فجر کی دو اذانوں اور تثویب کے الفاظ کا مسنون طریقہ
ماخوذ: فتاوی علمیہ، جلد1۔ كتاب الاذان۔صفحہ247

سوال:

بعض علماء کے نزدیک فجر کی دو اذانیں ہوتی ہیں:

➊ پہلی اذان صبح صادق سے کچھ دیر قبل دی جاتی ہے۔

➋ دوسری اذان طلوع صبح صادق پر دی جاتی ہے۔

مزید یہ کہ:

◈ پہلی اذان میں "تثویب” یعنی "الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ” کے الفاظ کہے جائیں۔

◈ دونوں اذانوں کے درمیان تقریباً دس منٹ کا وقفہ ہو۔

کیا یہ امور مسنون اور جائز ہیں؟ حقیقی مسلک کیا ہے؟

اس موقف کے علماء میں درج ذیل شخصیات شامل ہیں:

◈ شیخ البانی رحمہ اللہ بحوالہ: تمام المنہ تخریج و تعلیق فقہ السنہ اور الارواء
(صحیح ابی داود 2/415، حدیث 516)
◈ شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی بحوالہ: ہفت روزہ الاعتصام لاہور
(14 اگست 1998ء)
◈ مولانا محمد منیر سیالکوٹی بحوالہ: فقہ الصلوٰۃ
(جلد دوم، ص 152 تا 156)
◈ حافظ عبدالرؤف سندھو بحوالہ: القول المقبول فی تخریج و تعلیق صلوٰۃ الرسول
(طبع 1997ء)
(محمد صدیق سلفی، ایبٹ آباد)

الجواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

فجر کی دو اذانوں کا حکم:

فجر کی دو اذانیں ثابت ہیں:

➊ پہلی اذان:

پہلی اذان طلوع فجر سے پہلے دی جاتی ہے، جسے رات کی اذان کہا جاتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"أَنَّ بِلالا كَانَ يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ”
"بے شک، بلال رات میں اذان دیتے تھے۔”
(صحیح بخاری: 622، صحیح مسلم: 1092)

➋ دوسری اذان:

دوسری اذان طلوع فجر کے بعد ہوتی ہے، اور اس کے بعد اقامت ہوتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
"بَيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلَاةٌ”
"ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے۔”
(صحیح بخاری: 624، صحیح مسلم: 838)

تثویب (الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ) کا حکم:

"الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ” کے الفاظ طلوع فجر کے بعد دی جانے والی پہلی اذان (اذانِ عرفی) میں کہنا ثابت ہیں، اقامت میں نہیں۔

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"إِذَا قالَ المُؤَذِّنُ في أَذَانِ الفَجْرِ: حَيَّ عَلَى الفَلاحِ، فَلْيَقُلْ: الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ”
"سنت یہ ہے کہ جب مؤذن فجر کی اذان میں ‘حَيَّ عَلَى الفَلاحِ’ کہے تو ‘الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ’ کہے۔”
(صحیح ابن خزیمہ: ج 1، ص 202، سنن دارقطنی: ج 1، ص 243، السنن الکبریٰ للبیہقی: ج 1، ص 423)

سیدنا ابو محذورہ رضی اللہ عنہ فجر کی اذان میں "الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ” کہتے تھے۔
(سنن ابی داود: 504، سندہ صحیح)

لیکن طلوع فجر سے پہلے (رات کی اذان) میں یہ الفاظ ثابت نہیں ہیں۔

شیخ البانی رحمہ اللہ کا موقف:

شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس مسئلے میں طلوع فجر سے پہلے دی جانے والی اذان میں بھی
"الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ” کہنے کا جواز بیان کیا ہے، مگر یہ ضعیف ہے۔

شیخ امین اللہ البشاوری حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
"اور بے شک اس مسئلے میں شیخ البانی رحمہ اللہ کا قول ضعیف ہے۔”
(فتاویٰ الدین الخالص، ج 3، ص 225)

شیخ ثناء اللہ مدنی، شیخ محمد منیر قمر سیالکوٹی اور حافظ عبدالرؤف سندھو نے (شاید بغیر تحقیق کے) شیخ البانی رحمہ اللہ کی پیروی کی ہے۔
(ملاحظہ ہو: شہادت، اکتوبر 2000ء)

خلاصہ:

✔ فجر کی دو اذانیں سنت سے ثابت ہیں:

➊ پہلی اذان رات میں (طلوع فجر سے پہلے) دی جاتی ہے۔

➋ دوسری اذان طلوع فجر کے بعد دی جاتی ہے، جس کے بعد اقامت ہوتی ہے۔

"الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ” کے الفاظ صرف طلوع فجر کے بعد دی جانے والی اذان میں ثابت ہیں۔

یہ الفاظ رات کی اذان (پہلی اذان) میں ثابت نہیں ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1