فیمنزم ایک تاریخی حقیقت یا کھوکھلا مفروضہ

فیمنزم اور پدرسری نظام کا مفروضہ

فیمنزم کی بنیاد ایک ایسے مفروضے پر رکھی گئی ہے جس کے مطابق پوری انسانی تاریخ میں مرد نے ہمیشہ عورت کا استحصال کیا، اسے کمتر سمجھا، اور اس کے سماجی کردار کو محدود رکھا۔ اس مفروضے کو Patriarchy کہا جاتا ہے۔ اگر اس نظریے کو تسلیم کر بھی لیا جائے تو اس کے ممکنہ نتائج دو ہی نکلتے ہیں، جنہیں ہم علیحدہ علیحدہ پرکھتے ہیں۔

1) مردوں کی منظم سازش

اگر یہ مان لیا جائے کہ مردوں نے ہر دور میں عورت کے خلاف سوچی سمجھی سازش کی، تو اس کے تاریخی شواہد لازمی طور پر ملنے چاہئیں۔ لیکن تاریخ کے کسی بھی دور میں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ مردوں نے کسی عالمی یا مقامی منصوبہ بندی کے تحت عورت کا استحصال کیا ہو۔ یہاں تک کہ ان معاشروں میں بھی، جہاں عورتوں نے حکمرانی کی، ایسی کوئی گواہی موجود نہیں۔

اس کے علاوہ، وہ تہذیبیں اور معاشرے جو ایک دوسرے سے بالکل الگ تھلگ تھے، وہاں بھی مرد اور عورت اپنے مخصوص سماجی کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مرد اور عورت کے روایتی کردار کسی بیرونی جبر یا غالب تہذیب کے اثرات کا نتیجہ نہیں بلکہ قدرتی اصولوں پر مبنی ایک فطری نظام ہے۔

2) غیر ارادی مردانہ جبر

اگر یہ دعویٰ کیا جائے کہ مردوں نے جان بوجھ کر نہیں، بلکہ غیر ارادی طور پر عورت کو دبا کر رکھا، تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلنا چاہیے کہ عورت ہمیشہ خود کو غیرمحفوظ اور مظلوم سمجھتی، اور اس کے خلاف آواز بلند کرتی۔ لیکن تاریخی حقائق اس کے برعکس ہیں۔

تاریخ میں عورت عمومی طور پر اپنے سماجی کردار سے مطمئن رہی، اور یہی اطمینان ایک مضبوط خاندانی نظام کی بنیاد بنا۔ اس کے برعکس، فیمنزم اور نیو لبرل ازم کے پھیلاؤ کے بعد عورت آج سب سے زیادہ غیر محفوظ، ذہنی دباؤ کا شکار اور بےچین نظر آتی ہے۔

نتیجہ

مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ فیمنزم ایک کھوکھلے مفروضے پر قائم ہے۔ جسے استحصال کہا جا رہا ہے، وہ درحقیقت سماجی فطرت اور مرد و عورت کے باہمی تعلقات کا ایک فطری نتیجہ ہے، جسے عورت نے ہمیشہ قبول کیا۔

اگر آج عورت مطمئن نہیں ہے تو اس کی وجوہات خارجی عوامل میں پوشیدہ ہیں، جن کا تعلق جدید معاشرتی اور اقتصادی مسائل سے ہے۔ لہٰذا، فیمنزم کی تشہیر کے بجائے، حقیقی مسائل کے حل پر توجہ دینی چاہیے جو موجودہ دور میں عورت کی مشکلات کا اصل سبب ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1