ذاتی اصلاح: ایک پرکشش نعرہ
’’ذاتی اصلاح‘‘ جیسا دلکش نعرہ کسی بھی وقت یا جگہ ناقابلِ قبول نہیں ہو سکتا۔ یہ سننے میں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے سب مسائل کا حل یہی ہے کہ انسان اپنی ذات کو بہتر کر لے اور باقی دنیا کی فکر چھوڑ دے۔ یہ تصور پیش کیا جاتا ہے کہ اگر اپنے اندر کے پاپی کو سدھار لیا تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، اور اگر اپنی ذات کو درست نہ کیا تو سب بے فائدہ ہے۔ نتیجتاً، ایک ایسا رویہ عام کیا جا رہا ہے جو فرد کو اپنے گرد موجود دنیا سے لاتعلق کر کے صرف اپنی اصلاح کی جانب مائل کرتا ہے، جبکہ معاشرتی بحران اور عالمی حالات کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔
اخلاقی زوال اور ماہرین کا نظریہ
ان ماہرین کے نزدیک فرد ایک ایسا پلاسٹک کا پودا ہے جس پر نہ موسم، نہ مٹی اور نہ ہی ماحول کا کوئی اثر ہوتا ہے۔ یہ سوچ حقیقت سے بالکل برعکس ہے کیونکہ آج کی زہر آلود فضائیں اور بیرونی اثرات اخلاق و تہذیب کو برباد کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔ ان ماہرین کے لیے حیرت کی بات یہ ہے کہ ’’فرد‘‘ اخلاقی پستی کی موجودہ سطح پر کیسے پہنچا، لیکن اصل سوال یہ ہونا چاہیے کہ ان تمام نامساعد حالات کے باوجود یہ ’’فرد‘‘ مزید تباہی سے بچ کیسے گیا!
دو سو سال کی تباہ کن فضا
پچھلی دو صدیوں سے ایسی زہر آلود فضا قائم کی گئی ہے جس کا مقصد اخلاقی اقدار کو تلف کرنا تھا۔ اس دوران، ایسے نظریات اور رویے عام کیے گئے جنہوں نے قوم کو اخلاقی انحطاط کی جانب دھکیلا۔ وہی دانشور جو پہلے اس زہر کو خوبصورت نام دے کر پیش کرتے تھے، اب قوم کی اخلاقی حالت پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ خود اخلاق اور دیانت میں کس حد تک بہتر ہیں؟
دانشوروں کی حقیقت
یہ دعویدارِ دانش درحقیقت اخلاقی، مالی اور سماجی سطح پر شدید کرپشن میں ملوث ہیں۔ اپنی خرابیوں کو چھپانے کے لیے قوم پر تنقید اور نصیحت کے پردے میں اپنا کردار چھپاتے ہیں۔ ان کے بیانیے نے قوم کو مایوسی اور خود پر عدم اعتماد کی گہری کھائی میں دھکیل دیا ہے۔
’’ناکام قوم‘‘ کا بیانیہ
ایسی سوچ کہ ہم ایک ناکام اور نالائق قوم ہیں، دراصل میڈیا اور کالم نویسوں کی پیدا کردہ ہے۔ یہ رویہ دشمن کے لیے آسانی پیدا کرتا ہے کہ وہ قوم کو مزید تقسیم کرے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ قوم آج بھی عظیم کارنامے انجام دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ضرورت صرف ان تاریک ذہنوں اور مایوسی پھیلانے والوں سے نجات حاصل کرنے کی ہے۔
’’فرد‘‘ کے بحران کا اصل ذمہ دار
یہ دانشور افراد کو ان کے اخلاقی زوال کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، حالانکہ موجودہ زہرناک حالات پیدا کرنے والے یہ خود ہیں۔ ان کے نزدیک بیرونی اثرات اور ماحول کو ذمہ دار ٹھہرانا غیرعلمی رویہ ہے۔
نتیجہ
آج اگر ’’فرد‘‘ میں خرابی ہے تو اس کا سبب وہ ماحول ہے جو دانستہ یا نادانستہ طور پر ان دانشوروں نے پیدا کیا۔ لیکن یہ دانشور اپنی ذمہ داری لینے کی بجائے تمام الزام فرد پر ڈال دیتے ہیں۔ یہ قوم آج بھی بہترین ہے، اور اگر اسے ان مایوس کن عناصر سے نجات مل جائے تو یقیناً یہ بڑی کامیابیاں حاصل کر سکتی ہے۔