انسانی رویہ اور ناقدری کا مسئلہ
انسانی فطرت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ ان چیزوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا جو اسے بغیر کسی محنت کے حاصل ہوں۔ اسی طرح، کسی شعبے میں مہارت نہ ہونے کے باعث بھی وہ اس کی قدروقیمت کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے۔ مثال کے طور پر بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ فقہاء نے شرعی احکام کے لیے جو مختلف درجات متعین کیے ہیں، یہ نہ صرف غیر ضروری ہیں بلکہ ان کی ذاتی اختراع ہیں۔ گویا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ فقہاء نے یہ کام اپنی مرضی سے کیا۔
فقہاء کی درجہ بندی کی اہمیت
یہ اعتراض نہایت سطحی اور کم علمی پر مبنی ہے۔ شرعی احکام کی یہ درجہ بندی ایک گہری علمی ضرورت ہے، جس کا اجتماعی پالیسی سازی سے براہ راست تعلق ہے۔ اگر یہ درجہ بندی نہ ہو تو اجتماعی پالیسی سازی ایک الجھن بن کر رہ جائے گی۔ جدید پالیسی سازی کے اصولوں کی روشنی میں اس ضرورت کو مختصر طور پر واضح کیا جا سکتا ہے۔
جدید پالیسی سازی اور مقاصد کی درجہ بندی
پالیسی سازی کے علوم
ویلفیئر اکنامکس اور پبلک چوائس تھیوری وہ دو اہم شعبے ہیں جن کا تعلق ریاستی پالیسی سازی سے ہے۔ ان دونوں کا مقصد یہ ہے کہ ایسے اصول وضع کیے جائیں جن کے ذریعے ریاست یہ طے کر سکے کہ مختلف اور بعض اوقات متضاد انفرادی و اجتماعی ترجیحات میں سے کن کو فروغ دینا چاہیے۔
ترجیحات کے تعین کا مسئلہ
ان علوم میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ:
- مقاصد کے تعین کا اصول کیا ہونا چاہیے؟
- مقاصد کی درجہ بندی کس بنیاد پر کی جائے؟
- درجہ بندی شدہ مقاصد میں سے کون زیادہ اہم ہے؟
موجودہ علمی ڈسکورس کی کمزوریاں
جدید علوم کے ماہرین کے پاس ان سوالات کا کوئی واضح جواب نہیں۔ ان کے فیصلے عمومی طور پر "عوامی شعور” کے نام پر جائز ٹھہرائے جاتے ہیں، لیکن حقیقت میں یہ مخصوص ماہرین کی ترجیحات ہوتی ہیں۔ نتیجتاً، جب تک ان سوالوں کے جوابات طے نہ ہوں، اجتماعی پالیسی سازی مخصوص افراد کی خواہشات کے تابع ہو جاتی ہے اور معاشرے پر ان خیالات کو ذرائع ابلاغ کے ذریعے مسلط کیا جاتا ہے۔
فقہ اور احکامات کی درجہ بندی
فقہ کی بنیاد: احکام کی درجہ بندی
اسلامی فقہ میں ترجیحات کے تعین کا موضوع بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ فقہاء نے نہایت باریک بینی اور محنت سے وہ اصول مرتب کیے جن کی مدد سے شرعی نصوص کی روشنی میں انسانی اعمال کو مختلف درجات (فرض، مستحب، مباح، مکروہ، حرام) میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
یہ درجہ بندی ان سوالات کا جامع جواب ہے:
- کیا چیز اہم ہے؟
- کس حد تک اہم ہے؟
- اس اہمیت کا تعین کس طرح کیا جائے؟
جدید معاشرتی پیچیدگی اور فقہی نظام
یہ کہنا نہایت نادانی اور کم فہمی کی بات ہے کہ فقہاء کے اس علمی ورثے کو نظرانداز کر دیا جائے۔ اصول فقہ کا یہ ذخیرہ ان مسائل کا منظم اور تفصیلی حل پیش کرتا ہے جو جدید معاشروں کو درپیش ہیں۔
بعض لوگ فقہاء پر تنقید کرتے ہیں اور اپنی سادگی پر فخر کرتے ہیں، لیکن وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ایک نظریہ، جب تک عملی طور پر نافذ نہ ہو، سادہ لگتا ہے۔ لیکن جیسے ہی اسے انسانی معاشرت میں قانونی یا اجتماعی سطح پر نافذ کیا جائے، اس میں پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اگر ایک فکر میں ان پیچیدگیوں کو حل کرنے کی صلاحیت نہ ہو، تو وہ فکر وقت کے ساتھ متروک ہو جاتی ہے۔ انسانی اور معاشرتی معاملات اتنے سادہ نہیں کہ انہیں صرف دو یا تین کیٹیگریز میں بانٹ دیا جائے۔
نتیجہ
فقہاء کی جانب سے احکامات کی درجہ بندی نہ صرف شریعت کی ضرورت ہے بلکہ جدید ریاستی پالیسی سازی میں بھی اس کا ایک گہرا اور لازمی کردار ہے۔ اس علمی ورثے کی اہمیت کو سمجھنا اور اسے اپنانا وقت کی ضرورت ہے، بجائے اس کے کہ سطحی اعتراضات کے ذریعے اسے رد کیا جائے۔