سوال
اللَّهُمَّ إِنِّيْ اجْتَهَدْتُ أَنْ أَؤدِّبَ ابنِی، فَلَمْ أَقْدِرْ عَلَى تَأَدِيْبِهِ، فَأَدِّبْهُ أَنْتَ لِي اس دعا کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب از فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ
یہ دعا معروف امام فضیل بن عیاض رحمہ اللہ اپنے بیٹے علی کے لیے مانگا کرتے تھے۔ فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کے الفاظ کچھ یوں ہیں:
اللَّهُمَّ إِنِّيْ اجْتَهَدْتُ أَنْ أَؤدِّبَ عَلِيّاً، فَلَمْ أَقْدِرْ عَلَى تَأَدِيْبِهِ، فَأَدِّبْهُ أَنْتَ لِي
(سیر أعلام النبلاء 8/445، ط الرسالة)
ترجمہ:
"اے اللہ! میں نے علی کی بہترین تربیت کرنے کی بھرپور کوشش کی، لیکن میں کماحقہ کامیاب نہیں ہو پایا، لہذا میری طرف سے تو اس کی تربیت فرما۔”
اس دعا میں ’علیّاً’ کی جگہ اپنے بیٹے یا بیٹی کا نام لیا جا سکتا ہے، یا عمومی الفاظ ’ابنی’ (میرے بیٹے) اور ’بنتی’ (میری بیٹی) استعمال کرکے دعا کی جا سکتی ہے۔
شرعی حیثیت اور شروط
شیخ بکر ابو زید رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ ایسی دعا جو مسنون و ماثور نہ ہو لیکن درج ذیل پانچ شرائط پر پورا اترتی ہو، اسے مانگنے میں کوئی حرج نہیں:
➊ الفاظ کا بہترین اور واضح ہونا کیونکہ یہ بندے کی اللہ تعالیٰ سے مناجات کا مقام ہے۔
➋ دعا عربی زبان کے مفہوم کے مطابق ہو۔
➌ دعا میں کوئی شرعی قباحت نہ ہو، جیسے غیر اللہ سے استغاثہ یا بدعت۔
➍ یہ دعا کسی مخصوص وقت، جگہ یا حال کے ساتھ مشروط نہ ہو۔
➎ اسے سنت یا مستحب سمجھ کر لازم نہ کر لیا جائے۔
(تصحيح الدعاء ص42،43)
چونکہ فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کی یہ دعا ان تمام شرائط پر پورا اترتی ہے، لہذا اسے مانگنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
فضیل بن عیاض اور ان کے صاحبزادے علی
فضیل بن عیاض رحمہ اللہ اور ان کے صاحبزادے علی دونوں متقی، زاہد اور اولیاء اللہ میں شمار ہوتے تھے۔ علی رحمہ اللہ اپنے والد سے پہلے وفات پا گئے۔ ان کی زہد و تقویٰ کی ایمان افروز داستانیں حلیۃ الاولیاء اور سیر اعلام النبلاء میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔