رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ :
إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى
” تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ہر شخص کو وہى کچہ حاصل ہو گا جو اس نے نیت کی۔“ [متفق عليه ]
نیت دل کا عمل ہے۔ ذہنی اور قلبی یکسوئی کے ساتھ انسان کو اپنے رب کے سامنے حضوری اور اس کی بندگی کا خیال باندھنا اور پختہ رکھنا چاہیے اس مقصد کے لئے لفظی طور پر الفاظ زبان سے ادا کرنا سنت رسول یا صحابہ سے بلکل ثابت نہیں۔۔۔ بلکہ بدعت ہے۔
نمازیں گناہوں کا کفارہ بنتی ہیں
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :
الصَّلاةُ الْخَمْسُ، وَالْجُمْعَةُ إِلَى الْجُمْعَةِ، كَفَّارَةٌ لِمَا بَيْنَهُنَّ، مَا لَمْ تُغْشَ الْكَبَائِرُ
”پانچوں نمازیں اور ایک جمعہ دوسرے جمعہ کے مابین کے لئے کفارہ ہیں بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے بچا جائے۔“
وفي لفظ – وَرَمَضَانُ إِلَى رَمَضَانَ
”ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک کا بھی بیان ہے۔“
نمازوں سے درجات بلند اور خطائیں معاف ہوتی ہیں
جناب معدان بن ابی طلحہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے پوچھا کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں کہ اس سے اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں داخل کر دے۔۔۔ یا بروایت دیگر۔۔۔ مجھے وہ عمل ارشاد فرمائیں۔۔۔ جو اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبو ب ہو۔۔۔ تو جناب ثوبان رضی اللہ عنہ خاموش ہو رہے۔۔۔ میں نے دوبارہ عرض کیا تو بھی خاموش رہے۔ تیسری بار پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ :
عَلَيْكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ لِلَّهِ، فَإِنَّكَ لَا تَسْجُدُ لِلَّهِ سَجْدَةً، إِلَّا رَفَعَكَ اللَّهُ بِهَا دَرَجَةً وَحَطَّ عَنْكَ بِهَا خَطِيئَةً
”اللہ تعالیٰ کے لئے بہت زیادہ سجدے کیا کرو۔ تو جب بھی سجدہ کرے گا تو اللہ تعالیٰ تیرا ایک درجہ بلند فرمائے گا اور ایک گناہ معاف کر دے گا۔ “ [ صحيح مسلم ]
حضرت معدان کا بیان ہے کہ میں حضرت ثوبان سے بات سن کر ایک دوسرے صحابی حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے بھی یہی سوال دہرایا تو انہوں نے بھی مجھے یہی جواب دیا جو حضرت ثوبان نے دیا تھا۔
نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت و رفاقت کا باعث ہے
حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے لئے رات کو میں آپ کے پاس ہوتا تھا۔ تو ایک موقعہ پر طہارت کے لئے میں آپ کے پاس پانی لایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ : ”مانگو کیا چاہتے ہو ؟ “ میں نے عرض کیا : ”میں جنت میں آپ کا ساتھ اور آپ کی رفاقت چاہتا ہوں“۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا :۔۔۔ ”کوئی اور بات کہو“۔۔۔ میں نے کہا میرا سوال و مطالبہ تو یہی ہے ! تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
فَأَعِنِّي عَلَى نَفْسِكَ، بِكَثْرَةِ السُّجُودِ
”اپنے اس مطلب کے لئے بہت زیادہ سجدوں کے ساتھ میری مدد کرو!۔“ [صحيح مسلم]
(یہ حدیث افراد مسلم میں سے ہے اور حضرت ربیعہ رضی اللہ عنہ سے ”الصحیح“ میں اس کے علاوہ کوئی اور روایت نہیں ہے۔ )
نمازی کا قدم قدم بلندی درجات کا باعث ہے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما یا ہے کہ :
مَنْ تَطَهَّرَ فِي بَيْتِهِ، ثُمَّ مَشَى إِلَى بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللَّهِ لِيَقْضِيَ فَرِيضَةً مِنْ فَرَائِضِ اللَّهِ، كَانَتْ خَطْوَتَاهُ إِحْدَاهُمَا تَحُطُّ خَطِيئَةً، وَالأُخْرَى تَرْفَعُ دَرَجَةً
”جو شخص اپنے گھر سے وضو کر کے اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر ( یعنی مسجد ) کا رخ کرتا ہے تاکہ کوئی فریضہ ادا کرے تو اس کا ایک قدم گناہ کی معافی اور دوسرا بلندی درجات کا باعث ہوتا ہے۔“
پاکیزگی و طہارت کی ایک بہترین مثال
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے فرمایا کہ :
”بھلا کسی شخص کے دروازے کے سامنے نہر بہ رہی ہو اور وہ اس میں روزانہ پانچ بار غسل کرے تو کیا اس کے جسم پر کوئی میل کچیل باقی رہ جائے گی ؟ صحابہ نے جواب دیا کہ جی بلکل نہیں۔۔۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسے ہی مثال ہے پانچ نمازوں کی کہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے گناہ بلکل معاف فرما دیتا ہے۔ “ [صحيح بخاري و مسلم ]
مسجد کی حاضری۔۔۔ جنت کی مہمانی
صحیح بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان وارد ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :
مَنْ غَدَا إِلَى الْمَسْجِدِ وَرَاحَ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُ نُزُلَهُ مِنَ الْجَنَّةِ كُلَّمَا غَدَا أَوْ رَاحَ
”جو شخص صبح یا شام کو مسجد جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں مہمانی تیار کرتا ہے۔ جب جب وہ مسجد جا ئے گا اس کے لئے یہ نعمتیں تیار ہوں گی۔“ [متفق علیہ ]
نماز ایک نور ہے
ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : ”وضو اور پاکیزگی“ آدھا ایمان ہے۔ ”الحمداللہ“ کہنا ترازو بھرتا ہے۔ ”سبحان اللہ والحمد اللہ“ کا ذکر زمین و آسمان کے مابین کو بھر دیتا ہے ”نماز“ نور ہے۔ ”صدقہ“ دلیل ہے۔ ”صبر “ روشنی ہے اور ”قرآن “حجت اور دلیل ہے، تیرے حق میں یا تیرے خلاف ! تمام لوگ صبح اٹھ کے اپنا اپنا سودا کرتے ہیں اور اس سودے میں کچھ تو اپنے آپ کو آزاد کرا لیتے ہیں اور کچھ ہلاک کرا لیتے ہیں۔ [صحيح مسلم ]
(راوی حدیث ”ابو مالک“ کے نام میں اختلاف ہے۔ عمرو یا عبید یا کعب یہ تین نام نقل کیے گئے ہیں)۔
اول وقت نماز پڑھنے کی فضیلت
صحیح بخاری و مسلم میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ :
اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل سب سے زیادہ محبوب ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : ”بروقت نماز ادا کرنا۔“
میں نے عرض کیا : پھر کون سا عمل ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : والدین کے ساتھ حسن سلوک، میں نے سوال کیا : ان کے بعد پھر کون سا عمل ؟ فرمایا : اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔
حضرت عبداللہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہی اعمال بتائے اگر میں اور بھی پوچھتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مزید ارشاد فرما تے۔
جماعت کی فضیلت
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :
صَلَاةُ الْجَمَاعَةِ، أَفْضَلُ مِنْ صَلَاةِ أَحَدِكُمْ وَحْدَهُ، بِخَمْسَةٍ وَعِشْرِينَ جُزْءًا
”جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا اکیلے نماز پڑھنے کی نسبت پچیس (جزء) گناہ زیادہ افضل ہے۔“
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں ستائیس درجہ افضل ہونے کا بیان ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ عام روایت پچیس کی ہے مگر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ستائیس روایت کرتے ہیں۔
علماء نے حدیث میں وارد لفظ ”جزء “ اور ”درجہ “کے مفہوم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ ”درجہ “جزء کی نسبت چھوٹا ہوتا ہے۔
فجر کی سنتوں کی فضیلت
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
رَكْعَتَا الْفَجْرِ، خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا
”نماز فجر کی دو سنتیں دنیا و مافیہا سے بڑھ کر ہیں۔“ [صحيح مسلم 1688]
ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی سنتوں کے علاوہ کوئی اور نفل نماز جلدی جلدی نہ پڑھا کرتے تھے۔
نماز فجر اور عصر پابندی سے ادا کرنے کی فضیلت
حضرت عمارہ بن روبیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا :
لَنْ يَلِجَ النَّارَ أَحَدٌ صَلَّى، قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ، وَقَبْلَ غُرُوبِهَا، يَعْنِي الْفَجْرَ، وَالْعَصْرَ
”وہ شخص ہر گز آگ میں نہیں جائے گا جو سورج کے طلوع اور غروب ہونے سے پہلے نماز پڑھتا ہے۔ یعنی نماز فجر اور عصر ( کی پابندی کرتا ہے )۔ “ [صحيح مسلم 1436 ]
حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ صَلَّى الْبَرْدَيْنِ، دَخَلَ الْجَنَّةَ
”جو شخص دو ٹھنڈے وقتوں کی نمازیں پڑھتا ہے وہ جنت میں داخل ہو گا۔“ ( یعنی نماز فجر اور عصر مراد ہے )۔ [صحيح مسلم 1438 ]
نماز ضحیٰ (چاشت) کا بیان
حضرت ابوورداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ :
أَوْصَانِي حَبِيبِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَلَاثٍ، لَنْ أَدَعَهُنَّ مَا عِشْتُ، بِصِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَصَلَاةِ الضُّحَى، وَبِأَنْ لَا أَنَامَ حَتَّى أُوتِرَ
”مجھے میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے تین کاموں کی وصیت فرمائی کہ زندگی بھر انہیں ہرگز نہ چھوڑوں۔ اول یہ کہ ہر مہینے تین روزے رکھوں، دوسرے نماز چاشت اور تیسرے یہ کہ وتر پڑھے بغیر نہ سوؤں۔“ [صحيح مسلم 1675]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح منقول ہے کہ :
أَوْصَانِي خَلِيلِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَلَاثٍ، بِصِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَرَكْعَتَيِ الضُّحَى، وَأَنْ أُوتِرَ قَبْلَ أَنْ أَرْقُدَ
”میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تین باتوں کی وصیت فرمائی تھی کہ ہر مہینے تین روزے رکھا کروں، چاشت کی دو رکعتیں پڑھا کروں اور یہ کہ سونے سے پہلے وتر ادا کر لیا کروں۔“ [صحيح مسلم1672 ]
ضحیٰ (چاشت) کی دو رکعتیں مالی صدقہ سے کفایت کرتی ہیں
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ :
يُصْبِحُ عَلَى كُلِّ سُلَامَى مِنْ أَحَدِكُمْ صَدَقَةٌ، فَكُلُّ تَسْبِيحَةٍ صَدَقَةٌ، وَكُلُّ تَحْمِيدَةٍ صَدَقَةٌ، وَكُلُّ تَهْلِيلَةٍ صَدَقَةٌ، وَكُلُّ تَكْبِيرَةٍ صَدَقَةٌ، وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ صَدَقَةٌ، وَنَهْيٌ عَنِ الْمُنْكَرِ صَدَقَةٌ، وَيُجْزِئُ مِنْ ذَلِكَ رَكْعَتَانِ يَرْكَعُهُمَا مِنَ الضُّحَى
”ہر روز تم میں سے ہر شخص کے جوڑ جوڑ پر صدقہ لازم ہوتا ہے، چنانچہ سبحان اللہ کہنا صدقہ ہے، الحمداللہ کہنا صدقہ ہے، لا الہ الا اللہ کہنا صدقہ ہے، اللہ اکبر کہنا صدقہ ہے۔ [صحيح مسلم 1671]
اچھی بات بتانا اور بڑی بات سے منع کرنا صدقہ ہے، اور ان سب اعمال سے چاشت کی دو رکعتیں کفایت کرتی ہیں۔ “
(حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح کی ایک روایت بخاری و مسلم دونوں میں وارد ہے۔)
نماز چاشت (ضحیٰ) کی رکعات ؟
اوپر بیان ہو چکا ہے کہ چاشت کی دو رکعتیں ہیں۔ تاہم امام مسلم کی بیان کردہ روایت جو معاذہ، اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کرتی ہیں اس میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی چار رکعت پڑھتے اور جو اللہ چاہتا اس پر اضافہ بھی فرما لیتے۔ [مسلم]
بخاری اور مسلم میں وارد ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز چاشت پڑھنے کے متعلق ام ھانی رضی اللہ عنہا کے علاوہ کسی نے کچھ نہیں بتایا، ام ھانی کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ والے دن ان کے گھر تشریف لائے تھے اور چاشت کی آٹھ رکعت پڑھی تھیں، وہ کہتی ہیں کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت ہی ہلکی نماز تھی۔ آپ کی اس سے زیادہ ہلکی نماز میں نے کوئی اور نہیں دیکھی۔ تاہم رکوع سجود نہایت کامل تھے۔
صلٰوۃ الاوابین۔۔۔۔۔ اور اس کا وقت
قاسم بن عوف شیبانی روایت کرتے ہیں کہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے کچھ لوگوں کو چاشت کی نماز پڑھتے دیکھا (یہ لوگ سورج نکلنے کے بعد جلدی ہی یہ نماز پڑھ رہے تھے ) تو یہ بولے : کیا انہیں علم نہیں کہ یہ نماز اس وقت کے علاوہ دوسرے وقت میں زیادہ افضل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ:
صَلَاةُ الأَوَّابِينَ حِينَ تَرْمَضُ الْفِصَالُ
”اواب لوگ یعنی (مطيع فرمان اور عبادت گزار لوگ ) اس وقت نماز پڑھتے ہیں۔ جب اونٹ بچوں کے پاوں جلنے لگتے ہیں۔“ (یعنی دوپہر کے قریب ) [صحيح مسلم1746]
( بعض روایات میں صلوۃ الاوابین کے لئے مغرب عشاء کے درمیان چھ رکعات کا ذکر ہے۔ مگر وہ محل نظیر ہیں۔ صحیح اور راجح بات یہی ہے کہ قبل از دوپہر کی نماز ہی ”صلوۃ الاوابین“ ہے)۔
اواب کا معنی : اللہ تعالیٰ کی طرف بہت زیادہ رجوع کرنے والا – یا مطیع فرمان – تسبیح گزار – یا رحم کرنے والا – یا فقیہ عالم۔
ظہر سے پہلے اور بعد کی سنتوں کی فضیلت
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ حَافَظَ عَلَى أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ قَبْلَ الظُّهْرِ وَأَرْبَعٍ بَعْدَهَا حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ
”جو شخص ظہر سے پہلے اور اس کے بعد چار چار رکعت کی پابندی کرے گا اللہ تعالیٰ اسے آگ پر حرام کر دے گا۔“ [سنن ترمذي 428 ]
دن رات میں بارہ رکعت نفل پڑھنے کی فضیلت
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ انہوں نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ :
مَا مِنْ عَبْدٍ مُسْلِمٍ يُصَلِّي لِلَّهِ كُلَّ يَوْمٍ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً تَطَوُّعًا غَيْرَ فَرِيضَةٍ، إِلَّا بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ
”جو مسلمان بندہ اللہ کے لئے ہر دن بارہ رکعت نفل علاوہ فریضہ کے پڑھے گا، اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں گھر بنائے گا۔ “ [صحيح مسلم 1696 ]
تہجد کا بیان
تہجد کی فضیلت : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما یا کہ :
أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اللَّهِ الْمُحَرَّمُ، وَأَفْضَلُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَرِيضَةِ صَلَاةُ اللَّيْلِ
”رمضان کے بعد سب سے افضل روزے ماہ محرم کے، اور فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز ہے۔ “ [صحيح مسلم 2755 ]
تہجد پڑھنے والے پر شیطان کا دم بے اثر ہو جاتا ہے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما یا کہ :
”جب تم میں سے کوئی سوتا ہے تو شیطان اس کی گدی کے پاس آکر تین گرہیں لگاتا ہے اور ہر گرہ میں یہ الفاظ پھونکتا ہے رات بڑی لمبی ہے سویا رہ ! پس اگر وہ بندہ جاگ جائے اور اللہ کا ذکر کرے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے، پھر وضو کرنے پر دوسری گرہ کھل جاتی ہے اور پھر جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے تو تیسری بھی کھل جاتی ہے چنانچہ وہ صبح کے وقت نہایت ہشاش بشاش اور خوش ہوتا ہے۔ورنہ بہت ہی سست، کاہل اور ماندہ ماندہ سا رہتا ہے۔ “ [صحيح بخاري و مسلم]
شیطان کی گرہ بندی کے بارے میں علماء کی کئی ایک توجیہات ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ یہ محض تمثیل اور استعارہ ہے۔
اور دوسرا قول ہے کہ حقیقت میں یہ ایسے ہی ہوتا ہے اور شیطان ایسے گرہیں لگاتا اور ان میں پھونکتا ہے جیسے کہ جادوگر کیا کرتے ہیں۔
تہجد کا افضل وقت
جناب مسروق رحمہ اللہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس قسم کے اعمال زیادہ محبوب تھے ؟
تو انہوں نے جواب دیا کہ ”ہمیشگی اور پابندی والے اعمال“ وہ کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو کس وقت بیدار ہوتے تھے ؟ تو انہوں نے بتایا کہ : جب مرغ اذان دیتا تھا۔ [صحيح بخاري و مسلم]
پابندی تہجد کی ترغیب
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ارشاد فرمایا کہ : ”اے عبداللہ ! فلاں کی مانند نہ ہو جانا۔ وہ پہلے رات کا قیام کیا کرتا تھا اور پھر چھوڑ دیا۔“ [متفق عليه]
رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کا بیان
رمضان میں تراویح کی رکعات کی مسنون تعداد
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ : ”رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم رمضان یا غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہ پڑھتے تھے۔ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعت پڑھتے ان کی لمبائی اور خوبصورتی کا کیا پوچھنا ؟ ! ! بعد ازاں چار رکعت پھر پڑھتے ان کے طول اور خوبصورتی کا بھی کیا کہنا ! ! پھر آپ تین رکعت پڑھتے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ حضرت ! آپ وتروں سے پہلے نیند کرتے ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عائشہ ! میری آنکھیں سوتی ہیں مگر دل نہیں سوتا ! “۔ [ متفق عليه ]
جناب ابوالقاسم کی روایت میں ہے کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا وہ فرماتی تھیں کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کی رات ) کی نماز دس رکعت ہے اور ایک وتر اور پھر آپ فجر کی دو سنتیں ادا فرماتے۔ تو اس طرح یہ تیرہ رکعتیں بنیں۔ “ [متفق عليه ]
نماز استخارہ اور دعا ء استخارہ
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اپنے تمام کاموں کے لئے طلب خیر کی دعا (یعنی استخارہ کی ) تعلیم فرمایا کرتے تھے جیسے کہ قرآن مجید کی کوئی سورت ہو۔
یعنی جب کسی کو کوئی کام آ پڑے تو دو رکعت ادا کر کے یہ دعا کرے۔
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيمِ، فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ، اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ خَيْرٌ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي أَوْ قَالَ عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فَاقْدُرْهُ لِي وَيَسِّرْهُ لِي ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيهِ، وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي أَوْ قَالَ فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فَاصْرِفْهُ عَنِّي وَاصْرِفْنِي عَنْهُ، وَاقْدُرْ لِي الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ ثُمَّ أَرْضِنِي
”یا اللہ میں تیرے علم کے ذریعے بھلائی اور خیر مانگتا ہوں، اور تیری قدرت کے ذریعے توفیق چاہتا ہوں اور تیرے فضل عظیم کا سائل ہوں، تو قدرت والا ہے میں لاچار ہوں، تو جانتا ہے اور میں لاعلم ہوں اور تو ہی سب غیبوں کا جاننے والا ہے۔“ یا اللہ ! اگر تیرے علم کے مطابق میرا کام دینی، دنیاوی اور انجام کے اعتبار سے بہتر ہے – یا یوں کہوں – میرے فوری حالات میں یا بعد کے احوال میں بہتر ہے تو اسے میرے لئے مقدر فرما دے اور اگر تیرے علم کے مطابق میرا یہ کام دینی، دنیاوی اعتبار سے یا باالفاظ دیگر میرے فوری حالات یا بعد کے حالات میں اچھا نہ ہو تو اس کو مجھ سے پھیر دے اور مجھ کو اس سے دور کر دے – اور بھلائی اور خیر جہاں کہیں بھی ہو میرے لئے مقدر فرما دے اور مجھے اس پر مطمئن کر دے۔ [صحيح بخاري 1162]
( دعا میں هذا الامر کے موقعہ پر اپنے کام کانام لے)۔