غیر پھلدار درختوں پر زکوۃ اور عشر کے شرعی احکام

سوال:

اگر غیر پھلدار درخت کاٹ کر بیچے جائیں، تو کیا ان پر کوئی زکوۃ یا عشر کا معاملہ ہوگا؟

جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

غیر پھلدار درختوں پر زکوۃ یا عشر کا حکم:

◄ غیر پھلدار درختوں پر عشر یا نصف العشر کا اطلاق نہیں ہوتا، کیونکہ عشر کا تعلق زمین سے حاصل ہونے والی پیداوار (پھل، اناج، زرعی اجناس) سے ہوتا ہے، نہ کہ لکڑی یا دیگر اشیاء سے۔
◄ البتہ اگر یہ درخت تجارتی مال کے طور پر کاٹے اور بیچے جا رہے ہیں، تو ان پر زکوۃ مالِ تجارت کے طور پر لازم ہو سکتی ہے۔

مالِ تجارت کے طور پر درختوں پر زکوۃ:

◄ اگر یہ درخت مستقل تجارتی مقصد کے لیے لگائے گئے ہیں اور انہیں بیچ کر منافع کمانا مقصود ہے، تو یہ مالِ تجارت شمار ہوں گے اور ان پر زکوۃ 2.5% واجب ہوگی۔

زکوۃ نکالنے کا طریقہ:

◄ سال کے اختتام پر موجود درختوں کی موجودہ قیمت معلوم کریں۔
◄ جو درخت یا لکڑی بیچی جا چکی ہو اور اس کی قیمت وصول ہونا باقی ہو، وہ بھی شامل کریں۔
◄ بینک یا نقد رقم جو اس تجارت سے بچت کی صورت میں موجود ہو، اسے بھی شامل کریں۔
◄ اس میں سے جو ادائیگیاں (قرض یا واجبات) باقی ہوں، انہیں منہا کر دیں۔

عشر یا نصف العشر کی صورت:

◄ غیر پھلدار درختوں پر عشر یا نصف العشر نہیں ہوگا۔
◄ ان پر صرف مالِ تجارت کی زکوۃ (2.5%) واجب ہوگی، وہ بھی اس وقت جب مذکورہ شرائط پوری ہوں اور نصابِ زکوۃ (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کو پہنچ جائے۔

خلاصہ:

◄ غیر پھلدار درختوں پر عشر یا نصف العشر واجب نہیں۔
◄ اگر یہ درخت تجارتی مال کے طور پر بیچے جا رہے ہیں تو سال کے آخر میں مالِ تجارت کی زکوۃ (2.5%) ادا کی جائے گی۔
◄ مالِ تجارت کی زکوۃ نکالتے وقت تمام اخراجات اور واجبات کو مدنظر رکھا جائے گا، جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے