فجر کی سنت اور فرض کے مسائل
ماخوذ: قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل، جلد 02

سوال

جب فجر کی جماعت ہو رہی ہو تو کیا فجر کی سنت پڑھنا جائز ہے؟ اور اگر سنتیں رہ جائیں تو کیا انہیں فرض کے بعد پڑھا جا سکتا ہے؟

پہلا مسئلہ: جماعت کے دوران سنت پڑھنا

اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جب فجر کی جماعت کھڑی ہو جائے تو سنت نماز پڑھنا منع ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَارْ‌كَعُوا مَعَ الرَّ‌اكِعِينَ (٤٣)﴾ (البقرة)

یعنی رکوع کرو، رکوع کرنے والوں کے ساتھ۔

اس آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جماعت کے دوران سنتیں ادا کرنا منع ہے۔ اسی طرح، نبی کریم ﷺ کی حدیث مبارکہ بھی اس مسئلے کو واضح کرتی ہے:

حدیث مبارکہ

عن أبی ھریرة قال قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم:
«إذا أقیمت الصلٰوة فلا صلوٰة إلا المکتوبة»
(مسلم، ترمذی، ابو داؤد، احمد)
یعنی جب جماعت کھڑی ہو جائے (یعنی اقامت ہو جائے) پھر کوئی نماز نہیں سوائے نماز فرض کے۔

حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
فلا صلوة اِلَّا الَّتِیْ اقیمت
"اس وقت اور کوئی نماز نہیں ہے سوائے اس نماز کے جس کی تکبیر کہی جائے۔”
(جامع ترمذی)

اسی طرح، ابن حبان میں مروی حدیث میں بھی یہی الفاظ ہیں کہ جب مؤذن تکبیر شروع کرے تو اس وقت صرف فرض نماز پڑھی جائے گی:

حدیث

إذا أخذ المؤذن بالإقامت إلا المکتوبة
(ابن حبان)

اسی حدیث کی مزید وضاحت میں آیا ہے کہ جب اقامت ہو جائے تو نہ فرض کے علاوہ کوئی نماز جائز ہے نہ سنت، بلکہ جماعت میں شریک ہو جانا واجب ہے۔ ایک روایت میں خصوصی طور پر فجر کی سنتوں کے بارے میں نبی کریم ﷺ کا حکم آیا ہے:

حدیث

إذا أقیمت الصلوٰة فلا صلوٰة إلا المکتوبة قیل یا رسول اللّٰہ صلی اللہ علیه وسلم ولا رکعتی الفجر قال ولا رکعتی الفجر
(ابن عدی، سندہ حسن)

یعنی جب جماعت کھڑی ہو جائے تو دو رکعت سنت فجر بھی نہیں پڑھی جائیں گی۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا واقعہ بھی اس حکم کی مزید وضاحت کرتا ہے:

حدیث

قال کنت أصلی وأخذ الموذن فی الإقامة فجذ بنی النبی صلی اللہ علیه وسلم قال اتصلی اربعاً؟
(ابو داؤد طیالسی)

اس واقعے میں نبی کریم ﷺ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو فجر کی سنتیں توڑنے کا حکم دیا۔

اسی طرح طبرانی میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو فجر کی سنتیں پڑھتے دیکھا جب کہ تکبیر ہو رہی تھی، تو آپ ﷺ نے فرمایا:

حدیث

إلا کان ھٰذ ا قبل ھٰذا
(طبرانی)

یعنی اس نماز کا وقت جماعت کھڑی ہونے سے پہلے تھا، جب جماعت ہو جائے تو فرض نماز کے علاوہ کوئی نماز نہیں۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں فجر کی جماعت کے دوران سنتیں پڑھنے پر تعزیر دی جاتی تھی:

حدیث

إنه کان إذا رأی رجلاً یُصلّی وھو یسمع الاقامة ضرب
(بیہقی)

امام احمد بن حنبل اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہما کے نزدیک فجر کی جماعت کھڑی ہو جانے کے بعد سنت فجر پڑھنا منع ہے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مسلک ہے​۔

فقہ حنفی کی کتاب "ہدایہ” اور "فتح القدیر” میں یہ مسئلہ ہے کہ مسجد میں سنت پڑھنی مکروہ ہے اور مسجد سے باہر پڑھنے کی اجازت ہے، بشرطیکہ فرض نماز فوت نہ ہو​۔

دوسرا مسئلہ: فرض کے بعد سنت فجر کی قضاء

اگر کوئی شخص جماعت میں شامل ہونے کی وجہ سے فجر کی سنتیں ادا نہ کر سکے تو کیا وہ فرض کے بعد سنت فجر پڑھ سکتا ہے؟ اس حوالے سے احادیث میں وضاحت موجود ہے کہ اگر سنتیں جماعت کے دوران چھوٹ جائیں تو انہیں فرض کے بعد ادا کرنا جائز ہے۔

حدیث

حضرت قیس بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے انہیں فجر کی فرض نماز کے بعد سنتیں پڑھتے دیکھا اور فرمایا:
«مہلا یا قیس، أصلاتان معا؟»
(ترمذی)

یعنی کیا تم دو نمازیں اکٹھی پڑھ رہے ہو؟ حضرت قیس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ انہوں نے سنتیں نہیں پڑھی تھیں، تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کوئی حرج نہیں، اب انہیں پڑھ لو۔

اسی طرح، ابو داؤد کی روایت میں بھی یہ واقعہ ان الفاظ سے مروی ہے:

حدیث

عن قیس ابن عمرو قال رأی رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم رجلا یصلی بعد صلٰوة رکعتین فقال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم صلٰوة الصبح رکعتان فقال الرجل انی لم أکن صلیت الرکعتین اللتین قبلھما فصلیت ھما الان فسکت رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم
(سنن ابو داؤد)

یعنی نبی کریم ﷺ نے خاموشی اختیار فرمائی، جو اس بات کی دلیل ہے کہ فرض نماز کے بعد سنت فجر کی قضاء جائز ہے۔

حدیث کی تشریح

مرقات شرح مشکوٰۃ میں اس حدیث کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ نبی کریم ﷺ کا سکوت اس بات کی دلیل ہے کہ جس شخص کی سنتیں چھوٹ جائیں، وہ فرض نماز کے بعد انہیں قضاء کر سکتا ہے​۔

خلاصہ

جماعت کے دوران فجر کی سنتیں پڑھنا منع ہے اور فوراً جماعت میں شامل ہونا واجب ہے۔ اگر سنتیں جماعت کی وجہ سے رہ جائیں تو انہیں فرض نماز کے بعد، حتی کہ طلوع آفتاب کے بعد بھی، قضاء کرنا جائز ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے