ایسے بنکوں میں مال رکھوانے کا حکم جو سودی معاملات نہیں کرتے
ایسے بنک میں مال رکھوانے میں کوئی حرج نہیں جو سودی لین دین نہیں کرتا، اگر یہ مال نصاب زکاۃ کو پہنچ جائے یا اس سے زیادہ ہو تو سال گزرنے کے بعد اس کی زکاۃ نکالنا ضروری ہے۔ لیکن سودی بنکوں میں ضرورت کے سوا اور فائدہ یعنی سود نہ لینے کے بغیر مال رکھوانا جائز نہیں، کیونکہ ان میں مال رکھوانا ایک طرح کا ان کے ساتھ سود پر تعاون کرنا ہے، اگر کسی کا یہ ارادہ نہ ہو لیکن ضرورت پیش آجائے تو فائدہ یعنی سود کے بغیر ان میں مال رکھوانے میں کوئی حرج نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
«وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ » [الأنعام : 119]
”حالانکہ بلاشبہ اس نے تمہارے لیے وہ چیزیں کھول کر بیان کر دی ہیں جو اس نے تم پر حرام کی ہیں مگر جس کی طرف تم مجبور کر دئیے جاؤ۔“
تاہم بہتر یہی ہے کہ مال ان ہاتھوں میں دیا جائے جو امانتدار ہوں اور جائز شری معاملات کریں تاکہ آپ اپنے مال سے فائدہ اٹھائیں، وہ بے کار ہی پڑا نہ رہے۔
[ابن باز مجموع الفتاوي و المقالات : 419/19]