وَعَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي حَدِيثٍ: فَلَمَّا تَصَافَّ الْقَوْمُ، كَانَ سَيْفُ عَامِرٍ – يَعْنِي ابْنَ الْأَكْوَعِ فِيهِ قِصَرٌ فَتَنَاوَلَ بِهِ سَاقَ يَهُودِي لِيَضْرِبَهُ فَرَجَعَ ذُبَابُ سَيْفِهِ فَأَصَابَ رُكْبَةَ عَامِرٍ ، فَمَاتَ مِنْهُ – أَخْرَجَاهُ فِي ( (الصَّحِيحَيْنِ))
سلمہ بن اکوع سے مروی ہے کہ جب قوم نے صف بندی کی تو عامر بن اکوع کی تلوار چھوٹی تھی اس نے تلوار پکڑی تا کہ یہودی کی ٹانگ پر وار کرے اس کی تلوار نے پلٹا کھایا اور عامر کے گھٹنے پر جا لگی اور اس سے وہ مر گیا۔ شیخین نے اس کو صحیحین میں روایت کیا ہے۔
تحقیق و تخریج:
[بخاري: 4192، مسلم: 1802]
فوائد:
➊ کوئی کسی کو قتل کرنے لگے اور خود اپنی ہی تلوار یا آلہ قتل سے زخمی ہو جائے یا مر جائے تو اس پر دیت نہ ہوگی جس کو وہ قتل کرنا چاہتا تھا۔ انسان اپنے نفس کا خود مالک ہے۔ خود نفس کو نقصان دے گا تو دیت یا قصاص کسی دوسرے پر ہرگز نہ ہوگا۔
سلمہ بن اکوع سے مروی ہے کہ جب قوم نے صف بندی کی تو عامر بن اکوع کی تلوار چھوٹی تھی اس نے تلوار پکڑی تا کہ یہودی کی ٹانگ پر وار کرے اس کی تلوار نے پلٹا کھایا اور عامر کے گھٹنے پر جا لگی اور اس سے وہ مر گیا۔ شیخین نے اس کو صحیحین میں روایت کیا ہے۔
تحقیق و تخریج:
[بخاري: 4192، مسلم: 1802]
فوائد:
➊ کوئی کسی کو قتل کرنے لگے اور خود اپنی ہی تلوار یا آلہ قتل سے زخمی ہو جائے یا مر جائے تو اس پر دیت نہ ہوگی جس کو وہ قتل کرنا چاہتا تھا۔ انسان اپنے نفس کا خود مالک ہے۔ خود نفس کو نقصان دے گا تو دیت یا قصاص کسی دوسرے پر ہرگز نہ ہوگا۔
[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]