قاضی کے عہدے کی مشکلات اور صبر کی ضرورت
مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

اس حدیث کی صحت: ’’جو قاضی کے عہدے پر فائز ہوا تو اس کو بغیر چھری کے ذبح کر دیا گیا۔“
یہ حدیث عمدہ اور معروف ہے، اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ اسے امام احمد اور اہل سنن نے روایت کیا ہے۔ [سنن أبى داود، رقم الحديث 3571]
لیکن یہ قضا سے منع نہیں کرتی بلکہ قضا پر بہت زیادہ توجہ دینے کے لیے تنبیہ اور اس کے خطرات اور مابعد کے اثرات سے محفوظ رہنے کا خصوصی اہتمام کرنے کی طرف توجہ دلاتی ہے۔
چھری کے بغیر ذبح کرنا ایسی چیز ہے جو حیوان کو تکلیف پہنچاتی ہے اور اس کی موت میں تاخیر کا سبب بنتی ہے، لہٰذا قاضی بسا اوقات قضا کی وجہ سے تکلیف اٹھاتا ہے اور مشقت بھی برداشت کرتا ہے، لیکن صبر اور سنجیدگی سے یہ تکلیف زائل ہو جاتی ہے، وہ اس وقت زیادہ ماندگی اور تھکاوٹ کا شکار ہوتا ہے اور چھرے کے بغیر ذبح کی طرح ہوتا ہے جب اس کا علم گم راہ ہو جائے، اس کو سیدھی راہ سجھائی نہ دے یا اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے میں غافل ہو جائے۔
یہ بات تم پر مخفی نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام تقاضوں، علما کے راہنما اور تقاضوں کے لیے نمونہ تھے۔ آپ قاضی بھی تھے اور معلم بھی، داعی بھی تھے اور نیکی کا حکم دینے والے بھی، آپ کی ذات ان صفات کا مجموعہ تھی، لہٰذا قاضیوں، علما اور داعیوں کو آپ کے صبر اور حلم کو اسوہ بنانا چاہیے۔ بعض اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم غضبناک بھی ہو جاتے، حالانکہ آپ امت کے سردار اور عاجزوں کے امام تھے، لیکن کبھی جھگڑا کرنے والا (مد مقابل) آپ کو اس پر مجبور کر دیتا، تاہم قاضی کو چاہیے کہ وہ صبر کرنے اور اسباب صبر اختیار کرنے میں اپنے نبی کی اقتدا کرے، شائد اس کو اس کی توفیق مل جائے۔
ہر ایک کو کچھ نہ کچھ تھکاوٹ، مشقت کا سامنا تو ضرور کرنا پڑتا ہے لیکن قاضی جتنا زیادہ علم رکھنے والا، صبر کرنے والا، ہدایت و توفیق کی طلب کے لیے بکثرت دعا کرنے والا اور حلیم ہوگا، اتنی ہی اس کی پریشانیاں بھی کم ہوں گی۔
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 209/23]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے