فضائل عشرہ مبشرہ سے متعلق چالیس صحیح احادیث
تحریر: ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی، کتاب کا پی ڈی ایف لنک

إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:

عشرہ مبشرہ اصحاب کی فضیلت

حدیث 1

عن عبد الرحمن بن عوف رضي الله عنه أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: أبو بكر فى الجنة، وعمر فى الجنة ، وعثمان فى الجنة ، وعلي فى الجنة ، وطلحة فى الجنة ، والزبير فى الجنة، وعبد الرحمن بن عوف فى الجنة، وسعد فى الجنة، وسعيد فى الجنة ، وأبو عبيدة بن الجراح فى الجنة
سنن ترمذی، ابواب المناقب، رقم : 3747 ، المشكاة، رقم : 6110 ۔ محدث البانی نے اسے ”صحیح“ کہا ہے۔
”حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ابو بکر رضی اللہ عنہ جنتی ہے، عمر رضی اللہ عنہ اور جنتی ہے ، عثمان رضی اللہ عنہ جنتی ہے، علی رضی اللہ عنہ جنتی ہے، طلحہ رضی اللہ عنہ جنتی ہے، زبیر رضی اللہ عنہ جنتی ہے، عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ جنتی ہے، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ جنتی ہے، سعید بن زید رضی الله عنہ جنتی اور ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ بھی جنتی ہے۔“

(1) سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فضیلت

حدیث 2

وعن حذيفة بن اليمان رضي الله عنه أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: اقتدوا بالذين من بعدي أبى بكر وعمر
مسند احمد، رقم : 23634، سنن ترمذی، رقم : 3662۔ محدث البانی نے اسے ”صحیح“ کہا ہے۔
”اور حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میرے بعد ان دو حضرات کی اقتدا کرنا، ابوبکر اور عمر“

حدیث 3

وعن أبى جحيفة قال: سمعت عليا رضي الله عنه يقول: ألا أخبركم بخير هذه الأمة بعد نبيها أبو بكررضی اللہ عنہ ، ثم قال: ألا أخبركم بخير هذه الأمة بعد أبى بكر ، عمر رضی اللہ عنہ
مسند احمد : 106/1، رقم : 833۔ شیخ شعیب نے اسے ”حسن الإسناد“ کہا ہے۔
” اور حضرت ابو جحیفہ سے مروی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا میں تمہیں نہ بتلاؤں کہ اس امت میں نبی کے بعد سب سے افضل کون ہے؟ وہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں، کیا میں تمہیں یہ بھی بتلا دوں کہ اس امت میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد سب سے افضل کون ہے؟ وہ سید نا عمر رضی اللہ عنہ ہیں ۔“

حدیث 4

وعن ابن عباس رضي الله عنه قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم فى مرضه الذى مات فيه عاصبا رأسه فى خرقة ، فقعد على المنبر، فحمد الله وأثنى عليه ، ثم قال: إنه ليس أحد أمن على فى نفسه وماله من أبى بكر بن أبى قحافة، ولو كنت متخذا من الناس خليلا لاتخذت أبا بكر خليلا ، ولكن خلة الإسلام أفضل، سدوا عنى كل خوخة فى هذا المسجد غير خوخة أبى بكر
صحیح بخاری، رقم : 467 ، مسند أحمد : 270/1 ، رقم : 2432.
” اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرض الموت کے ایام میں اپنے سر پر پٹی باندھے ہوئے باہر تشریف لائے اور ممبر پر جلوہ افروز ہوئے ، آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور پھر ارشاد فرمایا: اپنی جان اور مال کے بارے میں ابوبکر بن ابی قحافہ سے بڑھ کر میرا کون محسن نہیں ہے، اگر میں نے لوگوں میں سے کسی کو اپنا خلیل بنانا ہوتا تو میں ابو بکر کو اپنا خلیل بناتا، البتہ اسلامی دوستی اور تعلق سب سے زیادہ فضیلت والا ہے، اس مسجد کی طرف کھلنے والے ہر دروازے اور راستے کو بند کر دو، ما سوائے ابو بکر رضی اللہ عنہ کے راستے کے، وہ کھلا رہے۔“

حدیث 5

وعن جبير بن مطعم رضي الله عنه قال: إن امرأة أتت رسول الله صلى الله عليه وسلم فكلمته فى شيء فأمرها بأمر ، فقالت: أرأيت يا رسول الله إن لم أجدك؟ قال: إن لم تجديني فأتى أبا بكر
صحیح بخاری، رقم : 7360 ، صحیح مسلم، رقم : 2386، مسند احمد : 82/4، رقم : 16755 .
” اور حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک خاتون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے کسی معاملہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے حق میں کوئی حکم فرمایا، اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر میں آؤں اور آپ کو نہ پاؤں تو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر تم مجھے نہ پاؤ تو ابوبکر کے پاس چلی جانا۔“

حدیث 6

وعن أبى عثمان رضي الله عنه قال: حدثني عمرو بن العاص قال: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم على جيش ذات السلاسل ، قال: فأتيته، قال: قلت: يا رسول الله أى الناس أحب إليك؟ قال: عائشة – قال: قلت: فمن الرجال؟ قال: أبوها – قلت ثم من؟ قال: عمر – قال : فعد رجالا
صحیح بخاری، رقم : 3662 ، 4358 ، صحیح مسلم، رقم: 2384، مسند أحمد : 203/4، رقم : 17809.
” اور حضرت عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے غزوہ ذات سلاسل کے لیے روانہ کیا، میں اس سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: اللہ کے رسول! لوگوں میں سے آپ کو سب سے زیادہ کس کے ساتھ محبت ہے؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: عائشہ سے۔ میں نے کہا: اور مردوں میں سے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے والد سے۔ میں نے پوچھا: ان کے بعد ؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: عمر سے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید چند آدمیوں کے نام لیے۔“

(2) سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی فضیلت

حدیث 7

وعن عقبة بن عامر رضی اللہ عنہ قال: سمعت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم يقول: لو كان من بعدي نبي لكان عمر بن الخطاب
سنن ترمذی، رقم : 3686 ، مسند احمد : 154/4، رقم : 17405۔ شیخ شعیب نے اسے ”حسن الإسناد“ قرار دیا ہے۔
”اور حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے: اگر میرے بعد کوئی نبی آنا ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے ۔ “

حدیث 8

وعن ابن عمر رضی اللہ عنہ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: اللهم أعز الإسلام بأحب هذين الرجلين إليك بأبي جهل أو بعمر بن الخطاب، فكان احبهما إلى الله عمر بن الخطاب
سنن ترمذی، رقم : 3686 ، مسند أحمد : 94/2، رقم : 5696۔ شیخ شعیب نے اسے” صحیح لغیرہ“ کہا ہے۔
” اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یا اللہ ! ابو جہل اور عمر بن خطاب میں سے جو آدمی تجھے زیادہ محبوب ہے، اس کے ذریعے اسلام کو عزت عطا فرما۔ اللہ تعالیٰ کو ان میں زیادہ محبوب سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تھے ۔ “

حدیث 9

عن غضيف بن الحارث ، أنه مر بعمر بن الخطاب فقال: نعم الفتى غضيف، فلقيه أبو ذر فقال: أى أخي استغفر لي ، قال: أنت صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم ، وأنت أحق أن تستغفر لى، فقال: إنى سمعت عمر بن الخطاب يقول: نعم الفنى غضيف، وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن الله عز وجل ضرب بالحق على لسان عمر وقلبه . قال عفان: على لسان عمر يقول به
سنن ابوداؤد، رقم : 2962 ، سنن ابن ماجه رقم: 108، مسند احمد : 145/4، رقم : 21295۔ شیخ شعیب نے اسے ”صحیح الإسناد“ کہا ہے۔
” اور حضرت غضیف بن حارث سے روایت ہے کہ وہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے قریب سے گزرے، انہوں نے کہا، غضیف ! اچھا آدمی ہے، پھر غضیف کی سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی تو سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: میرے بھائی! آپ میرے لیے مغفرت کی دعا کریں۔ غضیف نے کہا: آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں، آپ اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ آپ میرے حق میں دعا کریں، انھوں نے کہا: میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو سنا ہے وہ کہہ رہے تھے کہ غضیف اچھا آدمی ہے، جبکہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے عمر رضی اللہ عنہ کی دل و زبان پر حق کو جاری کر دیا ہے۔“

حدیث 10

وعن عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہ قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: بينا أنا نائم ، أتيت بقدح لبن فشربت منه ، ثم أعطيت فضلى عمر بن الخطاب قالوا: فما أولته يا رسول الله؟ قال: العلم
صحیح بخاری، رقم : 7032 ، صحیح مسلم، رقم : 2381، مسند احمد 108/2، رقم : 5868۔ شیخ شعیب نے اسے” صحیح علی شرط الشیخین“ قرار دیا ہے۔
” اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں سویا ہوا تھا کہ میرے پاس دودھ کا ایک پیالہ لایا گیا، میں نے اس میں سے نوش کیا اور پھر بچا ہوا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دے دیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے اس کی کیا تعبیر فرمائی ؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: علم ۔“

حدیث 11

وعن ابن عمر رضی اللہ عنہ قال: وضع عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بين المنبر والقبر ، فجاء على رضی اللہ عنہ حتى قام بين يدي الصفوف ، فقال: هو هذا ثلاث مرات ثم قال: رحمة الله عليك ، ما من خلق الله تعالى أحب إلى من أن ألقاه بصحيفته بعد صحيفة النبى صلى الله عليه وسلم من هذا المسجى عليه ثوبه
مسند احمد : 109/1، رقم : 866 ۔ شیخ شعیب نے اسے ”حسن لغیر “ قرار دیا ہے۔
” اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو منبر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے درمیان لا کر رکھا گیا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ آ کر صفوں کے آگے کھڑے ہو گئے اور انہوں نے تین بار کہا: آپ پر اللہ کی رحمت ہو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں اس ڈھانچے ہوئے آدمی کے علاوہ کوئی ایسا بشر نہیں ہے کہ میں اس جیسے نامہ اعمال کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے پاس جانا پسند کروں۔“

(3) سید نا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی فضیلت

حدیث 12

وعن الأسود بن هلال ، عن رجل من قومه، قال: كان يقول فى خلافة عمر بن الخطاب لا يموت عثمان حتى يستخلف، قلنا من أين تعلم ذلك؟ قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: رأيت الليلة فى المنام كأنه ثلاثة من أصحابي وزنوا فوزن أبو بكر فوزن، ثم وزن عمر فوزن، ثم وزن عثمان فنقص صاحبنا ، وهو صالح
مسند احمد : 63/4 ، رقم : 16604۔ شیخ شعیب نے اسے” صحیح الإسناد“ کہا ہے۔
” اور حضرت اسود بن ہلال اپنی قوم کے ایک آدمی سے بیان کرتے ہیں کہ وہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں کہا کرتے تھے کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو جب تک خلافت نہیں ملے گی، انہیں اس وقت تک موت نہیں آئے گی۔ ہم نے کہا: تمہیں یہ بات کیسے معلوم ہوئی ؟ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا، آپ صلی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نے گزشتہ رات نیند میں دیکھا ہے کہ گویا میرے تین صحابہ رضی اللہ عنہم کا وزن کیا گیا، پس ابوبک رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا، وہ بھاری رہے، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا، وہ بھی بھاری رہے، بعد ازاں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو وہ ذرا کم وزن تھے، بہر حال وہ بھی صالح آدمی ہیں۔“

حدیث 13

وعن أبى حبيبة أنه دخل الدار ، وعثمان محصور فيها ، وأنه سمع أبا هريرة يستأذن عثمان فى الكلام فأذن له ، فقام فحمد الله وأثنى عليه ثم قال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إنكم تلقون بعدى فتنة واختلافا، أو قال: اختلافا وفتنة فقال له قائل من الناس فمن لنا يا رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: عليكم بالأمين وأصحابه – وهو يشير إلى عثمان بذلك
مسند احمد : 345/2 ، رقم : 8541 ، مستدرك الحاكم : 99/3، مصنف ابن ابي شيبة :50/12۔ امام حاکم نے اسے صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔
” اور حضرت ابو حبیبہ سے روایت ہے کہ وہ اس گھر میں داخل ہوئے ، جس میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ محصور تھے اور اس نے سنا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سید نا عثمان رضی اللہ عنہ سے کچھ کہنے کی اجازت طلب کر رہے تھے ، جب انہوں نے اجازت دی تو سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء بیان کی اور پھر کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا ہے، آپ فرما رہے تھے کہ تم میرے بعد فتنوں اور اختلافات کو پاؤ گے۔ کسی آدمی نے کہا: اللہ کے رسول ! اس وقت ہمارا کون ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم اس امانت دار اور اس کے ساتھیوں کو لازم پکڑے رہنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے ہوئے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔“

حدیث 14

وعن ابن عمر رضی اللہ عنہ قال: ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم فتنة فمر رجل فقال: يقتل فيها هذا المقنع يومئذ مظلوما ، قال: فنظرت فإذا هو عثمان بن عفان
سنن ترمذی، رقم : 3708، مسند احمد : 115/2، رقم : 5953۔ شیخ شعیب نے اسے ”حسن لغیر ہ“ کہا ہے۔
” اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فتنہ کا ذکر کیا، اس دوران ایک آدمی کا وہاں سے گزر ہوا، اس کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ان دنوں یہ آدمی ، جو کپڑا ڈھانپ کر جا رہا ہے،مظلومیت کی حالت میں قتل ہوگا۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : جب میں نے جا کر دیکھا تو وہ آدمی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ تھے ۔“

حدیث 15

وعن عائشة رضي الله عنها ، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ادعوا لي بعض أصحابى – قلت: أبو بكر ، قال: لا قلت : عمر، قال: لا – قلت: ابن عمك على ، قال : لا – قالت: قلت: عثمان ، قال: نعم – فلما جاء قال: تنحى جعل يساره ولون عثمان يتغير فلما كان يوم الدار وحصر فيها قلنا: يا أمير المؤمنين! ألا تقاتل؟ قال: لا ، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم عهد إلى عهدا، وإني صابر نفسى عليه
سنن ترمذی، رقم : 3711، مسند احمد : 52/6، رقم : 24252۔ شیخ شعیب نے اسے ”صحیح “کہا ہے۔
” اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرے ایک صحابی کو بلاؤ۔ میں نے کہا: سید نا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نہیں۔ میں نے کہا: سید نا عمر رضی اللہ عنہ کو؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: نہیں۔ میں نے کہا: آپ کے چچا زاد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نہیں۔ میں نے کہا: سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جی ہاں۔ وہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: تم ذرا ایک طرف ہو جاؤ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ چپکے سے باتیں کرنا شروع کیں، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا رنگ فق ہونے لگا، پھر جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنے گھر میں محصور کر دیا گیا تو ہم نے کہا: اے امیر المومنین! آپ ان باغیوں کے ساتھ لڑتے کیوں نہیں؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: نہیں، میں لڑائی نہیں کروں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اس بات کا عہد لیا تھا اور میں ان حالات پر اپنے آپ کو صابر ثابت کرنے والا ہوں۔“

حدیث 16

وعن سعيد بن العاص رضي الله عنه أخبره أن عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم ، وعثمان حدثاه أن أبا بكر ذا استأذن على رسول صلى الله عليه وسلم ، وهو مضطجع على فراشه ، لابس مرط عائشة ، فأذن لأبي بكر رضي الله عنه هو كذلك ، فقضى إليه حاجته ثم الله انصرف ، ثم استأذن عمر رضي الله عنه فأذن له وهو على تلك الحال فقضى إليه حاجته ثم انصرف ، قال عثمان : ثم استأذنت عليه فجلس ، وقال لعائشة ر : اجمعى عليك ثيابك فقضى إلى حاجتي ثم انصرفت قالت عائشة رضي الله عنها : يا رسول الله! ما لي لم أرك فزعت لأبي بكر وعمر كما فزعت لعثمان رضي الله عنه ؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن عثمان رجل حيي، وإني خشيت إن أذنت له على تلك الحال ، أن لا يبلغ إلى فى حاجته و قال الليث : وقال جماعة الناس : إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لعائشة رضي الله عنها : ألا أستحيي ممن يستحيي از همين فضائل عشره مبشره مني امام منه الملائكة
صحیح مسلم، رقم : 2402، مسند احمد : 155/6، رقم : 25216۔ شیخ شعیب نے اسے” صحیح علی شرط مسلم“ قرار دیا ہے۔
” اور حضرت سعید بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے مجھے بیان کیا کہ سید نا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی چادر اوڑھے اپنے بستر پر لیٹے ہوئے تھے اور اسی حالت میں سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اندر آنے کی اجازت دے دی اور ان کی ضرورت پوری کر دی، ان کے چلے جانے کے بعد سید نا عمر رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی ، انہیں اجازت دے دی گئی، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی حالت میں رہے، ان کی ضرورت پوری کر دی اور وہ چلے گئے ، پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ آگئے اور انہوں نے حاضر ہونے کی اجازت طلب کی، اس بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم سید ھے ہو کر بیٹھ گئے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ارشاد فرمایا: تم بھی اپنے کپڑے اچھی طرح اپنے اوپر سمیٹ لو، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے میری ضرورت پوری کی اور میں چلا گیا، یہ فرق دیکھ کر سیدہ عائشہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اللہ کے رسول! کیا وجہ ہے کہ آپ نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اور سید نا عمر رضی اللہ عنہ کی آمد پر وہ اہتمام نہیں کیا، جو عثمان رضی اللہ عنہ کی آمد پر کیا۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عثمان رضی اللہ عنہ انتہائی شرم وحیا والے آدمی ہیں، اگر میں ان کو اسی حالت میں آنے کی اجازت دے دیتا تو مجھے اندیشہ تھا کہ وہ اپنی آمد کا مقصد بیان نہیں کر سکیں گے۔ راوی حدیث لیث کہتے ہیں: اہل علم کی ایک جماعت نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی للہ ہم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ارشاد فرمایا: کیا میں ایسے آدمی سے حیا نہ کروں کہ جس سے اللہ کے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔“

(4) سید نا علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت

حدیث 17

وعن أبى عبد الله الجدلي قال: دخلت على أم سلمة، فقالت لي: أيسب رسول الله صلى الله عليه وسلم فيكم؟ قلت: معاذ الله ، أو سبحان الله أو كلمة نحوها ، قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من سب عليا فقد سبني

” ابو عبداللہ جدلی کہتے ہیں: میں سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے مجھ سے کہا: کیا تمہارے ہاں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہا جا رہا ہے؟ میں نے کہا: اللہ کی پناہ، یا کہا: سبحان اللہ ! بڑا تعجب ہے، یا اسی قسم کا کوئی کلمہ کہا، ( یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہا جائے ) انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا: جس نے علی کو برا بھلا کہا، اس نے یقیناً مجھے برا بھلا کہا۔ “

حدیث 18

وعن أم سلمة رضي الله عنها زوج النبى صلى الله عليه وسلم قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لعلي : لا يبغضك مؤمن ولا يحبك منافق
سنن ترمذی، رقم : 3717 ، مسند احمد : 292/6، رقم : 26507۔ شیخ شعیب نے اسے” صحیح“ کہا ہے۔
” اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا: کوئی مومن تجھ سے بغض نہیں رکھ سکتا اور کوئی منافق تجھ سے محبت نہیں کر سکتا “

حدیث 19

وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم خيبر : لادفعن الراية إلى رجل يحب الله ورسوله يفتح الله عليه – قال: فقال عمر: فما أحببت الإمارة قبل يومئذ فتطاولت لها واستشرفت رجاء أن يدفعها إلى ، فلما كان الغد دعا عليا عليه السلام فدفعها إليه فقال: قاتل ولا تلتفت حتى يفتح عليك – فسار قريبا ثم نادى يا رسول الله علام أقاتل؟ قال: حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله، وأن محمدا رسول الله صلى الله عليه وسلم فإذا فعلوا ذلك فقد منعوا مني دماتهم وأموالهم إلا بحقها ، وحسابهم على الله عز وجل
صحیح مسلم، رقم : 2405 ، مسند احمد : 384/2، رقم : 8990.
” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن ارشاد فرمایا: اب میں یہ جھنڈا ایسے آدمی کو دوں گا، جسے اللہ اور اس کے رسول سے محبت ہے، اس لیے کہ اس کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ فتح نصیب فرمائے گا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ میں نے اس واقعہ سے پہلے کبھی امارت کی خواہش نہیں کی تھی، اس روز جھنڈا حاصل کرنے کی خواہش میں میں نے بھی گردن اوپر کو اٹھائی اور اونچا ہو ہو کر دیکھنے لگا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ جھنڈا مجھے عطا فرما دیں، لیکن جب دوسرا دن ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو بلوا کر جھنڈا انہیں تھا یا اور آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: تم ان سے قتال کرتے رہنا، یہاں تک کہ آپ فتح یاب ہو جائیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے تھوڑا سا چلنے کے بعد کہا: اے اللہ کے رسول ! بھلا میں ان سے کس بات پر قتال کروں گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس بات پر قتال کرو کہ وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دیں، وہ لوگ جب یہ کام کر لیں تو وہ اپنے خون اور اموال کو مجھ سے بچالیں گے، مگر ان کے حق کے ساتھ اور ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے۔“

حدیث 20

وعن زيد بن أرقم وأنا أسمع: نزلنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بواد يقال له وادي خم ، فأمر بالصلاة فصلاها بهجير ، قال: فخطبنا وظلل لرسول الله صلى الله عليه وسلم بشوب على شجرة سمرة من الشمس ، فقال: ألستم تعلمون أولستم تشهدون أنى أولى بكل مؤمن من نفسه – قالوا: بلى، قال: فمن كنت مولاه فإن عليا مولاه، اللهم عاد من عاداه ووال من والاه
مسند احمد : 322/4، رقم : 19325، مسند البزار ، رقم : 2537۔ شیخ شعیب نے اسے ”صحیح“ کہا ہے۔
” اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک وادی میں اترے، اس کو وادی خم کہتے تھے، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا حکم دیا اور سخت گرمی میں ظہر کی نماز پڑھائی، پھر آپ صلى الله عليه وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور دھوپ سے بچانے کے لیے کیکر کے درخت پر کپڑا ڈال کر آپ کی ہم پر سایہ کیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا تم جانتے نہیں ہو، یا کیا تم یہ گواہی نہیں دیتے کہ میں ہر مومن کے اس کے نفس سے بھی زیادہ قریب ہوں؟ صحابہ نے کہا: جی کیوں نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں جس کا دوست ہوں، علی بھی اس کا دوست ہے، اے اللہ ! تو اس سے دشمنی رکھ، جو علی سے دشمنی رکھتا ہے اور تو اس کو دوست رکھ، جو علی کو دوست رکھتا ہے۔“

حدیث 21

وعن جابر بن عبد الله رضي الله عنه ، قال: لما أراد رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يخلف عليا رضى الله عنه ، قال : قال له على : ما يقول الناس فى إذا خلفتني؟ قال: فقال: ما ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه ليس بعدي نبي ، أولا يكون بعدي
سنن ترمذي، رقم : 3730 ، مسند احمد : 338/3، رقم : 14638. شیخ شعیب نے اسے ”صحیح لغیرہ“ کہا ہے۔
” اور حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ (غزوہ تبوک کے موقع پر ) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو پیچھے چھوڑ جانے کا ارادہ کیا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ مجھے یوں پیچھے چھوڑ جائیں گے تو لوگ میرے بارے میں کیا کہیں گے؟ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ تمہارا تعلق میرے ساتھ وہی ہو، جو موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہارون علیہ السلام کا تھا، الا یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔“

(5) سیدنا طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت

حدیث 22

وعن قيس بن أبى حازم رضي الله عنه قال: رأيت يد طلحة شلاه وقى بها النبى صلى الله عليه وسلم يوم أحد
صحیح بخاری، رقم : 6109، سنن ابن ماجه رقم : 120، مشكوة المصابيح، رقم : 6109 ۔
”اور حضرت قیس بن ابی حازم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے طلحہ رضی اللہ عنہ ان کے ہاتھ کوشل دیکھا اور (اس کا سبب یہ تھا کہ ) اس نے جنگ اُحد کے روز اس ہاتھ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بچانے کی کوشش کی تھی۔“

حدیث 23

وعن الزبير بن العوام ، قال: كان على النبى صلى الله عليه وسلم درعان يوم أحد فنهض إلى الصخرة، فلم يستطع فأقعد طلحة تحته فصعد النبى صلى الله عليه وسلم عليه حتى استوى على الصخرة، فقال: سمعت النبى صلى الله عليه وسلم يقول: أوجب طلحة
سنن ترمذی، ابواب الجهاد، رقم : 1692 ، صحيح أبوداؤد، رقم : 2332.
” اور حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُحد کے دن دو زرہ پہن رکھی تھیں، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹان پر چڑھنے لگے تو چڑھ نہ سکے، چنانچہ طلحہ رضی اللہ عنہ نے کو اپنے نیچے بٹھایا اور چڑھ کر چٹان پر چلے گئے اور میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: طلحہ رضی اللہ عنہا نے اپنے لیے جنت کو واجب کر لیا۔“

حدیث 24

وعن جابر بن عبد الله رضي الله عنه سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من سره أن ينظر إلى شهيد يمشي على وجه الأرض فلينظر إلى طلحة بن عبيد الله
سنن ترمذی، رقم : 3739، سنن ابن ماجه رقم: 125۔ محدث البانی نے اسے” صحیح“ کہا ہے۔
” اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ ارشاد فرما رہے تھے جو زمین پر چلتا پھرتا شہید دیکھنا چاہے تو وہ طلحہ بن عبید الله رضی اللہ عنہ کو دیکھے۔ “

حدیث 25

وعن قبيصة: ما رأيت رجلا قط أعطى الجزيل من المال من غير مسألة من طلحة بن عبيد الله وكان أهله يقولون إن النبى صلى الله عليه وسلم سماه الفياض
المعجم الكبير للطبرانی، رقم: 194 ، مجمع الزوائد، رقم : 14803۔ ہیثمی نے اسے ”حسن“ کہا ہے۔
” اور حضرت قبیصہ نے کہا: میں نے طلحہ بن عبید رضی اللہ عنہ کے علاوہ سوال کے بغیر اتنا کثیر مال دینے والا کوئی نہیں دیکھا اور ان کے گھر والے کہتے تھے کہ ان کا نام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فیاض رکھا ہے۔“

حدیث 26

وعن طلحة بن مصرف أن عليا انتهى إلى طلحة بن عبيد الله وقد مات فنزل عن دابته وأجلسه فجعل يمسح الغبار عن وجهه ولحيته وهو يترحم عليه ويبكي ويقول: ليتني مت قبل هذا اليوم بعشرين سنة
المعجم الكبير للطبراني رقم : 202 ، مجمع الزوائد، رقم : 14823 ۔ ہیثمی نے اسے ”حسن“ کہا ہے۔
” اور حضرت طلحہ بن مصرف کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ ، جب طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو وہ فوت ہو چکے تھے تو علی رضی اللہ عنہ اپنی سواری سے اترے اور ان کو بٹھایا اور ان کی داڑھی اور چہرے سے گردو غبار کی اور ان کے لیے رحمت طلب کرتے اور روتے رہے اور کہتے جاتے تھے : کاش ! آج سے بیس سال پہلے میں فوت ہو چکا ہوتا۔“

(6) سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کی فضیلت

حدیث 27

وعن الزبير رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من يأتى بني قريظة فيأتيني بخبرهم؟ فانطلقت ، فلما رجعت جمع لي رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ابويه فقال : فداك أبى وأمي
صحیح بخاری، رقم : 3720، صحیح مسلم، رقم : 2416/49، مشكوة المصابيح، رقم : 6111 .
” اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کون شخص بنوقریظہ کے ہاں جائے گا اور ان کے بارے میں مجھے اطلاع دے گا۔ ( زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ) چنانچہ میں گیا، جب میں واپس آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (فرحت سے اپنے تشکرانہ الفاظ میں ) میرے لیے اپنے والدین کو جمع کیا اور فرمایا: تجھ پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔“

حدیث 28

وعن جابر رضي الله عنه قال : قال النبى صلى الله عليه وسلم : من يأتيني بخبر القوم؟ يوم الأحزاب . قال الزبير : أنا فقال النبى صلى الله عليه وسلم : إن لكل نبي حواريا، وحوارك الزبير
صحیح بخاری، رقم : 2846 صحیح مسلم، رقم : 2415/48، مشكوة المصابيح، رقم :110 6 .
” اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احزاب کے موقعہ پر ارشاد فرمایا: مجھے کفار کے بارے میں کون اطلاع دے گا ؟ زبیر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، میں اطلاع دوں گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بلاشبہ ہر پیغمبر کے معاون ہوتے ہیں اور میری معاونت کرنے والے زبیر ہیں۔“

حدیث 29

وعن جابر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : الزبير ابن عمتي وحواري من أمتي
مسند احمد : 314/3، رقم : 14374 ، مصنف ابن أبي شيبة : 92/12 ۔ شیخ شعیب نے اسے ”صحیح علی شرط الشیخین“ قرار دیا ہے۔
”اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: زبیر میرا پھوپھی زاد اور میری امت میں سے میرا حواری ہے۔ “

حدیث 30

وعن مروان بن الحكم قال: أصاب عثمان بن عفان رعاف شديد سنة الرعاف حتى حبسه عن الحج وأوصى فدخل عليه رجل من قريش قال: استخلف، قال: وقالوه؟ قال: نعم قال: ومن؟ فسكت فدخل عليه رجل آخر أحسبه الحارث فقال: استخلف فقال عثمان: وقالوا؟ فقال: نعم قال: ومن هو؟ فسكت قال: فلعلهم قالوا: الزبير قال: نعم قال: أما والذي نفسي بيده إنه لخيرهم ما علمت ، وإن كان لأحبهم إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم
صحیح بخاری، رقم : 3717 ، مسند احمد، رقم : 457.
” اور حضرت مروان بن حکم نے کہا کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو ایک سال نکسیر بہت زیادہ لاحق ہوئی اور وہ حج بھی نہیں کر سکے اور وصیت کر دی تو ان کے پاس قریش میں سے ایک آدمی آیا اور اس نے کہا: اپنا جانشین مقرر کر دیجیے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: لوگ کہتے ہیں؟ تو اس نے کہا: ہاں۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ کون ہونا چاہیے؟ تو وہ آدمی خاموش ہو رہا۔ تھوڑی دیر بعد ایک اور آدمیوں کے پاس آیا۔ میرا خیال ہے وہ حارث تھا۔ اس نے بھی کہا: نائب مقرر کر دیجیے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیا لوگوں نے یہ بات کہی ہے؟ اس نے کہا: ہاں، تو انہوں نے پوچھا: کسے مقرر کریں؟ تو وہ آدمی خاموش ہو گیا۔ پھر عثمان رضی اللہ عنہ نے خود ہی کہا: شاید لوگ زبیر رضی اللہ عنہ کا کہتے ہوں گے؟ اس نے کہا: ہاں۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! وہ ان میں بہترین آدمی ہے، جہاں تک میں جانتا ہوں اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بہت پسند تھے ۔“

(7) سید نا ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کی فضیلت

حدیث 31

وعن أنس رضی اللہ عنہ ، قال : قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : لكل أمة أمين ، وآمين هذه الأمة أبو عبيدة بن الجراح
صحیح بخاری، رقم : 4328، صحیح مسلم، رقم :2419/53، مشكوة المصابيح، رقم :6115 .
” اور حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر امت میں امانت دار شخص ہوتا ہے اور اس امت کا امین ( قابل اعتماد) شخص ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ ہے۔ “

حدیث 32

وعن ابن أبى مليكة رضی اللہ عنہ ، قال : سمعت عائشة وسئلت : من كان رسول الله صلى الله عليه وسلم مستخلفا لو استخلفه؟ قالت : أبو بكر. فقيل : ثم من بعد أبى بكر؟ قالت : عمر . قيل : من بعد عمر قالت : أبو عبيدة بن الجراح
صحیح مسلم، رقم : 2385/9، مسند أحمد : 63/6، مشكوة المصابيح، رقم : 6116 .
” اور حضرت ابن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا جب ان سے دریافت کیا گیا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو خلافت کے مرتبے پر فائز کرنا چاہتے تو کس کو خلیفہ بناتے ؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بناتے ۔ دریافت کیا گیا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بعد پھر کس کو ؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا، عمر رضی اللہ عنہ کو دریافت کیا گیا کہ عمر رضی اللہ عنہ کے بعد کس کو؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا، ابو عبیدہ بن جراح رضی الله عنہ کو۔ “

حدیث 33

وعن عبد الملك بن عمير قال: استعمل عمر بن الخطاب أبا عبيدة بن الجراح على الشام وعزل خالد بن الوليد، قال: فقال خالد بن الوليد بعث عليكم أمين هذه الأمة ، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: أمين هذه الأمة أبو عبيدة بن الجراح قال أبو عبيدة: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: خالد سيف من سيوف الله عز وجل ، ونعم فتى العشيرة
مسند احمد :90/48، رقم : 16823، المعجم الكبير للطبراني ، رقم : 3825۔ شیخ شعیب نے اسے ”حسن لغیرہ“ کہا ہے۔
” اور عبدالملک بن عمیر سے مروی ہے کہ جب سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو معزول کر کے سیدنا ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو شام کا عامل مقرر کیا تو سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کہا: اس امت کے امین اور انتہائی قابل اعتماد آدمی کو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا تھا کہ اس امت کے امین ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ ہیں ۔ سیدنا ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے اور اپنے خاندان کا بہترین فرد ہے۔“

حدیث 34

وعن أنس أن أهل اليمن قدموا على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالوا ابعث معنا رجلا يعلمنا والإسلام قال: فأخذ بيد أبى عبيدة ، فقال: هذا أمين هذه الأمة
صحیح مسلم، رقم : 2419 .
”اور حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اہل ایمن نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے پاس آئے اور کہا: ہمارے ساتھ کوئی آدمی بھیجے جو ہمیں سنت اور اسلام کی تعلیم دے تو آپ نے ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر ارشاد فرمایا: یہ اس امت کا امین ہے۔ “

(8) سید نا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی فضیلت

حدیث 35

وعن أم بكر بنت المسور، قال الخزاعي: عن أم بكر بنت المسور، أن عبد الرحمن بن عوف باع أرضا له من عثمان بن عفان بأربعين ألف دينار ، فقسمه فى فقراء بني زهرة وفي المهاجرين وأمهات المؤمنين، قال المسور: فأتيت عائشة بنصيبها ، فقالت: من أرسل بهذا؟ فقلت: عبد الرحمن، قالت أما إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ، وقال الخزاعي: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا يحنو عليكن بعدى إلا الصابرون سقى الله عبد الرحمن بن عوف من سلسبيل الجنة
مسند احمد : 184/6، رقم : 24724، معجم اوسط للطبرانی، رقم : 911۔ شیخ شعیب نے اسے ”حسن“ کہا ہے۔
” اور ام بکر بنت مسور سے مروی ہے کہ سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اپنی ایک زمین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو چالیس ہزار دینار میں فروخت کی ۔اور انہوں نے یہ ساری رقم بنوزہرہ کے فقراء،مہاجرین صحابہ اور امہات المومنین میں تقسیم کر دی۔ مسور کہتے ہیں : میں ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا حصہ لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے دریافت کیا کہ یہ رقم کس نے بھیجی ہے؟ میں نے عرض کیا: سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ۔ سیدہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بیویوں کے حق میں فرماتے سنا ہے کہ میرے بعد صبر کی صفت سے متصف لوگ ہی تم پر شفقت و مہربانی کریں۔ اللہ تعالیٰ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو جنت کی سلسبیل سے سیراب فرمائے ۔“

(9) سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی فضیلت

حدیث 36

وعن عائشة رضي الله عنها ، قالت : سهر رسول الله صلى الله عليه وسلم مقدمه المدينة ليلة فقال: ليت رجلا صالحا يحرسني إذ سمعنا صوت سلاح فقال : من هذا؟ قال: أنا سعد ، قال : ما جاء بك؟ قال : وقع فى نفسى خوف على رسول الله صلى الله عليه وسلم فجئت احرسه ، فدعا له رسول الله صلى الله عليه وسلم ، ثم نام
صحیح بخاری، رقم : 2885، صحیح مسلم، رقم : 1875/4، مشكوة المصابيح، رقم : 6114 .
” اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ (کسی جنگ سے واپسی پر ) مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات بیدار رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کوئی صالح شخص میری حفاظت کرے۔ اچانک ہم ہتھیاروں کی جھنکار کو سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ کون شخص ہے؟ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا، میں سعد ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تو کس لیے آیا ہے؟ اس نے عرض کیا: میرے دل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں لاحق ہوا تھا اس لیے میں آپ کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ (اس کی یہ بات سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے حق میں دعا کی پھر آپ سو گئے ۔“

حدیث 37

وعن على رضي الله عنه ، قال : ما سمعت النبى صلى الله عليه وسلم جمع أبويه لاحد إلا لسعد بن مالك ، فإني سمعته يقول يوم أحد : يا سعد ارم فداك أبى وأمي
صحیح بخاری، رقم : 4054 ، صحیح مسلم، رقم : 2416/49، مشكوة المصابيح ، رقم : 6112۔
”اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن مالک ابی وقاص کے علاوہ کسی اور شخص کے لیے اپنے والدین کو جمع کیا ہو (یعنی کہا ہو کہ آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں ) حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے جنگ اُحد کے روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ اے سعد! تیر پھینک، تجھ پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔ “

حدیث 38

وعن سعد أن رسول الله صلى الله عليه وسلم : قال: اللهم استجب لسعد إذا دعاك
سنن ترمذی، رقم : 3751۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یا اللہ ! سعد جب دعا کرے تو اس کی دعا قبول فرما۔ “

حدیث 39

وعن جابر بن سمرة قال: شكا أهل الكوفة سعدا إلى عمر رضي الله عنه ، فعزله واستعمل عليهم عمارا ، فشكوا حتى ذكروا أنه لا يحسن يصلى، فأرسل إليه فقال: يا أبا إسحاق إن هؤلاء يزعمون أنك لا تحسن تصلى؟ قال أبو إسحاق : أما أنا والله! فإني كنت أصلى بهم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم ما أخرم عنها أصلى صلاة العشاء فأركد فى الأوليين وأخف فى الأخريين قال ذاك الظن بك يا أبا إسحاق فأرسل معه رجلا أو رجالا إلى الكوفة فسأل عنه أهل الكوفة ولم يدع مسجدا إلا سأل عنه ويثنون معروفا حتى دخل مسجدا لبني عبس فقام رجل منهم يقال له أسامة بن قتادة يكنى أبا سعدة قال أما إذ نشدتنا فإن سعدا كان لا يسير بالسرية ولا يقسم بالسوية ولا يعدل القضية قال سعد: أما والله! لأدعون بثلاث اللهم! إن كان عبدك هذا كاذبا قام رياء وسمعة فأطل عمره وأطل فقره وعرضه بالفتن وكان بعد إذا سئل يقول شيخ كبير مفتون أصابتني دعوة سعد قال عبد الملك فأنا رأيته بعد قد سقط حاجباه على عينيه من الكبر وإنه ليتعرض للجواري فى الطرق يغمرهن
صحیح بخاری، رقم : 755 ، صحیح مسلم، رقم : 543، سنن ابوداؤد، رقم: 803، سنن ترمذی، رقم : 2365.
” اور حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں اہل کوفہ نے عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے سعد رضی اللہ عنہ کی شکایت کی تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو معزول کر دیا اور ان پر عمار رضی اللہ عنہ کو حاکم مقرر کر دیا تو لوگوں نے سعد رضی اللہ عنہ کی شکایت کی اور یہ بھی کہا کہ وہ نماز اچھی طرح نہیں پڑھاتے ۔ پس عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف پیغام بھیجا اور کہا: اے ابواسحاق ! وہ لوگ گمان کرتے ہیں کہ تو اچھی طرح نماز نہیں پڑھاتا ؟ تو انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! میں ان کو اس طرح نماز پڑھاتا ہوں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تھی۔ اس میں کمی بیشی نہیں ہونے دیتا تھا۔ جب میں انہیں عشاء کی نماز پڑھاتا تو پہلی دو رکعات کو طویل کرتا اور دوسری دو رکعات کو چھوٹی کرتا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ابو اسحق ! تیرے بارے میں میرا یہی حسن ظن ہے ۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے سعد رضی اللہ عنہ کے ساتھ چند آدمی کوفہ بھیجے، تا کہ اہل کوفہ سے پوچھیں اور کوئی مسجد ترک نہ کی اور سب سے میں نے پوچھا تو سب لوگ سعد کی تعریف کرتے تھے اور جب بنوعبس کی مسجد میں گئے تو ان میں سے ایک شخص اٹھا۔ اس کو اسامہ بن قتادہ کہتے تھے اور اس کی کنیت ابوسعدہ تھی۔ اس نے کہا: جب تم ہمیں قسم ہی دیتے ہو تو یقیناً سعد فوج کی کمان نہیں کرتا تھا، مالِ غنیمت برابر تقسیم نہیں کرتا تھا اور فیصلوں میں انصاف نہیں کرتا تھا۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! میں بھی تین دعائیں مانگوں گا: یا اللہ ! اگر یہ تیرا بندہ جھوٹا ہے، ریا کاری اور سنانے کے لیے کھڑا ہوا ہے تو اس کی عمر لمبی کر دے اور اس کی غربت طویل کر دے اور اس کو فتنوں میں ڈال دے۔ پھر یہ شخص کہا کرتا تھا، میں بہت بوڑھا ہوں اور فتنوں میں مبتلا ں۔ مجھے سعد کی بددعا لگ گئی ہے۔ عبد الملک بن عمیر کہتے ہیں: اس شخص کو بعد میں میں نے دیکھا تھا۔ بڑھاپے کی وجہ سے اس کے آبرو اس کی آنکھوں پر گر چکے تھے اور یہ چھوٹی چھوٹی جوان لڑکیوں سے تعرض کرتا اور آنکھ مچولی کرتا ۔“

حدیث 40

وعن قيس ابن حازم، قال: قال: لقد رأيتني مع رسول الله صلى الله عليه وسلم سابع سبعة ، وما لنا طعام إلا ورق الحبلة ، حتى أن أحدنا ليضع كما تضع الشاة ما يخالطه شيء، ثم أصبحت بنو أسد يعزروني على الإسلام ، لقد خسرت إذا وضل
مسند احمد : 174/1 ، رقم : 1498 ، صحیح بخاری، رقم : 5412 .
” اور حضرت قیس ابن حازم فرماتے ہیں کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے خود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دیکھا، میں مسلمان ہونے والے گروہ میں ساتواں فرد تھا، ہمارے پاس خوراک کے طور پر صرف خاردار درختوں کے پتے تھے اور ہم قضائے حاجت کرتے تو بکریوں کی طرح مینگنیاں کرتے تھے اور یہ فضلہ لیس دار نہیں ہوتا تھا لیکن اب بنو اسد اسلام کے بارے میں مجھ پر طنز کرتے ہیں، اگر ان کی بات درست ہو تو میں تو خسارے میں رہا اور میرے سارے اعمال اکارت گئے۔ “

(10) سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ کی فضیلت

حدیث 41

وعنه قال: سمعت سعيد بن زيد يقول للقوم: لو رأيتني موثقى عمر على الإسلام أنا وأخته وما أسلم، ولو أن أحدا انقض لما صنعتم بعثمان لكان محقوقا أن ينقض
صحیح بخاری، رقم : 3867 ، جمع الفوائد، رقم الحديث : 8752 .
” اور حضرت قیس بن حازم نے کہا: میں نے سعید بن زید سے مسجد کوفہ میں بیان کرتے سنا: اللہ کی قسم! اسلام کی پاداش میں عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے اور اپنی بہن (میری اہلیہ ) کو باندھ دیا تھا اور وہ اس وقت اسلام نہیں لائے تھے ۔ اگر احد پہاڑ ٹوٹ پڑتا اس وجہ سے جو کچھ تم لوگوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ بدسلوکی کی ہے تو اسے یہ حق تھا کہ وہ ٹوٹ جائے۔“
وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1