سوال
کیا غیر مسلموں کے ساتھ کسی دعوت یا تقریب میں ایک برتن یا علیحدہ برتن میں ایک جگہ بیٹھ کر کھانا کھایا جا سکتا ہے؟
جواب
غیر مسلموں کے ساتھ کھانے پینے کے معاملات میں شریعت نے چند اصول اور رہنما خطوط دیے ہیں۔ تعلقات کی نوعیت اور نیت پر ان احکام کا انحصار ہوتا ہے۔
کفار کے ساتھ محبت اور بھائی چارے کے تعلقات
اگر کسی مسلمان کا غیر مسلم کے ساتھ تعلق محبت یا اخوت پر مبنی ہو، یا دین کے اصولوں سے متصادم کسی قسم کا بھائی چارہ ہو، تو یہ حرام ہے۔ اس قسم کے تعلقات بعض اوقات کفر تک لے جا سکتے ہیں۔
قرآنی حوالہ:
"لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ”
(المجادلہ: 22)
"اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والوں کو آپ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت کرتے ہوئے ہرگز نہیں پائیں گے، خواہ وہ ان کے باپ، بیٹے، بھائی یا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔”
تجارت اور دعوت قبول کرنے کے جواز کی شرطیں
اگر تعلق صرف حلال معاملات جیسے:
- خرید و فروخت،
- حلال کھانے کی دعوت،
- یا مباح تحائف کے تبادلے تک محدود ہو،
اور ان تعلقات کا مسلمان کی دینی یا اخلاقی حالت پر کوئی منفی اثر نہ ہو، تو یہ تعلقات جائز ہیں۔
غیر مسلم کے کھانے اور برتن کا حکم
حلال کھانے کا جائز ہونا:
- اگر غیر مسلم کی جانب سے پیش کردہ کھانے میں کوئی حرام یا نجس شے نہ ہو، تو اسے کھانے میں کوئی حرج نہیں۔
برتن کی پاکیزگی:
- اگر کھانے کے برتن میں پہلے شراب یا خنزیر کا گوشت رکھا گیا ہو تو برتن کو اچھی طرح دھونے کے بعد استعمال کرنا جائز ہے۔
- دھونے کے بعد برتن سے نجاست اور حرام کا اثر زائل ہو جاتا ہے۔
دعوت قبول کرنے کا فائدہ
اگر دعوت قبول کرنا دعوت دینے والے کے دل میں مسلمانوں کے لیے نرمی یا محبت پیدا کرنے کا سبب بنے، یا کسی دینی مقصد کے لیے مفید ہو، تو یہ عمل مستحب ہے۔
اجروثواب:
- ایسی دعوت قبول کرنا دین کے فروغ میں معاون ہو سکتا ہے، اور اس نیت سے یہ عمل اجر کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
نتیجہ
غیر مسلموں کے ساتھ ایک جگہ کھانے کی اجازت شریعت میں موجود ہے، بشرطیکہ کھانے اور برتنوں کے متعلق درج بالا شرائط پوری ہوں۔ تاہم، ان کے ساتھ محبت اور بھائی چارے کے تعلقات دین کے اصولوں کے خلاف ہیں۔ مسلمان کو ہر حال میں اپنی دینی شناخت اور وقار کا خیال رکھنا چاہیے۔