فوت شدہ کے لیے فاتحہ پڑھنے کا شرعی حکم

سوال

فوت ہونے والے کے لیے فاتحہ پڑھنے کا عمل کیسا ہے؟

جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

شیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ کے مطابق:

"فاتحہ پڑھ دیں” کہنے کا عمل:

  • معاشرتی رواج:
    ہمارے معاشرے میں "فاتحہ پڑھ دیں” کہنا ایک عام جملہ بن چکا ہے، لیکن اس کا تعلق علم یا اہلِ علم سے نہیں ہے۔
  • بدعتی پس منظر:
    یہ جملہ ممکن ہے کہ بدعتی علماء یا شیوخ کے عمل سے منسلک ہو، لیکن شریعت میں اس کی کوئی بنیاد نہیں۔

میت کے لیے شرعی عمل:

  • میت کے لیے استغفار:
    شریعت میں میت کے لیے صرف استغفار اور دعا کرنا مسنون ہے، لیکن اجتماعی صورت میں نہیں۔
  • تعزیت کے کلمات:
    جب کسی کو فوت ہونے کی اطلاع ملے تو تعزیت کے لیے یہ کلمات کہنا چاہیے:
    "اِنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ وَلَهُ مَا أَعْطَى وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهُ بِأَجَلٍ مُسَمًّى، ‏‏‏‏‏فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ”
    "بے شک اللہ ہی کے لیے ہے جو اس نے لے لیا اور جو عطا کیا، اور ہر چیز کی اس کے پاس مدت مقرر ہے، پس صبر کرو اور ثواب کی امید رکھو۔”
    (صحیح البخاری: 7377)

اجتماعی دعا کا مسئلہ:

  • جنازے سے پہلے یا بعد میں دعا:
    اجتماعی دعا، جنازے سے پہلے یا بعد میں، شریعت سے ثابت نہیں ہے۔
  • قبر پر دعا:
    البتہ میت کی ثابت قدمی کے لیے قبر پر دعا کرنا جائز ہے، خواہ وہ انفرادی طور پر ہو یا اجتماعی طور پر۔

نتیجہ:

میت کے لیے اجتماعی طور پر "فاتحہ پڑھنا” یا اس جملے کا استعمال شریعت میں ثابت نہیں۔ مسنون دعاؤں اور استغفار پر عمل کرنا چاہیے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1