فتنہ انکار حدیث اور عزیز اللہ بوہیو
فاضل مضمون نگار عظیم مبلغ و داعی اور علم دوست ہیں ، جمعیت اہل حدیث سندھ کے نائب ناظم اعلیٰ ہیں اور دفاعِ حق کے جذبے سے سرشار ہیں ، زیر نظر مضمون اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
عزیز اللہ بوہیو نامی شخص نے جب ”انکار حدیث“ فتنے کو ہوا دی تو موصوف نے اس کے اعتراضات کے جوابات دیتے ہوئے بھر پور طریقے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا دفاع کیا جو کئی صد صفحات پر مشتمل اب ایک ضخیم کتاب کی صورت میں منصہ شہود پر آچکی ہے، چونکہ یہ تحریر سندھی زبان میں ہے اور بہت سے لوگ سندھی زبان سے نا آشنا ہیں، لٰہذا ہماری درخواست پر فاضل مولف نے خود اسے اردو قالب میں ڈھال کر اشاعت الحدیث کے صفحات کی زینت بنایا ہے۔
الحمد لله رب العلمين والصلوة والسلام على رسوله الأمين ، أما بعد:
عزیز اللہ بوہیو ”حدیث“ کی شرعی حیثیت پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”میری باتوں سے پریشان ہونے والے دینداروں اور اسلام سے محبت رکھنے والے درد مند مسلمانوں سے میں درخواست کرتا ہوں ، اپیل کرتا ہوں ، التجا کرتا ہوں کہ وہ علماء کرام سے جا کر پوچھیں کہ کیا قرآن حکیم اپنی تعبیر اور تشریح میں دوسروں کا محتاج ہے؟ قرآن کو رب پاک نے تبيَانًا لِكُلّ شَيْءٍ ہر چیز کو کھول کر بیان کرنے والا کہا ہے ، قرآن کا تعارف کراتے ہوئے رب فرماتے ہیں: هُوَ الَّذِي انْزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَبَ مُفَصَّلا [الانعام6: 114] یعنی رب نے آپ کی طرف مفصل کتاب بھیجی ہے ، سورۂ دخان کی آیت: 58 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: فَإِنَّمَا يَشَرْنُهُ بِلِسَانِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ یعنی ہم نے قرآن کو آپ کی زبان میں آسان کر کے نازل کیا ہے شاید کہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ پھر بھی علماء نے قرآن سے آگے نکل کر دین کے اصول بنانے کے لیے فارس کے اماموں کی گھڑی ہوئی حدیثوں کو دین کا اصل قرار دے کر ان کی طرف سے غیر قرآنی باتوں کو دین بنایا ان علماء نے اجماع کو بھی دین کا اصل قرار دیا ہے جس کا ان کے پاس کوئی مستند حوالہ بھی نہیں ہے ۔“ [قرآن مہجور: ص 7 – 8]
جاننا چاہیے کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام اور غیر مخلوق ہے۔ دین اسلام کے بنیادی احکام اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اجمالاً بیان فرمائے ہیں۔ ان احکامات کی مکمل تفصیل اور ان کا عملی نمونہ ، سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا اور عملی طور پر کر کے بھی دکھایا ، جس کو علم کی دنیا میں سنت یا حدیث کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے پیارے پیغبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کا معیار اور اس کی حیثیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ، إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ [النجم: 3-4]
”اور وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتے ، وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے ۔“
إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّهُ ۚ وَلَا تَكُن لِّلْخَائِنِينَ خَصِيمًا [النساء: 105]
”یقینا ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ یہ کتاب نازل فرمائی ہے، تا کہ آپ لوگوں کے درمیان اس چیز کے مطابق فیصلہ کریں جس سے اللہ نے آپ کو شناسا کیا ہے اور آپ خیانت کرنے والوں کے حمایتی نہ بنیں ۔“
قرآن مجید کی مذکورہ آیات مبارکہ سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہوئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دین کے کسی کام یا حکم میں اپنی ذاتی چاہت اور خواہش کا اظہار تک نہیں کرتے بلکہ آپ نے جو کچھ فرمایا اور کیا وہ وحی الٰہی کی تعلیم کے مطابق فرمایا اور کیا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے آپ پر صرف قرآن مجید نازل نہیں کیا بلکہ اس کو آپ کے سینئہ مبارک میں محفوظ کرنے اور اس کا مطلب و مقصد سمجھانے کی ذمہ داری بھی خود لی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ ، فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ ، ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ [القيامة: 17 – 19]
”بلاشبہ اس کا (آپ کے سینہ مبارک میں ) جمع کرنا اور (آپ سے ) اس کا پڑھوا دینا ہمارے ذمے ہے، پھر جب ہم اسے پڑھوا چکیں تو آپ اس کے پڑھنے کا اتباع کریں ، پھر یقیناً اس کی وضاحت ہمارے ذمے ہے ۔ “
وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [النحل: 44]
”اور یہ ذکر (کتاب) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل کیا گیا ہے آپ اسے کھول کر بیان کر دیں ، شاید کہ وہ غور و فکر کریں۔“
بیان کی گئی دونوں آیتوں سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید میں دین کے جتنے بھی احکام اللہ کی طرف سے نازل ہوئے ہیں ان سب کا مطلب، معانی و مفہوم اور عملی نمونہ بھی اللہ تعالیٰ نے جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے سے سمجھایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا سختی کے ساتھ پابند کیا تھا کہ آپ کو جس طرح یہ احکام سمجھائے گئے ہیں ٹھیک اسی طرح آپ اپنی امت کو بھی سمجھائیں۔ ظاہر ہے کہ جو حکم اپنے الفاظ میں سمجھایا جائے گا وہ اصل چیز سے مختلف اور مضمون کے لحاظ سے اصل سے زیادہ بھی ہو گا۔ یہاں لوگوں کو بھی متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ قرآن حکیم کے احکامات کو سمجھنے کے لیے صرف اور صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کریں ۔ وہ لوگ جو صرف قرآن مجید ہی کی بات کرتے ہیں، ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ صاحب قرآن سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے دین کے احکامات کی جو قولی و فعلی تشریح اور توضیح بیان کی تھی اس کو کیا نام دیں گے اور وہ آج ہمارے پاس کس صورت میں موجود ہے؟ پہلی وحی سے لے کر آخری وحی آنے تک آپ نے قرآن مجید کی جو تفسیر اور تفصیل بیان کی تھی وہ کسی بھی صحابی نے یاد نہیں کی؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اتنے بڑے جم غفیر سے وہ تفسیر اور تفصیل نقل کرنے والا کوئی بھی پیدا نہ ہوا؟ اگر یہ بات سچی سمجھی جائے تو قرآن مجید کے اس حکم:
إِنَّا نَحْنُ نَزَلْنَا الذِكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ [الحجر: 9]
”ہم نے اس ذکر (قرآن ) کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ۔ “
کو کیسے سچا سمجھا جائے کہ قرآن تو محفوظ ہے لیکن اس کی تشریح اور توضیح جو صاحب قرآن نے کی تھی وہ مفقود ہے؟ جب اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ اٹھایا ہے تو اس کی تشریح کا ذمہ بھی اُس کے سپرد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کیا۔
بسم اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اَلحَمْدُ لِله سے لے کر والناس تک نہ صرف قرآن مجید محفوظ و مامون ہے بلکہ اس کی وضاحت اور تشریح جو سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی، وہ قولی ، فعلی اور تقریری حدیث کی صورت میں محفوظ ہے اور قیامت تک محفوظ رہے گی۔ ان شاء الله
یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ کسی بھی دور میں کوئی بھی شخص قرآن مجید میں ذکر کیے گئے احکامات ، اصطلاحات اور الفاظ اس وقت تک نہیں سمجھ سکتا جب تک وہ صاحب وحی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع نہ کرے۔ اگر کسی شخص نے قرآن مجید کو لغت ، اپنی عقل اور ذاتی رائے کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی تو گمراہی اس کا مقدر بنے گی ۔ جس دور میں قرآن مجید نازل ہو رہا تھا اور صاحب قرآن سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی موجود تھے ، اس دور میں عربی زبان بولنے ، سمجھنے اور لکھنے والے بھی کبھی قرآن کریم کے احکامات کو سمجھ نہ پاتے تھے۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
خُذُوا الْقُرْآنَ مِنْ أَرْبَعَةٍ: مِنْ عَبْدِ اللهِ بنِ مَسْعُودٍ فَبَدَاً بِهِ
[صحيح البخاري: 3808]
قرآن مجید چار (آدمیوں) سے سیکھو: عبد اللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ ) سے ، پھر آپ نے ان کے نام سے ابتدا کی۔“
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کا بڑا اعلم وفہم عطا کیا تھا۔ اس متبحر العلم شخص کی مبارک زندگی کا واقعہ پڑھتے چلیں ۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
لَمَّا نَزَلَت: الَّذِينَ آمَنُوا وَ لَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ يظلم [الأنعام: 82] شَقَّ ذَلِكَ عَلَى أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ، وَقَالُوا: أَيُّنا لا يَظْلِمُ نَفْسَهُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: لَيْسَ هُوَ كَمَا تَظُنُّونَ، إِنَّمَا هُوَ كَمَا قَالَ لقَمَانُ لِابْنِهِ: يُبْنَى لَا تُشْرِكْ بِاللهِ ، إِنَّ الشَّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [لقمان: 13]
جب یہ آیت نازل ہوئی کہ ”جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ مخلوط نہیں کرتے“ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم پر گراں گزری اور انھوں نے کہا: ہم میں سے کون ایسا شخص ہے جس نے ظلم نہ کیا ہو؟ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس سے وہ ظلم مراد نہیں جو تم سمجھ رہے ہو بلکہ اس سے مراد شرک ہے ، جیسا کہ لقمان (علیہ السلام ) نے اپنے بیٹے سے کہا تھا: ”اے میرے بیٹے ! اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹھہرانا ، یقیناً شرک ظلم عظیم ہے۔“
[صحيح مسلم: 124 ،327]
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام اور اس کی صفت ہے اس کی ایک ایک آیت اور ہر ہر لفظ کا معنی و مطلب سمجھنے کے لیے صاحب قرآن سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرف رجوع کیا جائے گا، بلکہ کسی با سند صحیح حدیث میں موجود الفاظ کے معنی اور اس کا مفہوم جاننے کے لیے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرورت ہوتی ہے ۔ امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث مبارکہ جو ”حدیث جبریل“ کے نام سے مشہور ہے ، اس میں یہ الفاظ ہیں:
فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِحْسَانِ ، قَالَ: أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَّمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ
پھر بتلاؤ احسان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”احسان یہ ہے کہ اللہ کی عبادت اس طرح (خشوع و خضوع) سے کر گویا تو اسے دیکھ رہا ہے، اگر یہ نہیں تو (یہ یقین کر لے کہ) وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔“ [صحيح مسلم: 8 ،93]
ذکر کرده دو مثالیں اُس دور کی بیان کی ہیں جس دور میں سر سید احمد خان ، مولوی عبداللہ چکڑالوی ، مولوی چراغ علی ، مولوی اسلم جیرا جپوری ، چوہدری غلام احمد پرویز ، مولوی احمد دین امرتسری ، مولوی محبّ الحق عظیم آبادی ، تمنا عمادی ، قمر دین قمر ، نیاز فتح پوری ، سید مقبول احمد ، علامہ مشرقی ، حشمت علی لاہوری ، مستری محمد رمضان گجراتی ، سید رفیع الدین ملتانی ، شبلی نعمانی ، حمید الدین فراہی ، امین احسن اصلاحی ، ابو الاعلیٰ مودودی ، محمود احمد عباسی ، جاوید احمد غامدی اور عزیز اللہ بوہیو وغیرہ کے ارواح ، عالم ارواح میں تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عظیم جماعت میں بڑے بڑے عالم اور فقیہ شخص موجود تھے، پھر بھی وہ وحی الٰہی کی مراد سمجھ نہ سکے۔
وہ پریشان ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی مشکل کا ذکر کیا۔ آپ نے وحی الٰہی کی روشنی میں انہیں ایسا آسان جواب دیا کہ وہ مطمئن ہو گئے اور بعد میں آنے والوں کے لیے ایک پیغام دے دیا کہ زندگی کے جس موڑ پر کسی علمی الجھن کا شکار ہو جاؤ تو مایوس مت ہونا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی طرف رجوع کر لینا ، آپ کی علمی مشکل دور ہو جائے گی۔ اس واقعہ سے ثابت ہوا کہ بڑے سے بڑے عالم کو بھی قرآن مجید سمجھنے سمجھانے اور اس پر عمل کرنے میں دقت اور مشکل پیش آ سکتی ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے واقعہ میں یہ نصیحت موجود ہے کہ کسی بھی دور کے کسی شخص کو قرآن حکیم کے کسی مقام کو سمجھنے میں مشکل پیش آئے تو وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا منہج اختیار کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی طرف رجوع کرے نہ کہ اپنی ذاتی رائے یا سوچ پر عمل پیرا ہو۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا بھی یہی حکم ہے:
فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللهِ وَالرَّسُولِ [النساء: 59]
”پھر اگر تم کسی چیز میں اختلاف کرو تو اُسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ .“
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّى قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمُ مَا إِنِ اعْتَصَمْتُم بِهِ فَلَنْ تَضِلُّوا أَبَدًا كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ نَبِيه صلى الله عليه وسلم ……..
”اے لوگو! میں تمھارے درمیان وہ چیز چھوڑے جا رہا ہوں ، اگر تم اس کو مضبوطی سے تھامے رہو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے (وہ ہے: ) اللہ کی کتاب (قرآن حکیم ) اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت (حدیث)۔“
[المستدرك على الصحيحين للحاكم: 318 ، وسنده حسن لذاته ، موطأ إمام مالك: 1708 ، سنن الدارقطني: 4559]
جب سے انبیاء ورسل علیہم السلام کا مبارک سلسلہ شروع ہوا تب سے لے کر خاتم النبین سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے بھی نبی و رسول مبعوث ہوئے ان سب کی یہی ذمہ داری تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وحی کی تشریح اور وضاحت کریں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا كَانَ لِبَشَرِ أَنْ تُكَلِمَهُ اللهُ إِلَّا وَحْيا أَوْ مِنْ وَرَائِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحَى بِاِذْنِهِ مَا يَشَاءُ إِنَّهُ عَلَى حَكِيمٌ [الشوري: 51]
”اور یہ کسی بندے کے لائق نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر وحی کے ذریعے سے یا پردے کے پیچھے سے یا کسی فرشتے کو بھیج کر اور وہ اللہ کے حکم سے جو اللہ چاہے وحی کرتا ہے، بلاشبہ وہ بلند مرتبہ حکمت والا ہے۔“
دیگر انبیاء علیہم السلام کی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قر آن مجید کے ساتھ اس کی تشریح کرنے والی چیز بھی اتاری تھی ، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاَنْزَلَ اللهُ عَلَيْكَ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ [النساء: 113]
”اور اللہ نے تجھ پر کتاب و حکمت اتاری ہے۔“
وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَى فِي بُيُوتِكُنَ مِنْ أَيْتِ اللهِ وَالْحِكْمَةِ [الاحزاب: 34]
”اور تمھارے گھروں میں جو اللہ کی آیات اور حکمت (سنت کی باتیں) پڑھی جاتی ہیں وہ یاد کرو ۔ “
هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَللٍ مُّبِينِ [الجمعة: 2]
”وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انھیں اس (قرآن ) کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے۔ یقیناً اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں تھے ۔“
مذکورہ بالا آیات مبارکہ میں کتاب اللہ ، یعنی قرآن مجید کے ساتھ حكمة کا ذکر کیا گیا ہے حکمت سے کیا مراد ہے؟ اس حوالے سے سلف و خلف کے بعض اقوال پیش کیے جاتے ہیں۔ مشہور محدث امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فَذَكَرَ اللهُ الْكِتَابَ ، وَهُوَ الْقُرْآنُ وَ ذَكَرَ الْحِكْمَةَ ، فَسَمِعْتُ مَنْ أَرْضَى مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ بِالْقُرْآن يَقُولُ: الْحِكْمَةُ سُنَّةٌ رَسُولِ اللَّهِ….
”اللہ (تعالی) نے اس آیت میں جس کتاب کا ذکر کیا ہے وہ قرآن ہے اور جس حكمة کا ذکر کیا ہے میں نے (اس سے متعلق ) قرآن کے ان علم رکھنے والوں سے سنا ، جنھیں میں (ان کے علم و عمل کی وجہ سے ) پسند کرتا ہوں کہ حكمة سے مراد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
[الرسالة: فقره: 252 ، دار الكتب العلمية ، بيروت ، لبنان: 2009]
مشہور مفسر حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ: يَعْنِى الْقُرْآنُ ، وَالْحِكْمَةَ: يَعْنِي السُّنَّةُ
[تفسير القرآن العظيم ، الطبعة الاولى: 1414هـ 1994م ، طبع كويت: 253/1]
علامہ محمد بن علی الشوکانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وَالْحِكْمَةُ: السُّنَّة النَّبِوِي مَعَ أَنْزَلَ اللَّهُ ذَلِكَ عَلَيْكَ
[القرآن الكريم و بالهامش زبدة التفسير من فتح القدير ، الطبعة الخامسة: 1414هـ 1994م ، طبع كويت: ص 122]
شیخ عبد الرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وَالْحِكْمَةُ إِمَّا السُّنَّةَ الَّتِي قَدْ قَالَ فِيهَا بَعْضُ السَّلَفِ: إِنَّ السُّنَّةَ تنزل عَلَيْهِ كَمَا يَنْزِلُ الْقُرْآنَ
[تفسير السعدي ، مؤسسة الرسالة ناشرون ، دمشق ، سوريا ، الطبعة الثانية: 1434هـ 2013م ، ص 199]
جناب اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”قرآن و حدیث کے حکم پر چلنا اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ”میں تم لوگوں میں ایسی چیز چھوڑے جاتا ہوں کہ اگر تم اس کو تھامے رہو گے تو کبھی نہ بھٹکو گے ایک تو اللہ کی کتاب یعنی قرآن اور دوسری نبی کی سنت یعنی حدیث ۔“
[بهشتي زيور ، ساتواں حصه ، ناشر ملك سراج الدين اينڈ سنز تاجران كتب ، كشميري بازار ، لاهور ص 27]
معزز قارئین کی خدمت میں سلف و خلف علماء کے کچھ اقوال ذکر کیے گئے ہیں جن سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے رسول سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قر آن مجید کے ساتھ اس جیسی اور چیز بھی نازل کی تھی جس کو حکمت ، سنت اور حدیث کہا جاتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور اس کی اہمیت و ضرورت حدیث ہی سے معلوم ہو گی جس دور میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبی بن کر آئے تھے وہ جاہلیت ، کفر و شرک کا دور تھا۔ پوری انسانیت گمراہی میں سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کے تلوے تک پھنسی ہوئی تھی۔ دیکھئے [سورۂ جمعه ، آيت: 2] سیدنا عیسٰی علیہ السلام کے آسمان پر جانے سے لے کر سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونے والے زمانے تک تقریباً چھ صدیوں کا عرصہ گذر چکا تھا۔ آپ کی دعوت اور قرآن و حدیث کی پیروی کے نتیجے میں جہالت ، گمراہی اور بد عملی آہستہ آہستہ ختم ہونے لگی۔ ایسا وقت بھی آیا کہ قرآن وحدیث کا اتباع کرنے والی جماعت سے اللہ تعالیٰ نے راضی ہو کر یہ وحی اتاری:
رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [المجادلة: 22]
”اللہ ان سے راضی ہے اور یہ اللہ سے خوش ہیں ۔“
عزیز اللہ بوہیو نے احادیث مبارکہ کے عظیم ذخیرے کو فارس کے اماموں کا گھڑا ہوا قرار دیا ہے۔ [قرآن مہجور: ص 8]
ہم عزیز اللہ بوہیو اور ان کے ہمنواؤں سے پوچھتے ہیں کہ آپ ہر بات کی دلیل قرآن مجید سے ہی اخذ کرنے کے قائل ہیں ، تو سرِ راہ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ بات آپ کو قرآن مجید کی کون سی سورت اور اس کی کون سی آیت سے معلوم ہوئی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید کی ایک سو چودہ سورتوں میں یہ بات کہیں بھی موجود نہیں ، لٰہذا ایک بڑا جھوٹ اور محض بے بنیاد الزام ہی ہے۔ اس بہتان کے برعکس جب ہم قرآن حکیم سے پوچھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے خود قرآن حکیم میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کو ”حدیث“ کے مبارک لفظ سے بیان کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا [التحريم: 3]
”اور یاد کر جب نبی نے اپنی بعض عورتوں سے ایک پوشیدہ بات کہی ۔“
اللہ کے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی گفتگو کو حدیث کے نام سے موسوم کیا ہے ۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! قیامت کے دن آپ کی شفاعت کا سب سے زیادہ مستحق کون ہو گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَقَد ظَنَنْتُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ أَنْ لَا يَسْأَلُنِى عَنْ هَذَا الحَدِيثِ أَحَدٌ أَوَّلُ مِنْكَ لِمَا رَأَيْتُ مِنْ حِرْصِكَ عَلَى الحَدِيثِ
”اے ابو ہریرہ! مجھے یقین تھا کہ اس حدیث کے بارے میں مجھ سے تم سے پہلے کوئی نہیں پوچھے گا، کیونکہ میں نے حدیث کے متعلق تمھاری حرص دیکھ لی تھی ۔“ [صحيح البخاري: 99]
اللہ تعالیٰ اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کو حدیث کہے اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کلام کو حدیث کے نام سے موسوم کریں اور عزیز اللہ بوہیو اور ان کی فکر کے پیروکار کہیں کہ ”حدیث فارس کے اماموں نے گھڑی ہوئی ہے.“
جس مسلمان کے سینے میں دل ہے اور اس دل میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور آپ کی حدیث و سنت سے ذرہ بھر الفت موجود ہے وہ بوہیو کی عبارت میں جو تعفن اور زہر ہے اسے ضرور محسوس کرے گا۔ ایسے لوگوں کی زبان اور ان کے قلم میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔ قرآن مجید نازل ہونے والے زمانے میں یہودی ، عیسائی اور مشرکین یہ ماننے کے لیے تیار نہ تھے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے۔ انھوں نے قرآن حکیم کو گزرے ہوئے (سابقہ ) لوگوں کے قصے ، کھلا جادو ، کاہنوں کی گفتگو ، شاعروں کی شاعری اور انسانوں کا کلام قرار دیا۔ ان بے بنیاد الزامات کے برعکس قرآن مجید نے کلام اللہ ہونے کا اعزاز برقرار رکھا۔ ان یہودیوں ، عیسائیوں اور مشرکوں نے تھک کر ہار مان لی کہ قرآن کا ہم مقابلہ نہیں کر سکتے ۔ پھر انھوں نے اس تحریک کو ختم کرنے کے بجائے اس کا رُخ موڑ لیا۔ انھوں نے ایک خفیہ سازش تیار کر کے نام نہاد مسلمانوں اور پیٹ کے پجاریوں کے سپرد کر دی کہ یہ پروپیگنڈا کریں کہ حدیث وحی الٰہی نہیں ہے۔ پھر انہیں گنے چنے ایسے لوگ بھی مل گئے جنہوں نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی ، اس قربانی اور ضمیر کے سودے کے نتیجے میں ان کو دانشور اور فلاسفر کی سندیں بھی ملیں اور ذاتی ضروریات کے لیے وافر مقدار میں مالی فائدے بھی۔ وہ کام جو دین کے دشمن سرانجام نہ دے سکے وہ یہ نام نہاد مسلمان کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ نامور عالم دین مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے ایسے لوگوں کا تفصیلی رد کیا ہے۔
معزز قارئین کی خدمت میں اسی میں سے کچھ حقائق پیش کئے جاتے ہیں ، موصوف لکھتے ہیں:
”آئیے سب سے پہلے یہی دیکھ لیں کہ ان مجموعہ ہائے احادیث جو جمع کرنے والے ایرانی ہیں بھی یا نہیں؟ سن وار ترتیب کے لحاظ سے دور اول کے رواۃ حدیث میں سر فہرست ابن شہاب زہری ، سعید بن المسیب ، عروہ بن زبیر اور عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے اسمائے گرامی آتے ہیں، یہ تمام ، سب سے معزز عربی خاندان قریش سے تعلق رکھتے ہیں اور آخر الذکر تو اسلامی تاریخ کے پانچویں خلیفہ راشد کی حیثیت سے معلوم و معروف ہیں۔ اسی طرح دور اول کے مدوّنین حدیث میں سر فہرست امام مالک رحمہ اللہ ہیں۔ پھر امام شافعی رحمہ اللہ ہیں اور ان کے بعد امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ان تینوں ائمہ کے مجموعہ ہائے احادیث پوری امت میں متد اول او مقبول ہیں۔ یہ تینوں خالص عربی النسل ہیں۔ امام مالک رحمہ اللہ قبیلہ ذی اصبح سے ، امام شافعی رحمہ اللہ ، قریش کی سب سے معزز شاخ بنو ہاشم سے اور امام احمد رحمہ اللہ ، قبیلہ شیبان سے۔ یہ بنو شیبان وہی ہیں جن کی شمشیر خارا شگاف نے خورشید اسلام کے طلوع ہونے سے پہلے ہی خسرو پرویز کی ایرانی فوج کو ”ذی فار“ کی جنگ میں عبرتناک شکست دی تھی، اور جنھوں نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور میں ایرانی سازش کے تحت برپا کئے گئے ہنگامہ ارتداد و کے دوران میں نہ صرف ثابت قدمی کا ثبوت دیا بلکہ مشرقی عرب سے اس فتنے کو کچلنے میں فیصلہ کن کردار ادا کر کے عربی اسلامی خلافت کو نمایاں استحکام عطا کیا تھا، پھر جس کے شہباز مثنیٰ بن حارثہ شیبانی کی شمشیر خارا شگاف نے کاروان حجاز کے لیے فتح ایران کا دروازہ کھول دیا تھا۔
آخر آپ بتلا سکتے ہیں کہ یہ کیسی ایرانی سازش تھی جس کی باگ دوڑ عربوں کے ہاتھ میں تھی؟ جس کا سر پرست عربی خلیفہ تھا اور جس کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے ایسی نمایاں ترین عربی شخصیتوں نے اپنی زندگیاں صرف کر دیں، جن میں سے بعض افراد کے قبیلوں کی ایران دشمنی چار دانگ عالم میں معروف تھی؟ کیا کوئی انسان جس کا دماغی توازن صحیح ہو، ایک لمحہ کے لیے بھی ایسے بد بودار افسانے کو ماننے کے لیے تیار ہو سکتا؟ حقیقت یہ ہے کہ آج حدیث کی جو کتابیں امت میں رائج مقبول اور متداول ہیں ، چند ایک کے سواء سب کے مصنفین (مؤلفین) عرب تھے۔ ہم ذیل میں اس طرح کے عرب محدثین کی فہرست دے رہے ہیں تا کہ حقیقت نکھر کر سامنے آجائے۔
عزیز اللہ بوہیو نے صحيح بخاري ، صحيح مسلم ، سنن الترمذي ، سنن أبى داود ، سنن النسائي ، سنن ابن ماجه ، مسند الإمام أحمد بن حنبل ، صحيح ابن خزيمة ، صحيح ابن حبان ، السنن الكبرىٰ للبيهقي ، السنن الكبرىٰ للنسائي ، سنن الدارقطني ، المستدرك للحاكم ، سنن الدارمي ، مؤطا إمام مالك ، مسند أبى عوانة ، المعجم الكبير ، المعجم الصغير ، المعجم الاوسط للطبراني ، مجمع الزوائد ، مصنف ابن أبى شيبة ، مصنف عبد الرزاق ، مسند بزار ، مسند أبى يعلٰى الموصلي ، شرح مشكل الآثار للطحاوي اور الأحاديث المختارة للضياء المقدسي وغيره میں موجود صیح احادیث مبارکہ کو ”غیر قرآنی باتیں اور فارس کے اماموں کی سازش“ کہا ہے۔ اس نے اپنی جملہ تصانیف میں جگہ جگہ تدبر قرآن ، فہم قرآن اور فلسفۂ قرآن کی رٹ لگائی ہے۔ ہم معزز قارئین کی خدمت میں اس کی تصنیف [قرآن مهجور] میں سے چند اقتباس پیش کرتے ہیں تا کہ اس مفکر کی ”قرآن فہمی“ سے آشنا ہو سکیں ، چنانچہ آنجناب لکھتے ہیں:
قارئین کو ادب و عاجزی سے عرض کرتا ہوں کہ وہ بنیادی طور پر مستقبل اور آئندہ کے لیے، رہنمائی کے واسطہ اپنی نظر قرآن حکیم پر رکھیں ، ہمارے شاندار ماضی کے آثار کیسے مسمار کئے گئے ہیں ، فارس کے تاریخ نویسوں نے ہمیں اُلٹ پلٹ کر کے بری طرح بدنام کیا ہے ، مؤرخین اور محدثین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بیچ میں اختلافات اور جھگڑوں کے متعلق ہزاروں کی تعداد میں جھوٹی حدیثیں بنائی ہیں ان انکشافات کی تائید میں بھی خود ایران کے دانشوروں کی؟ پیش کروں ، لیکن بیچ میں عرض کرتا ہوں کہ میں سُنی ہوں نہ شیعہ اور نہ ہی کسی دوسرے فرقہ کا ، خدا مجھے قرآن والا مسلمان کر کے زندہ رکھے اور موت دے، اور اس بیسویں صدی کا نامور ایرانی مؤرخ حسین کاظم زادہ صاحب اپنی کتاب ”روح ایران در ادوار تاریخ“ میں لکھتا ہے کہ روم کے بڑے پادری کارڈینل تھامس ملین گیارہویں صدی عیسوی میں ان کے بارے میں لکھا ہے کہ ان سازشیوں نے سمرقند ، کوفہ اور مدینہ میں مواصلات اور کمیونیکیشن کے لیے کبوتر پال رکھے تھے جن سے خطوط بھیجنے اور لانے کا کام لیتے تھے۔“ [ص 13-12]
”میں دو کتابوں کا قدرے تفصیلی تعارف کراؤں گا باقی دوسروں کے صرف نام گنتی کرواؤں گا۔ پہلی کتاب تو ڈائری ہے اس شخص کی جو مشہور تو کربلا کے قصہ کی وجہ سے ہے لیکن اس کے برعکس اصل میں وہ بنوامیہ کے خلیفہ سلیمان بن عبد الملک اور عمر بن عبد العزیز کے زمانہ میں اسپین کا گورنر تھا حُر بن عبد الرحمٰن نے اپنی ڈائری لکھی ہے جو کہ عربی زبان میں ہے وہ ڈائری اندازاََ دو سو سال بعد میں ایک ہسپانوی افسر ”سیمون اشبیلیہ“ کو ہاتھ لگی ، جس نے اس ٹوٹی پھوٹی اور خستہ حال ڈائری کے بچے کچھے حصوں کا ہسپانوی زبان میں ترجمہ کیا۔ اس ترجمہ والی کتاب سے ایک انگریز ”دینس منٹگمری“ نے 1910ء میں لکھا ہے که
”تذکرہ حُر بن عبد الرحمٰن“ کے نام سے لکھی ہوئی یہ ڈائری اندازاََ تین سو صفحات پر مشتمل ہے۔“ [ص 16-15]
”باقاعدہ حقیقتیں پڑھنے کے لیے ہم تاریخی ریکارڈ کے دوسرے طرف کو پڑھنے کے لیے جن کتابوں کے پڑھنے کی سفارش کرنا چاہتے ہیں وہ کچھ یہ ہیں ، حجتہ اللہ علی موسوی کی کتاب ”میزان الفارس“ اندلس کے گورنر حُر بن عبد الرحمٰن کی ذاتی ڈائری ”تذکرہ حر بن عبد الرحمٰن“ ، امام زہری کو سمجھنے کے لیے نیاز احمد کی کتاب ” روایت افک“ اور علامہ تمنا عمادی کی سب کتابیں، ڈاکٹر طٰہٰ حسین کی کتاب ” فتنة الكبرى“ ، یا قوت حموی کی کتاب ” عجائب التاريخ“ ، علامہ حبیب الرحمٰن کاندھلوی کی کتاب ”مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت“ ، ڈاکٹر شبیر احمد کی کتاب ”اسلام کے مجرم اور کربلا کی حقیقت۔“ [ص18]
محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے سورہ نساء کی مذکورہ [آيت: 115] کی روشنی میں اجماع امت کے حجت ہونے کے حوالہ سے متعدد اہل علم کے اقوال نقل کئے ہیں جنہیں ہم قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں:
➊ ابو اسحاق ابراہیم بن موسیٰ بن محمد الشاطبی نے لکھا ہے:
ثُمَّ إِنَّ عَامَّةَ الْعُلَمَاءِ اسْتَدَلُّوا بِهَا عَلى كَونِ الْإِجْمَاعِ وَ أَنَّ مُخَالِفَهُ عَاصِ وَ عَلَى أَنَّ الْاِبْتِدَاعَ فِي الدِّينِ مَنْمُومٌ
پھر عام علماء نے اس آیت سے استدلال کیا کہ اجماع حجت ہے اور اس کا مخالف گناہ گار ہے اور یہ استدلال بھی کیا ہے کہ دین میں بدعت نکالنا مذموم ہے۔
[الموافقات: 38/4 ، الفصل الرابع فى العموم و الخصوص: المسألة الثالثه / تحقيق مشهور حسن]
➋ برہان الدین ابراہیم بن عمر البقاعی نے اس آیت کی تشریح و تفسیر میں لکھا:
وَهَذِهِ الآيَةُ دَالَّةٌ عَلَى أَنَّ الإِجْمَاعَ حُجَّةٌ
اور یہ آیت اس کی دلیل ہے کہ اجماع حجت ہے۔
[نظم الدرر فى تناسب الآيات والسورج: 2 ، ص 318]
➌ حنفی فقیہ ابو اللیث نصر بن محمد بن ابراہیم السمر قندی [متوفي 375ه] نے آیت مذکورہ کی تفسیر میں لکھا ہے:
وَ فِي الآيَةِ دَلِيلٌ: أَنَّ الْإِجْمَاعَ حُجَّةٌ لأَنَّ مَنْ خَالَفَ الْإِجْمَاعَ فَقَدْ خَالَفَ سَبِيْلَ الْمُؤْمِنِينَ
اور آیت میں (اس پر ) دلیل ہے کہ اجماع حجت ہے ، کیونکہ جس نے اجماع کی مخالفت کی تو اس نے سبیل المومنین کی مخالفت کی۔
[تفسير سمر قندي / بحر العلوم: 387/1 – 388]
➍ قاضی عبد اللہ بن عمر البیضاوی نے اس آیت کی تشریح میں کہا:
وَالآيَةُ تَدُلُّ عَلى حُرْمَةِ مُخَالِفَةِ الإِجْمَاع
اور آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ اجماع کی مخالفت حرام ہے۔
[ انوار التنزيل و اسرار التنزيل / تفسير بيضاوي: 243/1 ، مقالات: 77/5 – 76]
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ آنَابَ إِلَى [ لقمان: 15]
” اور پیروی کر اس کے راستے کی ، جس نے میری طرف رجوع کیا ہے۔“
مشہور مفسر حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
يَعْنِي الْمُؤْمِنِين
یعنی تمام مومنین کے راستے کا اتباع کر۔
[ تفسير القرآن العظيم: 587/3]
اس آیت مبارکہ میں بھی اجماع امت کے حجت ہونے کی دلیل ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَا يَجْمَعُ اللَّهُ أُمَّتِي عَلَى ضَلَالَةٍ أَبَدًا وَيَدُ اللَّهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ
” اللہ میری امت کو گمراہی پر کبھی جمع نہیں کرے گا اور اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے ۔“
[المستدرك للحاكم: 399 ، وسنده صحيح]
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ثَلَاثٌ لَا يُغِلُّ عَلَيْهِنَّ قَلْبُ مُسْلِمٍ: إِخْلَاصُ العَمَلِ لِلَّهِ، وَمُنَاصَحَةُ أَئِمَّةِ المُسْلِمِينَ ، وَلْزُومُ جَمَاعَتِهِمْ ، فَإِنَّ الدَّعْوَةَ تُحِيطُ مِنْ وَرَائِهِمْ
”تین چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں مسلمان کا دل دھوکے کا شکار نہیں ہوتا (یعنی مسلمان کے دل میں یہ تین خصوصیات موجود ہوں ) عمل کا خالص ہونا اور مسلمان حکمرانوں کی خیر خواہی اور مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ رہنا ، کیونکہ دعا ان کے پیچھے افراد کو بھی گھیرے ہوئے ہوتی ہے۔“
[سنن الترمذي: 2658 ، وسنده صحيح ، سنن ابن ماجه: 230 ، مسند حميدي: 89 ، شرح السنة للبغوي: 112 ، مسند أحمد: 21482]
امام شافعی رحمہ اللہ نے اس قسم کی احادیث کے بارے میں فرمایا:
وَأَمْرُ رَسُولِ اللَّهِ بِلُزُومِ جَمَاعَةِ الْمُسْلِمِينَ مِمَّا يُحْتَجَّ بِهِ فِي أَنَّ إِجْمَاعَ الْمُسْلِمِينَ . إِنْ شَاءَ اللهُ لَازِم
اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا مسلمانوں کی جماعت کو لازم کے پکڑنے کا حکم ، ان دلائل میں سے ہے کہ ان شاء اللہ مسلمانوں کا (کسی بات پر) اجماع لازمی (دلیل) ہے۔ [الرسالة ، دار الكتب العلمية ، بيروت ، فقرة: 1105 ، ص 361]
——————
فتنہ انکار حدیث اور عزیز اللہ بوہیو (قسط: 5)
ہر دور میں شریعت کے احکامات وقتاً فوقتاً بدلتے رہے۔ دین میں بھی یہ سلسلہ چلتا رہا۔ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں ایسے کئی واقعات مذکور ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
➊ وَلَا تَنْكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُمْ مِّنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ [النساء: 22] ”اور ان عورتوں سے نکاح مت کرو ، جن سے تمہارے باپ نکاح کر چکے ہوں مگر جو پہلے گزر چکا ہے۔“
➋ نیز ارشاد ہے: وَاَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ [النساء: 23] ”اور یہ کہ تم دو بہنوں کو جمع کرو (یہ بھی حرام ہے) مگر جو پہلے گزر چکا ۔“
➌ اسلام کے شروع والے زمانے میں ایک روزے دار مسلمان افطاری کے وقت افطار کرنے سے پہلے سو جاتا تو پھر وہ نہ کھانا تناول کر سکتا تھا اور نہ بیوی سے ہمبستری اس کے لیے حلال تھی ، بعد ازاں ان دونوں حکموں میں نرمی کی گئی۔ [البقرة: 187]
[ملاحظه هو: صحيح البخاري: 1915 ، سنن الترمذي: 2968 ، سنن أبى داود: 2314 ، سنن النسائي: 2170]
➍ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:
قَدِمَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ ، وَهُمْ يَأْبُرُونَ النَّخْلَ ، يَقُولُونَ يُلَقَّحُونَ النَّخْلَ ، فَقَالَ: مَا تَصْنَعُونَ؟ قَالُوا: كُنَّا نَصْنَعُهُ ، قَالَ: لَعَلَّكُمْ لَوْ لَمْ تَفْعَلُوا كَانَ خَيْرًا فَتَرَكُوهُ ، فَنَفَضَتْ أَوْ فَنَقَصَتْ، قَالَ فَذَكَرُوا ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ: إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، إِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَيْءٍ مِنْ دِينِكُمْ فَخُذُوا بِهِ ، وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَيْءٍ مِنْ رَأْبِي ، فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو (وہاں کے ) لوگ کھجور (کے درخت ) میں قلم لگاتے تھے وہ کہا کرتے تھے کہ وہ گابھہ لگاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”تم کیا کرتے ہو؟“ انھوں نے کہا: ہم ایسا کرتے چلے آئے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”اگر تم یہ کام نہ کرو تو شاید بہتر ہو گا ۔“ پھر انھوں نے (گابھ لگانا ) چھوڑ دیا۔ چنانچہ (کھجور کی پیداوار ) کم ہو گئی۔ (راوی نے ) کہا: پھر اس بات کا تذکرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا تب آپ نے فرمایا: ”میں بھی بشر یعنی انسان ہوں۔ جب میں تمہیں دین کی کوئی بات بتلاؤں تو تم اسے مضبوطی سے تھام لو اور جب میں کوئی چیز اپنی (ذاتی ) رائے سے کہوں تو آخر میں بشر ہی ہوں۔“
[صحيح مسلم: 2362 ، رقم المسلسل: 6167]
➎ بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ، فَزُورُوهَا ، وَنَهَيْتُكُمْ عَنْ لُحُومِ الْأَضَاحِي فَوْقَ ثَلَاثٍ، فَأَمْسِكُوا مَا بَدَا لَكُمْ، وَنَهَيْتُكُمْ عَنِ النَّبِيدِ إِلَّا فِي سِقَاءٍ، فَاشْرَبُوا فِي الاسْقِيَةِ كُلَّهَا ، وَلَا تَشْرَبُوا مُسْكِرًا
”میں نے تمہیں قبروں کی زیارت کرنے سے منع کیا تھا، پس (اب عبرت اور میت کے لیے دعائے مغفرت کرتے ) زیارت کے لیے جاؤ اور میں نے تمہیں منع کیا تھا کہ قربانی کے گوشت کو تین دن سے زیادہ ذخیرہ نہ کرو اب جب تک چاہو کر سکتے ہو اور میں تمہیں مشکیزے کے علاوہ نبیذ بنانے سے روکتا تھا اب پینے کے جس برتن میں چاہو بنا سکتے ہو مگر نشہ آور چیز نہ ہو ۔ “
[صحيح مسلم: 977 ، رقم المسلسل: 2260]
➏ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
كُنَّا نُسَلِّمُ فِي الصَّلَاةِ وَنَأْمُرُ بِحَاجَتِنَا ، فَقَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ السَّلَامَ ، فَأَخَذَنِي مَا قَدُمَ وَمَا حَدُثَ ، فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ يُحْدِثُ مِنْ أَمْرِهِ مَا يَشَاءُ، وَإِنَّ اللَّهَ جَلَّ وَعَزَّ قَدْ أَحْدَتَ مِنْ أَمْرِهِ أَنْ لَا تَكَلَّمُوا فِي الصَّلَاةِ فَرَدَّ عَلَيَّ السَّلَامَ
ہم نماز میں سلام کہا کرتے تھے اور اپنی ضرورت کی بات بھی لوگوں سے کر لیتے تھے ، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، جب کہ آپ نماز پڑھ رہے تھے۔ میں نے آپ کو سلام کیا، لیکن آپ نے مجھے سلام کا جواب نہیں دیا۔ اس سے مجھے بہت غم لاحق ہوا اور اگلے پچھلے اندیشوں نے آ لیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مکمل کر لی تو فرمایا: ”اللہ عز وجل اپنے احکام میں جو چاہتا ہے تبدیلی کرتا ہے۔ اس نے اب یہ حکم دیا ہے کہ نماز کے دوران میں بات چیت نہ کیا کرو، پھر آپ نے میرے سلام کا جواب دیا۔“
[سنن أبى داود: 924 ، سنن النسائي: 1222 و سنده حسن]
➐ سیدنا بسرہ بن معبد الجہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي قَدْ كُنْتُ أَذِنْتُ لَكُمْ فِي الاسْتِمْتَاعِ مِنَ النِّسَاءِ، وَإِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَ ذَلِكَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ
”اے لوگو! میں نے تمہیں عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی تھی ، بلا شبہ اب اللہ تعالیٰ نے اسے قیامت تک حرام قرار دیا ہے۔“ [صحيح مسلم: 1406 ، رقم المسلسل: 3422]
➑ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے:
نَهَى رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم عَنْ أَكْلِ الْحِمَارِ الْأَهْلِيِّ يَوْمَ خَيْبَرَ، وَكَانَ النَّاسُ احْتَاجُوا إِلَيْهَا
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن پالتوں (گھریلو) گدھے کا گوشت کھانے سے منع کر دیا، حالانکہ لوگوں کو (سخت بھوک کیوجہ سے ) حاجت تھی ۔“
[صحيح مسلم: 561 ، رقم المسلسل: 5009]
بیان کردہ دلائل سے معلوم ہوا کہ دین کے سارے احکام آسمان سے وحی کی صورت میں نازل ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے نازل کردہ احکامات میں کہیں کوئی تبدیلی کرنی چاہی تو وحی کے ذریعے سے کر دی۔ وحی نازل ہونے والے مبارک زمانے میں کسی حکم کی تبدیلی یا منسوخی پر نہ صاحب وحی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتراض کیا اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عظیم جماعت نے اس تبدیلی کو ماننے سے انکار کیا۔ ایسے احکامات میں حدیث مبارکہ کو لکھنے کی ممانعت بھی شامل تھی ۔ اسلام کے ابتدائی دور میں قرآن مجید اور حدیث کو ایک ہی جگہ (اکٹھے ) لکھنے کی ممانعت تھی ، بعد ازاں اس کی بھی اجازت مل گئی جس کے بعض ثبوت حاضر ہیں:
➊ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:
جب اللہ (تعالیٰ ) نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو مکہ فتح کرا دیا تو آپ لوگوں کے سامنے کھڑے ہوئے ، پھر اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:
فَلَا يُنفَرُ صَيْدُهَا ، وَلَا يُخْتَلَى شَوْكُهَا، وَلَا تَحِلُّ سَاقِطَتُهَا إِلَّا لِمُنْشِدٍ، وَمَنْ قُتِلَ لَهُ قَتِيلٌ فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَينِ، إِمَّا أَنْ يُفْدَى وَإِمَّا أَنْ يُقِيدَ ، فَقَالَ العَبَّاسُ: إِلَّا الإِذْخِرَ ، فَإِنَّا نَجْعَلُهُ لِقُبُورِنَا وَبُيُوتِنَا ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: إِلَّا الإِذْخِرَ فَقَامَ أَبُو شَاهِ – رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ – فَقَالَ: اكْتُبُوا لِي يَارَسُولَ اللَّهِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: اكْتُبُوا لَّا بِي شَاہ
”اس کے شکار کو نہ چھیڑا جائے اور نہ اس کے کانٹے کاٹے جائیں اور یہاں کی گری ہوئی چیز صرف اس کے لیے حلال ہو گی جو اس کا اعلان کرے اور جس کا کوئی آدمی قتل کیا گیا ہو اس کو دو باتوں کا اختیار ہے یا (قاتل سے ) فدیہ لے لے یا جان کے بدلے میں جان لے۔“
عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: مگر اذخر (گھاس کاٹنے کی اجازت عنایت فرما دیں) کیونکہ ہم اس (گھاس) کو اپنی قبروں اور گھروں میں استعمال کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مگر اذخر (گھاس کاٹنے کی اجازت ہے)“ پھر یمن والوں میں سے ایک شخص ابوشاہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا: اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) یہ باتیں میرے لیے لکھوا دیجئے تو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوشاہ کے لیے لکھ دو ۔ “
[صحيح البخاري: 2434 ، صحيح مسلم: 3305 ، سنن الترمذي: 2667 ، سنن أبى داود: 2017 ، مسند أحمد: 7201]
➋ ابو سفیان رضی اللہ عنہ سے ہر قل بادشاہ کے نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خط بھیجنے والے واقعہ میں یہ بات منقول ہے:
ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الَّذِى بَعَثَ بِهِ دِحْيَةٌ إِلَى عَظِيمٍ بُصْرَى ، فَدَفَعَهُ إِلَى هِرَ قْلَ، فَقَرَأَهُ فَإِذَا فِيهِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرحِيم ، مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى هِرَ قْلَ عَظِيمِ الرُّومِ: سَلَامٌ عَلَى من اتَّبَعَ الهُدَى، أَمَّا بَعْدُ ، فَإِنِّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الإِسْلَامِ ، أَسْلِمْ تَسْلَمْ ، يُؤْتِكَ اللَّهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ ، فَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَإِنَّ عَلَيْكَ إِثْمَ الْارِيسِيِّينَ
پھر انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ خط منگوایا جو آپ نے وحیتہ الکلبی (رضی اللہ عنہ ) کے ذریعے سے حاکم بصریٰ کے پاس بھیجا تھا، پھر اس کو پڑھا تو اس میں (لکھا تھا کہ ): اللہ کے نام کے ساتھ جو نہایت مہربان (اور ) بہت رحم کرنے والا ہے۔ اللہ کے بندے اور اس کے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی طرف سے یہ خط ہے شاہ روم کے لیے۔ سلام اس شخص پر ہو جو ہدایت کی پیروی کرے۔ اس کے بعد میں آپ کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کرتا ہوں۔ اگر آپ اسلام لے آئیں گے تو (دین و دنیا میں ) سلامتی نصیب ہو گی ۔ اللہ آپ کو دوہرا اجر دے گا اور اگر آپ (میری اس دعوت سے ) رو گردانی کریں گے تو آپ کی رعایا کا گناہ بھی آپ پر ہی ہو گا۔
[صحيح البخاري: 7 ، صحيح مسلم: 4607]
Sh2 وضاحت: Eh2 عزیز اللہ بوہیو نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطوط کا ذکر کیا ہے ، چنانچہ اس حوالے سے ایک مقام پر لکھتے ہیں:
”کائنات کے اتنے بڑی انقلابی رسول ، جس نے سب سے پہلے اپنی زندگی میں حجاز کے فیوڈل سماج کو ختم کر کے جاگیرداری سرداری ختم کرائی اور دنیا میں سے دو بڑی بادشاہتوں کو گرانے کا سنگ بنیاد رکھا اور ان بادشاہوں کو خطوط لکھے۔“
[قرآن مہجور: ص 201]
➌ امام وہب بن منبہ رحمہ اللہ اپنے بھائی سے روایت کرتے ہیں:
سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: مَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم أَحَدٌ أَكْثَرَ حَدِيثًا عَنْهُ مِنّي ، إِلَّا مَا كَانَ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، فَإِنَّهُ كَانَ يَكْتُبُ وَلَا أَكْتُبُ
میں نے ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ ) سے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ (رضی اللہ عنہم ) میں عبد اللہ بن عمرو (رضی اللہ عنہما ) کے علاوہ مجھ سے زیادہ احادیث بیان کرنے والا کوئی نہیں ، کیوں کہ وہ لکھتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا۔
[صحيح البخاري: 113]
(جاری ہے)
➍ امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:
مَا كَتَبْنَا عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم إِلَّا القُرْآنَ وَمَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ
ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کے علاوہ کچھ نہیں لکھا اور جو کچھ اس صحیفے میں ہے۔
[صحيح البخاري: 3179]
اس صحیفے میں کیا تھا؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:
العَقْلُ ، وَفَكَاكُ الأَسِيرِ، وَلا يُقْتَلُ مُسْلِمٌ بِكَافِرٍ
دیت اور قیدیوں کی رہائی اور یہ کہ کوئی مسلمان کسی کافر کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا۔
[صحيح البخاري: 111]
➎ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنتا وہ سب لکھ لیا کرتا تھا تا کہ اسے یاد کر سکوں۔ (کچھ ) قریشیوں نے مجھے ایسا کرنے سے روک دیا اور کہا کہ آپ جو بات سنتے ہیں وہ لکھ لیتے ہیں ، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشر یعنی انسان ہیں ، غصے اور خوشی کی حالت میں (بھی ) گفتگو کرتے ہیں، لٰہذا میں نے لکھنا ترک کر دیا، پھر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے (اس بات کا ) ذکر کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اپنے دہن (مبارک) کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
اكْتُبُ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا يَخْرُجُ مِنْهُ إِلَّا حق
”لکھو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس (منہ) سے سوائے حق کے اور کچھ نہیں نکلتا۔“
[سنن أبى داود: 3646 ، وسنده صحيح، مسند أحمد: 65/10]
➏ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
أَمَرَنِي رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم فَتَعَلَّمْتُ لَهُ كِتَابَ يَهُودَ ، وَقَالَ: إِنِّي وَاللَّهِ مَا آمَنُ يَهُودَ عَلَى كِتَابِي فَتَعَلَّمْتُهُ ، فَلَمْ يَمُرَّ بِي إِلَّا نِصْفُ شَهْرٍ حَتَّى حَذَقْتُهُ، فَكُنْتُ أَكْتُبُ لَهُ إِذَا كَتَبَ وَأَقْرَأْ لَهُ، إِذَا كُتِبَ إِلَيْهِ
”رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا تو میں نے یہودیوں کی تحریر سیکھ لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں یہودیوں سے جو کچھ لکھواتا ہوں اس پر مجھے اعتماد نہیں ہے۔“ چنانچہ میں نے (یہودیوں کی زبان) سیکھ لی۔ دو ہفتے نہ گزرے کہ میں اس میں خوب ماہر ہو گیا ، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو جب کچھ لکھوانا ہوتا تو میں ہی لکھا کرتا تھا اور جب کوئی تحریر آپ کے پاس آتی تو آپ کو پڑھ کر (بھی ) سناتا تھا۔
[سنن أبى داود: 3645 ، وسنده حسن ، سنن الترمذي: 2715]
➐ ابو قبیل حی بن ہانی المعافری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كُنَّا عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِي ، وَسُئِلَ: أَيُّ الْمَدِينَتَيْنِ تُفْتَحُ أَوَّلا: الْقُسْطَنْطِينِيَّةُ أَوْ رُومِيَّةُ؟ فَدَعَا عَبْدُ اللَّهِ بِصُنْدُوقٍ لَهُ حَلَقٌ، قَالَ: فَأَخْرَجَ مِنْهُ كِتَابًا ، قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: بَيْنَمَا نَحْنُ حَوْلَ رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم نَكْتُبُ . إِذْ سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم: أَيُّ الْمَدِينَتَيْنِ تُفْتَحُ أَوَّلا: قُسْطَنْطِينِيَّةُ أَوْ رُومِيَّةٌ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: مَدِينَةُ هِرَ قْلَ تُفْتَحُ أَوَّلًا يَعْنِي قُسْطَنْطِينِيَّةَ
ہم عبد اللہ بن عمرو بن العاصی (رضی اللہ عنہما ) کے پاس موجود تھے اور ان سے پوچھا گیا کہ دو شہروں میں سے کون سا شہر سب سے پہلے فتح ہو گا۔ قسطنطنیہ یا رومیہ؟ پھر عبد اللہ (رضی اللہ عنہ ) نے حلقوں والا صندوق منگوایا۔ (ابو قبیل رحمہ اللہ نے ) کہا: پھر اس (صندوق ) میں سے ایک کتاب نکالی۔ (راوی نے) کہا: پھر عبداللہ (رضی اللہ عنہ ) نے فرمایا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لکھ رہے تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ دو شہروں میں سب سے پہلے کون سا شہر فتح ہو گا؟ قسطنطنیہ یا رومیہ؟ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پہلے ہر قل کا شہر“ یعنی قسطنطنیہ۔
[مسند أحمد: 177/2 ، ح6645 ، و سنده صحيح ، المستدرك للحاكم: 555/4 ، 422/4]
➑ معبد بن ہلال رحمہ اللہ سے روایت ہے:
كُنَّا إِذَا أَكْثَرَنَا عَلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكِ رضی اللہ عنہ أَخْرَجَ إِلَيْنَا مَحَالَا عِنْدَهُ، فَقَالَ: هَذِهِ سَمِعْتُهَا مِنَ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَكَتَبْتُهَا وَعَرَضْتُهَا عَلَيْهِ
ہم جب انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے زیادہ اصرار کرتے تو وہ ہمارے لیے اپنی یاداشت کی کتاب نکالتے ، پھر فرماتے: یہ ہیں وہ (احادیث مبارکہ ) جو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھیں ، پھر انھیں لکھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) پر پیش کی تھیں ۔
[ المستدرك للحاكم: 573/3 ، 574 ، ح6452 ، وسنده حسن]
➒ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اكْتُبُوا لِي مَنْ تَلَفَّظَ بِالإِسْلَامِ مِنَ النَّاسِ ، فَكَتَبْنَا لَهُ أَلْفًا وَخَمْسَ مِائَةِ رَجُلٍ، فَقُلْنَا: نَخَافُ وَنَحْنُ أَلْفٌ وَخَمْسُ مِائَةٍ
” جو لوگ اسلام کا کلمہ پڑھ چکے ہیں ان کے نام لکھ کر میرے پاس لاؤ۔“ چنانچہ ہم نے ڈیڑھ ہزار مردوں کے نام لکھ کر آپ کی خدمت میں پیش کئے تو ہم نے کہا: ہم خوف زدہ ہیں، جبکہ ہماری تعداد ڈیڑھ ہزار ہو گئی ہے۔
[صحيح البخاري: 3060 ، صحيح مسلم: 377]
➓ امام ابو بکر محمد بن مسلم الزھری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هَذِهِ نُسْخَةُ كِتَابِ رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم الَّذِي كَتَبَهُ فِي الصَّدَقَةِ ، وَهِيَ عند آلُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: أَقْرَأَنيهَا سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ . فَوَعَيْتُهَا عَلَى وَجْهِهَا ، وَهِيَ الَّتِي انْتَسَخَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ وَسَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ
یہ نقل ہے اس تحریر کی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ (یعنی زکوٰۃ) کے متعلق لکھوائی تھی اور یہ (تحریر) آل عمر بن الخطاب کے پاس محفوظ تھی ۔ ابن شہاب (رحمہ اللہ ) نے کہا: اس (تحریر ) کو سالم بن عبد اللہ بن عمر (رحمہ اللہ ) نے مجھ سے پڑھوایا ، پھر میں نے اس کو اسی طرح حفظ کر لیا اور یہ وہی تحریر ہے جس کو عمر بن عبد العزیز (رحمہ اللہ ) نے عبد اللہ بن عبد اللہ بن عمر اور سالم بن عبد اللہ بن عمر (رحمہم اللہ ) سے نقل کروایا تھا۔ پھر حدیث بیان کی ۔
[سنن أبى داود: 1570 ، وسنده حسن ، المستدرك للحاكم: 1454 ، سنن الدارقطني: 1967]
عزیز اللہ بوہیو کی خدمت میں کتابت حدیث کے حوالے سے کچھ باسند صحیح ثبوت عرض کیے ہیں۔ اس عنوان پر متعد د ثبوت اور بھی تھے لیکن طوالت کے ڈر سے انھیں ذکر نہیں کیا سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں حدیث کی کتابت اور حفظ کا وجود وثبوت ملتا ہے۔ عہد خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اور بعد والے ادوار میں بیسیوں واقعات باسند صحیح ملتے ہیں ۔
اس گروہ کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ قرآن مجید کو لغت اور اپنی عقل کی بنیاد پر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور شارح قرآن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح کو خاطر میں نہیں لاتے ۔ یہی سبب ہے کہ وہ سیدھی راہ سے کوسوں دور جا چکے ہیں۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام اور اس کی صفت ہے، قرآن مجید کی تشریح اور وضاحت کا حق صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی جو تشریح کی ، وہ بھی اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سکھائی تھی ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
➊ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ ، فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ ، ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ [القيمة: 17 – 19]
”اس (قرآن) کا جمع کرنا اور (آپ کا زبان سے ) پڑھنا ہمارے ذمے ہے جب ہم اس کو پڑھ لیں تو آپ اس کے پڑھنے کی پیروی کریں۔ پھر اس کا واضح کر دینا ہمارے ذمے ہے۔“
➋ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [النحل: 44]
”اور ہم نے آپ کی طرف یہ ذکر (قرآن کریم) نازل کیا ہے تا کہ لوگوں کی جانب جو نازل کیا گیا ہے ، آپ اس کو کھول کھول کر بیان کریں، شاید کہ وہ غور و فکر کریں۔“
➌ إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمُ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَيكَ اللهُ [النساء: 105]
”یقیناً ہم نے تمھاری طرف حق کے ساتھ اپنی کتاب نازل فرمائی ہے تا کہ تم لوگوں میں اس چیز کے مطابق فیصلہ کرو جس سے اللہ نے تم کو شناسا کیا ہے۔“
➍ وَرَتَّلْنَهُ تَرْتِيلًا ، وَلَا يَأْتُونَكَ بِمَثَلِ الَّا جِئْنَكَ بِالْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِيرًا [الفرقان: 32 – 33]
”اور ہم نے اس (قرآن) کو ٹھہر ٹھہر کر ہی پڑھ کر سنایا ہے۔ یہ آپ کے پاس جو کوئی مثال بھی لائیں گے، ہم اس کا سچا جواب اور اس کی عمدہ توجیہ بتا دیں گے۔ “
مذکورہ آیات مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید اتارا بلکہ اس قرآن مجید کی تشریح و توضیح بھی خود اللہ تعالیٰ نے کی ہے۔ جبریل امین علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے جو بات سنی وہ من وعن نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچائی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام سے جو کچھ سنا اور سیکھا، اللہ تعالیٰ نے آپ کے سینے میں اس کو بالکل محفوظ کر دیا ، لٰہذا قرآن مجید کی تفسیر اور اس کا عملی نمونہ وہی معتبر مانا جائے گا جو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت ہو ، جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن مجید کی ایک ایک آیت کی تشریح بتائی ، وہاں اس چیز کا پابند بھی کیا کہ اس معاملے میں اپنی ذاتی خواہش اور ضرورت کی بنا پر ایک لفظ بھی نہ بولیں اور یہ بھی بتایا کہ لامحالہ اگر آپ نے کچھ کہہ ڈالا تو اس کا انجام اچھا نہ ہو گا۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ ، لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ، ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ، فَمَا مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ [الحاقة: 44 – 47]
”اور اگر وہ ہم پر کوئی بھی بات بنا لیتا، تو یقیناً ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے ، پھر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے، پھر تم میں سے کوئی بھی اس سے روکنے والا نہ ہوتا۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی پیروی کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ، وحی کے ذریعے جو پیغام ملا وہ لوگوں تک پہنچایا ، وحی کی جو تشریح سنی ، ویسے ہی بتائی ، اپنی طرف سے نہ کچھ کہا ، نہ اضافہ کیا اور نہ ہی کمی کی ۔ متعدد مواقع پر وحی کا علم نہ ہونے پر لوگوں نے آپ کو مشورہ دیا کہ آپ اپنی طرف سے ان کو جواب کیوں نہیں دیتے؟ آپ نے اس مشورہ کا جواب ان کو خود نہیں دیا ، بلکہ وحی کے آنے کے بعد دیا۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
➊ وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِمْ بِآيَةٍ قَالُوا لَوْلَا اجْتَبَيْتَهَا ۖ قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا يُوحَى إِلَيَّ مِنْ ربي ، هذا بَصَابِرُ مِن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ [الأعراف: 203]
”اور جب آپ ان کے پاس کوئی نشانی (یعنی معجزہ وغیرہ) نہیں لاتے تو وہ کہتے ہیں کہ تم خود اپنی طرف سے کیوں نہیں بنا لاتے؟ آپ فرما دیجیے کہ میں تو فقط اس (چیز ) کا اتباع کرتا ہوں جو مجھ پر میرے رب کی طرف سے وحی کی جاتی ہے، یہ روشن دلیلیں ہیں، تمھارے پروردگار کی طرف سے اور ہدایت اور رحمت ہے اس قوم کے لیے جو ایمان لاتے ہیں۔“
➋ وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ ۙ قَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هَٰذَا أَوْ بَدِّلْهُ ۚ قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِي ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۖ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ ، قُل لَّوْ شَاءَ اللَّهُ مَا تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلَا أَدْرَاكُم بِهِ ۖ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِّن قَبْلِهِ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ [يونس: 15 – 16]
”اور جب ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں جو بالکل صاف صاف ہیں تو یہ لوگ جن کو ہمارے پاس آنے کی امید نہیں ہے، یوں کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا قرآن لایے یا اس میں کچھ ترمیم کر دیجیے۔ آپ کہہ دیجیے ، میرے لائق نہیں ہے کہ میں اس کو اپنی طرف سے بدل دوں۔ میں صرف اتباع کرتا ہوں اس کی ، جو میری طرف وحی کی جاتی ہے، بے شک اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو بہت بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں ، آپ کہہ دیجیے کہ اگر اللہ کو منظور ہوتا تو نہ میں تم کو وہ پڑھ کر سناتا اور نہ تم کو اس کی اطلاع اللہ دیتا ، کیونکہ اس سے پہلے تو میں عمر کے ایک بڑے حصہ تک تم میں رہ چکا ہوں، پھر کیا تم عقل نہیں رکھتے؟
مذکورہ آیات مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے کسی بھی حکم میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کرنے کا حق کائنات میں کسی کو بھی نہیں ہے ، حتی کہ صاحب قرآن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہیں ہے۔ اللہ تعالی ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، اسلام ، قرآن اور مسلمانوں کے دشمن زبان حال سے کہہ رہے ہیں کہ اپنی طرف سے ہی بتا دو، ہمیں کیا پتہ لگے گا کہ یہ وحی ہے اور یہ آپ کی ذاتی رائے ہے۔ اس بات کا جواب بھی اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سمجھایا ، لٰہذا قرآن مجید کی کسی بھی آیت کا ترجمہ یا اس کی تشریح کرنے کے لیے صرف لغت کافی نہیں ہے ، بلکہ جب تک صاحب وحی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کی تشریح نہ کریں تب تک وہ بات معتبر اور مستند نہیں ہو گی۔
Sh2 عہد رسالت کے کچھ واقعات ملاحظہ فرمائیں: Eh2
➊ سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
لَمَّا نَزَلَت: حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ [البقرة: 187]
عَمَدْتُ إِلَى عِقَالٍ أَسْوَدَ ، وَإِلَى عِقَالٍ أَبْيَضَ ، فَجَعَلْتُهُمَا تَحْتَ وِسَادَتِي ، فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ فِي اللَّيْلِ ، فَلا يَسْتَبِينُ لِي ، فَغَدَوْتُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم ، فَذَكَرْتُ لَهُ ذَلِكَ فَقَالَ: إِنَّمَا ذَلِكَ سَوَادُ اللَّيْلِ وَبَيَاضُ النَّهَارِ . [البقرة: 187]
جب (یہ آیت نازل ہوئی (ترجمہ ) تا آنکہ واضح ہو جائے تمھارے لیے سفید دھاری سیاہ دھاری سے ، تو میں نے ایک سیاہ دھاگہ لیا اور ایک سفید اور دونوں کو تکیہ کے نیچے رکھ لیا اور رات بھر دیکھتا رہا مجھے پر ان کے رنگ واضح نہ ہوئے ۔ جب صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، پھر آپ سے اس کا ذکر کیا، آپ نے فرمایا: اس سے رات کی تاریکی (صبح کاذب ) اور دن کی سفیدی (صبح صادق ) مراد ہے۔
[صحيح البخاري: 1916 ، صحيح مسلم: 2533]
➋ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَيْسَ أَحَدٌ يُحَاسَبُ إِلَّا هَلَكَ قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَ كَ ، أَلَيْسَ يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتْبَهُ بِيَمِينِهِ ، فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا . [الانشقاق: 7- 8] قَالَ: ذَاكَ العَرْضُ يُعْرَضُونَ وَمَنْ نُوقِشَ الحِسَابَ هَلَكَ. [انشقاق: 8]
جس کسی سے بھی قیامت کے دن حساب لیا گیا تو وہ ہلاک ہو جائے گا۔ (عائشہ رضی اللہ عنہا ) فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! (صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ مجھے آپ پر قربان کرے ، کیا اللہ عزوجل نے یہ ارشاد نہیں فرمایا کہ ”پس (اس وقت) جس کسی کو نامہ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں ملے گا، تو اس سے آسان حساب لیا جائے گا ، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا: یہ تو پیشی ہے، وہ صرف پیش کئے جائیں گے اور جس سے بھی پوری طرح حساب لیا گیا وہ ہلاک ہو گا۔
[صحيح البخاري: 4939 ، صحيح مسلم: 7227]
➌ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ ، أَرَأَيْتَ جَنَّةَ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ ، فَأَيْنَ النَّارُ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم: أَرَأَيْتَ هَذَا اللَّيْلَ الَّذِي قَدْ كَانَ ، الْبَسَ عَلَيْكَ كُلَّ شَيْءٍ ، ثُمَّ لَيْسَ شَيْءٌ ، أَيْنَ جُعِلَ؟ قَالَ: اللهُ أَعْلَمُ ، قَالَ: فَإِنَّ اللهَ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ
[صحيح ابن حبان بترتيب ابن بلبان: 103 ، وسنده صحيح ، المستدرك للحاكم: 102 ، البحر الزخار المعروف بمسند البزار: 9380]
ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، عرض کیا: اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وسلم ) اگر جنت کی چوڑائی آسمانوں اور زمینوں کے برابر ہے تو پھر جہنم کہاں ہے؟ تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذرا بتاؤ: یہ گزشتہ رات جس نے تم پر ہر شئے کو ڈھانپ لیا تھا، اب بالکل بھی نہیں ہے، وہ کہاں لے جائی گئی؟ اس نے کہا: اللہ ہی جانتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا: اسی طرح اللہ سب باتوں کے متعلق جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے۔
➍ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
الَّذِينَ يُحْشَرُونَ عَلَىٰ وُجُوهِهِمْ إِلَىٰ جَهَنَّمَ أُولَٰئِكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَأَضَلُّ سَبِيلًا [الفرقان: 34]
”جو لوگ اپنے منہ کے بل جہنم کی طرف جمع کیے جائیں گے، وہی بدتر مکان والے اور گمراہ تر راستے والے ہیں۔
➎ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ يُحْشَرُ الكَافِرُ عَلَى وَجْهِهِ يَوْمَ القِيَامَةِ؟ قَالَ: أَلَيْسَ الَّذِي أَمْشَاهُ عَلَى الرَّجُلَيْنِ فِي الدُّنْيَا قَادِرًا عَلَى أَنْ يُمْشِيَهُ عَلَى وَجْهِهِ يَوْمَ القِيَامَةِ. قَالَ قَتَادَةُ: بَلَى وَعِزَّةِ رَبِّنَا .
”ایک شخص نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) ! قیامت کے دن کا فر کو منہ کے بل کس طرح چلایا جائے گا؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا: جس اللہ نے اس کو دنیا میں دو پاؤں پر چلایا تھا، کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ قیامت کے دن اس کو چہرے کے بل چلا دے؟ قتادہ (رحمہ اللہ ) نے کہا کہ ہمارے رب کی عزت کی قسم! یوں ہی ہو گا۔
[صحيح البخاري: 4760 ، صحيح مسلم: 7087 ، صحيح ابن حبان بترتيب ابن بلبان: 7323]
مذکورہ واقعات سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید کو صرف لغت اور عقل کی بنیاد پر نہیں سمجھا جائے گا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے اکثر عربی زبان بولنے اور سمجھنے والے تھے ۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا عالمہ اور فقیہہ تھیں لیکن قرآن مجید کے مقامات کو سمجھنے سے قاصر رہیں۔ جب انھوں نے اپنی الجھن ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کی تو آپ نے وحی کی تعلیم کی روشنی میں ان کی پریشانی کو دور کر دیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کا رجوع ، حقیقت میں آنے والے مسلمانوں کے لیے ایک سبق ، دلیل اور ثبوت تھا کہ وہ بھی قرآن مجید میں کہیں بھی مشکل کا شکار ہوں تو فوری طور پر کتب احادیث اور سلف صالحین کی طرف رجوع کریں، اس طرح ان کی علمی الجھن دور ہو جائے گی۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إِنَّ أَصَحَ الطُّرُقِ فِي ذَلِكَ أَنْ يُفَسَّرَ الْقُرْآنُ بِالْقُرْآنِ ، فَمَا أُجْمِل فِي مَكَان فَإِنَّهُ قَدْ فُسِّرَ فِي مَوْضِعِ آخَرَ ، فَإِنْ أَعْيَاكَ ذَلِكَ فَعَلَيْكَ بِالسُّنَّةِ فَإِنَّهَا شَارِحَةٌ لِلْقُرْآن وَمُوَضَحَةُ لَهُ
”قرآن (مجيد) کی تفسیر کرنے کا صحیح ترین طریقہ یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر خود قرآن سے کی جائے۔ جہاں بھی قرآن کا کوئی مجمل مضمون ہے تو دوسری جگہ پر اس کی تفسیر موجود ہے اور اگر ایسا کرنا تمھارے بس سے باہر ہو تو پھر سنت یعنی حدیث سے اس کی تفسیر کرنی چاہیے، کیونکہ حدیث قرآن کی شرح اور اس کی تفسیر ہے اور اس کے مضمون کی وضاحت کرتی ہے۔
[مقدمة تفسير القرآن العظيم: 19/1 ، طبع كويت]
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ قرآن مجید کی آیت:
بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ ۗ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [النحل: 44]
کی تفسیر میں لکھتے ہیں: لتبين للناس ما نزل إليهم . أى من ربهم لعلمك بمعنى ما أنزل الله عليك و حرصك عليه واتباعك له. ولعلمنا بأنك أفضل الخلائق ، وسيد ولد آدم فتفصل لهم ما أجمل وتبين لهم ما أشكل .
یعنی جو ان کے رب کی طرف سے نازل ہوا اس کی وضاحت کریں، اس کا سبب یہ ہے کہ جو کچھ اللہ نے نازل کیا ہے آپ اس کا معنی و مراد خوب جانتے ہیں، اور آپ اس کے حریص بھی ہیں اور آپ خود اس پر عمل پیرا بھی ہوتے ہیں، اور اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ آپ تمام مخلوق میں افضل ترین اور تمام اولاد آدم کے سردار ہیں۔
چنانچہ آپ مجمل مقامات کی تفصیل ان کے سامنے بیان کیجیے اور اس کے مشکل مقامات کی وضاحت کیجیے۔
[تفسير القرآن العظيم: 754/2]
ساری بحث و تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو صاحب قرآن و شارح وحی مانا جائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کے احکامات کی جو تشریح اور وضاحت کی ہے، اس کو سچا سمجھ کر مانا جائے اور ان احکامات پر ایسے عمل کیا جائے جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے۔ منکرینِ حدیث قرآن مجید کو تو مانتے ہیں لیکن اس شرح ، وضاحت اور اس کے عملی نمونہ کو نہیں مانتے جو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کر کے دکھایا تھا ، وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یعنی حدیث ، جو کہ قرآن مجید کی وضاحت ہے، اس کی شرعی حیثیت کو نہیں مانتے ہیں۔ وہ قرآن مجید کا ترجمہ اور قرآنی اصطلاحات کا جو معنی کرتے ہیں، اس کے لیے ان کے پاس نفسانی خواہشات کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ قرآن مجید کا ترجمہ کرنے اور اسلامی اصطلاحات کا معنی کرنے میں انھوں نے جتنی ٹھوکریں کھائی ہیں، اتنی کسی اور نے نہیں کھائی ہیں۔ قرآن مجید کو لغت اور عقل کی بنیاد پر سمجھنے کی وجہ سے وہ اسلامی عقائد میں مار کھا گئے ۔ اسلامی اعمال میں وہ مسلمانوں سے نہ صرف الگ ہو گئے ، بلکہ بہت دور چلے گئے ہیں۔ اگر سنجیدگی سے غور کیا جائے گا تو معلوم ہو گا کہ عقیدہ اور عمل میں قرآن اور حدیث میں جتنی بھی باتیں بتائی گئی ہیں وہ عین عقل سلیم کے موافق ہیں۔ اس سے بڑھ کر پاگل پن اور دیوانگی اور کیا ہوسکتی ہے۔ کہ ایک انسان اپنی محدود عقل اور ادھوری سوچ کو کسوٹی بنا کر دین کے احکامات کو پرکھنے کی ناکام کوشش کرے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن و حدیث پر صدق دل سے عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
Sh2 نماز کی شرعی حیثیت پر کئے گئے اعتراضات کا علمی جائزہ: Eh2
امام کائنات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں جہاں مسلمان ہر قسم کے فتنے فساد اور عذاب الٰہی سے محفوظ و مامون رہے، وہاں کفار اور مشرکین بھی عام عذاب سے محفوظ رہے۔ کفار اور مشرکین نے اپنی زبان سے عذاب مانگا بھی تھا ، لیکن اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں انہیں عذاب نہ دیا۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَإِذْ قَالُوا اللَّهُمَّ اِنْ كَانَ هَذَا هُوَ الْحَقِّ مِنْ عِنْدِكَ فَامْطِرُ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِنَ السَّمَاءِ أَوِ اثْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ۔ وَمَا كَانَ اللهُ لِيُعَذِّ بَهُم وَاَنْتَ فِيهِم ….. الآية . [الانفال: 32 – 33]
”اور (وہ وقت یاد کریں) جب انھوں نے کہا کہ اے اللہ ! اگر تیری طرف سے یہ (قرآن) حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا ہم پر کوئی دردناک عذاب لے آ ۔ اور اللہ ایسا نہ کرے گا کہ ان میں آپ کے ہوتے ہوئے ان کو عذاب دے۔“
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کیا ، باوجود اس کے کہ کفار اور مشرکین نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو بے شمار تکلیفیں دیں اور مخالفتیں کیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان پر عام عذاب نہیں بھیجا۔ جیسے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی وہ فتنے اور فساد نمودار ہوئے جن کے واقع ہونے کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی الٰہی کی روشنی میں پیشین گوئی کی تھی ۔
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: (ایک مرتبہ ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے قلعوں میں سے ایک قلعے پر چڑھے، پھر فرمایا کہ جو کچھ میں دیکھتا ہوں ، کیا تم بھی دیکھتے ہو؟ عرض کیا گیا کہ نہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا کہ میں فتنوں کو دیکھ رہا ہوں جو بارش کے قطروں کی طرح تمھارے گھروں میں داخل ہو رہے ہیں۔
[صحيح البخاري: 7060 ، صحيح مسلم: 7245]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی بالکل سچی ثابت ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد نئے نئے فتنے کھڑے ہوئے اور ایک کے بعد دوسرا ظاہر ہوتا رہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث مبارکہ کی شرعی حیثیت کا انکار کرنے والے گروہ کے متعلق جو کچھ کہا، وہ من و عن صحیح ثابت ہوا ، جیسا کہ گزشتہ صفحات میں قارئین پڑھ چکے ہیں۔
عزیز اللہ بوہیو نے نہ صرف حدیث کی تشریحی حیثیت کا انکار کیا ہے بلکہ اس نے ”نماز“ کی شرعی حیثیت اور کیفیت کا بھی بالکل انکار کیا ہے۔ موصوف کا موقف ہے کہ صلوة اور ”نماز“ میں فرق ہے۔ مساجد میں مسلمان جو پانچ نمازیں باجماعت ادا کرتے ہیں وہ قرآن مجید میں بیان کی گئی صلوة نہیں ہے اور نہ ہی قرآن مجید میں بیان کی گئی صلوة کی یہی کیفیت اور شکل ہے۔ مسلمان خواہ مخواہ اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں اور گرمی اور سردی میں بغیر کسی مقصد کے اپنی پیشانیاں رگڑ رہے ہیں۔
مسلمانوں کے جتنے بھی فرقے ہیں ، ان میں سے ایک یا دو فرقے ایسے ہیں جو نماز کی شرعی حیثیت کے منکر ہیں، جبکہ باقی صلوة سے مراد موجودہ ”نماز“ ہی لیتے ہیں۔ وہ نماز کی شرعی حیثیت کو بھی مانتے ہیں اور ثواب کے قائل ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے چھوڑنے کو کفر اور شرک بھی سمجھتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ وہ نماز کے طریقہ کار، اوقات اور نفلی نماز کی رکعتوں میں اختلاف رکھتے ہیں، لیکن پانچ وقت کی نماز اور فرض نماز کی رکعات میں وہ متفق ہیں۔
عزیز اللہ بوہیو سے پہلے بھی کچھ ایسے افراد ملتے ہیں جنھوں نے ”نماز“ کی شرعی حیثیت کو سبوتاژ کرنے کی سعی نامشکور کی تھی ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ”مسیلمہ کذاب“ نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا۔ اسی طرح ”ھوازن“ کے قبیلے ”بنو تمیم“ سے تعلق رکھنے والی ایک عیسائی عورت ”سجاح بنت تمیمہ“ نے بھی مسیلمہ کے دعوی نبوت سے متاثر ہو کر نبوت کا دعویٰ کیا، آگے چل کر ان دونوں نے آپس میں شادی کر لی۔ اس عورت نے اپنا مہر یہ مقرر کیا کہ معتقدین پر عشاء اور فجر کی نماز پڑھنا معاف کر دی۔
[الإصابة فى تمييز الصحابة لابن حجر: 198/8 ، دار الكتب العلمية ، بيروت]
علامہ سید بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ مسلمانوں کے ایک گمراہ فرقے ”الذكرية“ کے تعارف میں لکھتے ہیں: ”یہ جماعت اکثر و بیشتر مکران اور بلوچستان (صوبہ) میں ہے، اگرچہ کچھ دوسرے شہروں میں بھی ہیں۔ اس جماعت کا بانی ”ملا محمد“ اٹک شہر ، صوبہ پنجاب کا رہنے والا تھا۔ اس نے ”مھدی“ ہونے کا بھی دعوی کیا تھا، ”برھان“ نامی کتاب لکھی، جس میں یہ اظہار کیا کہ ”شریعت محمدی“ منسوخ ہو گئی اور ”شریعت مھدوی“ جاری ہو چکی ہے۔ آپ اس کے امتی ہیں اور نماز ، روزہ ، حج اور قبلہ کی اب کوئی حیثیت نہیں ہے، یہ تمام امور اب منسوخ ہو گئے ہیں۔
اس فرقہ سے وابستہ ایک شخص نور الدین بن کمالان پنجگوری لکھتے ہیں کہ: (ترجمہ ) جس نے جمعہ اور عیدین کی نماز پڑھی، اس نے مہدی کی شریعت کے مطابق غلطی کی اور برا کام کیا۔ حقیقت میں کافر کوئی بھی نہیں ہوتا ، لیکن جس نے جمعہ اور عید کی نماز پڑھی وہ کافر ہے۔ پانچ وقت نمازیں پڑھنا ناجائز اور فاش غلطی ہے۔ [ضميمه: ص 121]
اس کتاب کے آخر میں ہے: ”تمت تمام شد روئے نمازی سیاہ شد“
(کتاب پوری ہوئی اور نمازی کا منہ کالا ہوا)“
[احسن الخطاب فى تفسير أم الكتاب: ص 326 – 330]
اپنے پیش روؤں کی تقلید کرتے ہوئے عزیز اللہ بوہیو نے بھی نماز کی شرعی حیثیت اور کیفیت کا کھلے بندوں انکار کیا ہے۔ اس نے نماز کی شرعی حیثیت کے رد میں بیسیوں صفحات سیاہ کیے ہیں۔ اس نے اپنی مختلف کتابوں مثلاً: ”فقہ القرآن ، احسن الحدیث ، قرآن مہجور ، قرآن کے علاوہ کسی کی بھی تابعداری نہ کریں اس کو ولی سمجھ کر ، کیا ہماری نمازیں قرآنی صلوٰة ہے ، صلوٰة اور نماز میں فرق“ وغیر ہم میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے اور موجودہ نماز کا ردّ کیا ہے۔ ان کتابوں میں سے کچھ اقتباس عرض کرتا ہوں اور آخر میں اس حوالے سے کچھ معروضات عرض رکھوں گا۔