایات کو محدثین کے اصولوں کے مطابق معتبر نہیں سمجھا جا سکتا۔

روایت نمبر 9: جمعہ کے دن اور رات سو مرتبہ درود پڑھنے کی فضیلت

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو آدمی مجھ پر جمعہ کے دن اور رات سو مرتبہ درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی سو حاجتیں پوری کر دیتا ہے، جن میں ستر آخرت کی اور تیس دنیا کی شامل ہوتی ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک فرشتہ مقرر کر دیتا ہے، جو وہ درود اس طرح میری قبر انور میں پیش کرتا ہے جس طرح تمہیں تحائف پیش کیے جاتے ہیں۔ وفات کے بعد میرا علم ویسے ہی ہوگا جیسے اب دنیوی زندگی میں ہے۔” (الفوائد لابن مندۃ: 56، الترغیب والترہیب لأبي القاسم الأصبہاني: 320/2-321، ح: 1674)

تبصرہ:

یہ روایت جھوٹی اور باطل ہے، اور اس کے کئی ضعف کے پہلو درج ذیل ہیں:

حکامہ بنت عثمان کا معاملہ:

امام ابن حبان رحمہ اللہ کے مطابق، حکامہ بنت عثمان کی بیان کردہ روایت کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور وہ مجہولہ ہے (الثقات: 194/7)۔
حافظ عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حکامہ نے اپنے والد عثمان بن دینار سے ایسی باطل روایات بیان کی ہیں جن کی کوئی اصل نہیں ہے (الضعفاء الکبیر: 200/3)۔

عثمان بن دینار کا معاملہ:

عثمان بن دینار کی توثیق صرف امام ابن حبان نے کی ہے، باقی محدثین نے اس کی توثیق نہیں کی، لہٰذا اسے مجہول الحال راوی کہا جاتا ہے۔

محدثین کی آراء:

حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ عثمان بن دینار "لا شيء” یعنی ناقابل اعتماد ہے (میزان الاعتدال: 33/3)۔

روایت نمبر 10: قیامت کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہونے کی فضیلت

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت منسوب ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "روزِ قیامت ہر ایک مقام پر تم میں سے میرے زیادہ قریب وہ شخص ہوگا، جو دنیا میں سب سے زیادہ مجھ پر درود بھیجتا ہے۔” (شعب الإیمان للبیہقي: 2773، حیاۃ الأنبیاء في قبورہم للبیہقي: 13، فضائل الأوقات للبیہقي: 276، تاریخ دمشق لابن عساکر: 301/54)

تبصرہ:

یہ روایت بھی سخت ضعیف ہے اور اس میں وہی علتیں پائی جاتی ہیں جن کا ذکر پچھلی روایت میں کیا گیا ہے۔

روایت نمبر 11: امام عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کا قاصد

حاتم بن وردان کا بیان ہے کہ امام عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ ایک قاصد کو مدینہ منورہ بھیجتے تھے تاکہ وہ ان کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام پیش کرے۔ (شعب الإیمان للبیہقي: 3869)

تبصرہ:

اس روایت کی سند ضعیف اور باطل ہے، اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:

ابراہیم بن فراس کا معاملہ:

اس راوی کی توثیق نہیں ملی، جس کی بنا پر یہ راوی مجہول ہے۔

استاذ احمد بن صالح رازی:

اس راوی کے بارے میں بھی کوئی مستند توثیق دستیاب نہیں ہے، لہٰذا اسے بھی مجہول قرار دیا گیا ہے۔

خلاصہ:

یہ روایات، جن میں جمعہ کے دن اور رات درود بھیجنے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہونے کی فضیلت کا ذکر ہے، سخت ضعیف اور جھوٹی ہیں۔ ان روایات کے راویان کی کمزوریاں اور مجہول الحال ہونے کی وجہ سے محدثین نے انہیں ناقابل اعتماد قرار دیا ہے، اور ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔

روایت نمبر 12: امام عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا سلام پیش کرنے کی درخواست

یزید بن ابو سعید مقبری بیان کرتے ہیں: "میں امام عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے پاس ان کے خلافت کے دور میں شام گیا۔ جب میں واپس ہونے لگا، تو انہوں نے کہا: میرے لیے ایک کام کرو، جب مدینہ منورہ جاؤ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کرو، تو میری طرف سے سلام پیش کرنا۔” (شعب الإیمان للبیھقي: 3870، تاریخ دمشق لابن عساکر: 203/65)

تبصرہ:

اس روایت کی سند ضعیف ہے کیونکہ:

  • اس کا راوی رباح بن بشیر مجہول ہے۔ امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ نے اسے "مجہول” قرار دیا ہے (الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم: 490/3)۔
  • امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے الثقات (242/8) میں ذکر کیا ہے، لیکن اس کے علاوہ کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔

روایت نمبر 13: کعب احبار کا بیان

نبیہ بن وہب سے روایت ہے کہ کعب احبار رحمہ اللہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ سیدہ عائشہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا تو کعب احبار نے کہا: "جب بھی دن طلوع ہوتا ہے، ستر ہزار فرشتے اترتے ہیں۔ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو گھیر لیتے ہیں، اپنے پر اس پر لگاتے ہیں، اور درود بھیجتے ہیں۔” (الزھد للامام عبد اللہ بن المبارک: 1600، مسند الدارمي: 47/1، ح: 94، فضل الصلاۃ علی النبي لإسماعیل بن إسحاق القاضي: 102، حلیۃ الأولیاء لأبي نعیم الأصبھاني: 390/5)

تبصرہ:

یہ روایت منقطع ہے کیونکہ:

  • نبیہ بن وہب کا کعب احبار سے سماع اور ملاقات ثابت نہیں ہے، اس بنا پر یہ سند منقطع مانی جاتی ہے۔
  • امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ منقطع روایات کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ایسی روایات کو محدثین حجت نہیں سمجھتے (شرح مشکل الآثار للطحاوي: 36/10، ح: 4140)۔

خلاصہ:

دین اسلام کی بنیاد قرآن کریم اور صحیح احادیث پر ہے، اور سند کی صحت دینِ محمدیہ کا امتیازی وصف ہے۔ ایسی ضعیف اور منقطع روایات پر عقیدہ قائم کرنا درست نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قبر مبارک میں درود سننا کسی صحیح اور صریح حدیث سے ثابت نہیں ہے، اور اگر کسی کے پاس ایسی کوئی صحیح حدیث موجود ہے، تو اسے پیش کرنا چاہیے، ورنہ اس عقیدے کو ترک کرنا ہی بہتر ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح احادیث پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین یا رب العالمین!

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے