قدیم دور میں غلامی
غلامی انسانیت کی تاریخ کا ایک قدیم اور عام عمل رہا ہے۔ طاقتور اقوام مغلوب اقوام کو غلام بنا کر ان سے بے حد مشقت کرواتی تھیں۔ ان غلاموں کو قانونی طور پر ہر قسم کے ظلم و زیادتی کا نشانہ بنایا جا سکتا تھا، اور ان کی خرید و فروخت جانوروں کی طرح کی جاتی تھی۔
- اہل مصر، ہنود اور فارسیوں: ان معاشروں میں غلاموں کو کوئی حقوق حاصل نہیں تھے۔ غلطی کی صورت میں ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا تھا، حتیٰ کہ زندہ جلایا بھی جاتا تھا۔
- یونانی اور رومی تہذیب: ان معاشروں میں غلاموں کے ساتھ جانوروں جیسا برتاؤ کیا جاتا اور ان پر سخت ظلم کیا جاتا۔
- یہودیوں اور عیسائیوں کے معاشرے: ان معاشروں میں بھی غلامی کا رواج عام تھا اور غلاموں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا جاتا تھا۔
یورپ اور امریکہ میں غلامی
- 1685ء کے فرانسیسی قوانین: غلاموں پر سخت سزائیں نافذ کی گئیں، جیسے کان کاٹنا، جسم کو داغ دینا یا قتل کرنا۔
- افریقی غلاموں کا استحصال: یورپی اقوام نے افریقی لوگوں کو جانوروں کی طرح جال لگا کر پکڑا اور انہیں غلام بنا کر امریکہ منتقل کیا، جہاں ان سے زمینوں پر کام لیا جاتا تھا۔
- ریڈ انڈینز: امریکہ کے مقامی لوگوں کو بھی غلام بنا کر ان کی آزادی اور عزت چھین لی گئی۔ عورتوں کو جنسی غلام بنایا گیا۔
امریکہ اور یورپ نے ڈیڑھ سو سال پہلے تک غلامی کو جاری رکھا۔ ان کی زرعی ترقی ہزاروں افریقی غلاموں کی مشقت کی مرہونِ منت تھی۔
اسلام میں غلامی: ایک محدود جواز
غلامی کا اسلامی تصور
اسلام نے کسی آزاد انسان کو غلام بنانے کو حرام قرار دیا۔ البتہ جنگی قیدیوں کے معاملے میں غلامی کو محدود اور ضروری آپشن کے طور پر باقی رکھا گیا:
- غیر جنگی افراد (عورتیں، بچے، بوڑھے) کو غلام بنانے پر مکمل پابندی عائد کی گئی۔
- مسلمانوں کو جنگی قیدیوں کے ساتھ مختلف صورتوں میں نرمی برتنے کی اجازت دی گئی، جیسے:
- بغیر معاوضہ رہا کرنا۔
- معاوضہ لے کر آزاد کرنا۔
- قیدیوں کا تبادلہ کرنا۔
غلامی کو انسانی حقوق کے تحت محدود کرنا
اسلام نے غلاموں کے لیے ایسے قوانین بنائے کہ ان کے حقوق اور عزتِ نفس کا خیال رکھا جائے۔
- غلاموں کی آزادی کے مواقع بڑھانے کے لیے مختلف اقدامات کیے گئے۔
- ان کے ساتھ حسنِ سلوک اور معاشرتی حقوق کو یقینی بنایا گیا۔
- تاریخ میں غلاموں نے علماء، اولیاء اور حکمرانوں کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔
مغرب کا اعتراض
اسلام کے محدود غلامی کے جواز پر مغربی اقوام نے ہمیشہ اعتراض کیا، حالانکہ مغرب خود انیسویں صدی تک انسانوں کی خرید و فروخت کا دھندا کرتا رہا۔ افریقی انسانوں کو بحری جہازوں میں بھر کر لایا جاتا اور مویشیوں کی طرح منڈیوں میں بیچا جاتا تھا۔
جدید دور میں غلامی پر پابندی
اقوامِ متحدہ کے معاہدے
- اسلام نے غلامی کے محدود جواز کو اس وقت تک برقرار رکھا جب تک یہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تھا۔
- اقوامِ متحدہ کے معاہدے کے ذریعے تمام اقوام نے غلامی کے خاتمے پر اتفاق کیا، اور مسلم ممالک نے بھی اس معاہدے کو تسلیم کر لیا۔
- آئینِ پاکستان 1973 کی شق نمبر 11 کے مطابق غلامی کا خاتمہ کیا گیا اور کسی کو غلام بنانا انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔
فقہاء کا مؤقف
اسلامی فقہاء کے نزدیک غلامی اب تاریخی معاملہ ہے اور جدید حالات میں اس کے مسائل بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ البتہ اگر مستقبل میں غیر مسلم اقوام دوبارہ غلامی کا راستہ اختیار کریں تو مسلمان بھی اس محدود جواز کی طرف لوٹ سکتے ہیں۔
جدید دور میں غلامی کی شکلیں
قوموں کی غلامی
مغربی دنیا نے ظاہری طور پر غلامی ختم کر دی ہے، لیکن اس نے قوموں کو معاشی اور سیاسی غلامی میں مبتلا کر دیا۔
- آج وسائل کی لوٹ مار اور قوموں کو اقتصادی طور پر غلام بنانے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔
جنسی غلامی
جدید دور میں لونڈی کے تصور کو سیکس ورکرز کے نام سے قبول کیا گیا ہے۔
- قدیم مسلم معاشرے میں لونڈیوں کے لیے قوانین اور حقوق مقرر تھے، جبکہ موجودہ دور میں سیکس ورکرز کے لیے ایسا کوئی قانون موجود نہیں۔
- آج کی سیکس ورکرز کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے اور ان کی عزت نفس کو پامال کیا جاتا ہے۔
جنگی قیدیوں کا استحصال
مہذب دنیا کے دعوے دار مغرب نے جنگوں میں بھی قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا:
- ویت نام، عراق اور افغانستان میں امریکی فوجیوں نے ہزاروں عورتوں کو اغوا اور ریپ کیا۔
- قیدیوں کو اذیتیں دی گئیں اور ان کی تذلیل کی گئی۔
- گوانتاناموبے جیسے کیمپ ان مظالم کی واضح مثال ہیں، جنہیں آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔