فیمنزم اور سائنس کے متضاد نظریات کا تجزیہ

فیمنزم اور سائنسی آزادی پر قدغن

فیمنزم کے نظریات اور اعتقادات کا سائنسی شواہد سے ٹکراؤ ایک اہم موضوع ہے۔ امریکہ اور یورپ کے سرکاری و تعلیمی اداروں میں فیمنزم کا اثر اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اساتذہ، محققین اور سائنسدانوں پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ اپنی تحقیقات کے ذریعے ایسے نتائج نہ نکالیں جو فیمنزم کے بنیادی عقائد سے متصادم ہوں۔ فیمنسٹ لابیاں خواتین کو یہ باور کراتی ہیں کہ وہ معاشرتی سطح پر مظلوم ہیں اور انہیں خاص طور پر سائنسی، ٹیکنالوجی اور ریاضی (STM) کے شعبوں میں زیادہ مواقع حاصل ہونے چاہئیں۔

خواتین کی فطری ترجیحات

اگرچہ فیمنسٹ حلقے ان شعبوں میں خواتین کی تعداد بڑھانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں، لیکن جب خواتین کو اپنے مضامین کا آزادانہ انتخاب دیا جاتا ہے تو وہ زیادہ تر سوشل سائنسز کا انتخاب کرتی ہیں۔ شمالی امریکہ میں یونیورسٹی گریجویٹس میں 60 فیصد خواتین اور 40 فیصد مرد شامل ہیں، لیکن فیمنسٹ اسکالرز اسے "صنفی عدم مساوات” نہیں مانتے۔

سائنس پر "فیمنسٹ سائنس” کا دباؤ

فیمنسٹ گروہوں کی جانب سے اب یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ سائنس کو تبدیل کرکے اسے "فیمنسٹ سائنس” میں ڈھالا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سائنسی حقائق و شواہد کو موضوعی انداز میں فیمنزم کے اصولوں کے مطابق بنایا جائے۔

سائنسی نظریات میں مردانہ غلبے کا زبردستی تلاش

فیمنسٹ محققین اکثر سائنسی نظریات کو "مردانہ تسلط” کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ مارگریٹ لیون کے مطابق، وہ ڈی این اے کے فنکشن، بقا کی جدوجہد (Survival of the Fittest)، اور حیاتیاتی ماڈلز جیسے Symbiosis اور Feedback میں بھی مردانہ غلبے کی علامات تلاش کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ انہیں اس سائنسی حقیقت سے بھی اعتراض ہے کہ زمین (مونث) سورج (مذکر) کے گرد گردش کرتی ہے۔

فیمنزم کے نظریاتی ماڈلز کی ناکامی

فیمنزم کے "نسائی سائنس” کے ماڈلز نہ تو نفسیات، سیاست اور سماجی علوم میں کوئی اہم کامیابی حاصل کر سکے اور نہ ہی نیچرل سائنسز میں۔ ان کا اصل مقصد سائنسی انکوائری کے بجائے اپنے نظریات اور جذبات کی ترویج ہے۔ سائنسی حقائق کو جھٹلا کر شک و شبہات پیدا کرنا ان کی حکمت عملی کا حصہ ہے تاکہ سادہ لوح افراد متاثر ہو جائیں۔

سچائی کو مسخ کرنے کی کوشش

سچائی کبھی بھی نظریات یا خواہشات کی پابند نہیں ہوتی، لیکن فیمنسٹ ماہرین اس حقیقت کو نظر انداز کرکے اپنی خواہشات کے مطابق نتائج نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ عوامی مقبولیت کے لیے جھوٹ کو حقیقت کا لبادہ پہنانا چاہتے ہیں، جو انسانی معاشرے کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

پدرسری نظام کے بارے میں غلط فہمیاں

فیمنزم کے حامی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پدرسری نظام صرف سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ہے، حالانکہ یہ نظام قدیم غیر سرمایہ دار معاشروں میں بھی موجود رہا ہے۔ وہ حیاتیاتی تفریق کو نظر انداز کرکے ہر صنفی فرق کو ثقافتی اثرات کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، جیسے کہ مردوں کے چہروں پر بالوں کی موجودگی کو بھی سماجی تربیت سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

سنجیدہ خواتین سائنسدان اور فیمنزم

بہت سی خواتین سائنسدان اپنے پیشے میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں، لیکن وہ سائنسی دلائل کے لیے فیمنسٹ نظریات کا سہارا نہیں لیتیں۔ اگر وہ ایسا کریں تو ان کی تحقیق سائنسی کہلانے کے بجائے نظریاتی ہو جائے گی۔

سائنس اور فیمنزم: دو مختلف راہیں

سنجیدہ سائنسدان ہمیشہ حقائق کی تلاش میں رہتے ہیں اور وہ نظریات یا سیاسی محرکات سے متاثر نہیں ہوتے۔ فیمنزم کی "فیمنسٹ سائنس” ایک خودساختہ اصطلاحات کا ایسا سلسلہ ہے جو نہ تو سچائی کی پیش گوئی کر سکتا ہے اور نہ ہی روایتی سائنسی ماڈلز کی درستگی کی وضاحت دے سکتا ہے۔

سچائی کا پیمانہ اور فیمنزم کا زوال

سچائی صرف فطرت کے اصولوں سے ماپی جاتی ہے، نہ کہ ذاتی خواہشات سے۔ لیکن فیمنزم اپنے نظریاتی زور پر مغرب میں سائنسدانوں کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ سچائی کے بجائے عوامی اور سیاسی مفادات کے مطابق نتائج پیش کریں۔

فیمنزم اور سائنس کے درمیان تضاد

فیمنزم ایک محدود اور متعصب نظریہ ہے جو خاص لابیوں کے لیے کام کرتا ہے، جبکہ سائنس کا مقصد کھلے ذہن سے سچائی کی تلاش ہے۔ نظریاتی سختی کے باعث فیمنزم شواہد پر مبنی سائنسی تفتیش کو مسترد کر دیتا ہے، اور یہی رویہ اسے علم کے میدان میں ناکامی سے دوچار کر رہا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے