غسل کا بیان
غسل جنابت کا طریقہ
غسل جنابت کرنے والے کے لیے سب سے پہلا عمل نیت کا ہونا ضروری ہے۔
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کا ارادہ فرمایا تو سب سے پہلے دونوں ہاتھ دھوئے، پھر شرمگاہ کو دھویا، پھر بایاں ہاتھ، جس سے شرمگاہ کو دھویا تھا، زمین پر رگڑا پھر اس کو دھویا، پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، پھر چہرہ دھویا، پھر کہنیوں تک ہاتھ دھوئے، پھر سر پر پانی ڈالا اور بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچایا۔ تین بار سر پر پانی ڈالا، پھر تمام بدن پر پانی ڈالا، پھر جہاں آپ نے غسل کیا تھا اس جگہ سے ہٹ کر پاؤں دھوئے۔ میں نے غسل کے بعد جسم صاف کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کپڑا دیا مگر آپ نے نہیں لیا۔‘‘
(بخاری، الغسل، باب تفریق الغسل والوضوء ۵۶۲، ومسلم، الحیض، باب صفۃ غسل الجنابۃ، ۷۱۳)
غسل میں سر کا مسح
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’کسی حدیث میں (غسل جنابت کے وضو کرتے وقت) سر کے مسح کا ذکر نہیں ہے۔‘‘
(فتح الباری، شرح صحیح البخاری)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل جنابت میں سر کا مسح نہیں کیا بلکہ اس پر پانی ڈالا۔”
امام نسائی نے اس حدیث پر باب قائم کیا:
’’جنابت کے وضو میں سر کے مسح کو ترک کرنا۔‘‘
(نسائی، الغسل، باب ترک مسح الراس فی الوضوء من الجنابۃ، حدیث ۲۲۴)
امام ابو داود فرماتے ہیں:
’’میں نے امام احمد سے سوال کیا کہ جنبی جب (غسل سے قبل) وضو کرے تو کیا سر کا مسح بھی کرے؟ آپ نے فرمایا کہ وہ مسح کس لیے کرے جب کہ وہ اپنے سر پر پانی ڈالے گا۔‘‘
ایک ہی برتن سے میاں بیوی کا غسل کرنا
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
’’میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک برتن سے نہاتے اور دونوں اس سے چلو بھر بھر کر لیتے تھے۔‘‘
(بخاری، الغسل، باب تخلیل الشعر، ۳۷۲، مسلم: الحیض باب القدر المستحب من الماء:۱۲۳)
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ نے ایک لگن سے پانی لے کر غسل کیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لگن میں بچے ہوئے پانی سے وضو کرنا چاہا تو انہوں نے عرض کی: "اے اللہ کے رسول! میں جنبی تھی۔”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’بیشک پانی جنبی (یعنی ناپاک) نہیں ہوتا۔‘‘
(أبو داود: الطہارۃ، باب: الماء لا یجنب: ۸۶)
غسل کے لیے پردہ
سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی۔ آپ غسل کر رہے تھے اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ پر کپڑے سے پردہ کیے ہوئے تھیں۔”
(بخاری، الغسل، باب التستر فی الغسل عند الناس: ۰۸۲، مسلم، الحیض، باب تستر المغتسل بثوب و نحوہ ۶۳۳)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اپنی بیوی اور لونڈی کے علاوہ ہر ایک سے اپنے ستر کی حفاظت کرو۔‘‘
صحابی نے عرض کیا: "اگر کوئی اکیلا ہو تو؟”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ زیادہ مستحق ہے کہ اس سے حیا کی جائے۔”
(ابو داؤد، الحمام، ما جاء فی التعری، ۷۱۰۴)
سیدنا یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا جو ننگا نہا رہا تھا۔ آپ نے خطبہ دیا، اللہ کی حمد و ثناء کی، اور فرمایا:
"بے شک اللہ تعالیٰ حیا کرنے والا ہے، وہ حیا اور پردہ کو پسند کرتا ہے۔ پس جب تم غسل کرو تو پردہ کرو۔”
(ابو داؤد، الحمام، النھی عن التعری، ۲۱۰۴)
تنہائی میں ننگے غسل کا جواز
’’بنی اسرائیل ننگے ہو کر اکٹھے نہاتے تھے جبکہ سیّدنا موسیٰ علیہ السلام اکیلے (ننگے) نہاتے تھے۔‘‘
(بخاری، الغسل، من اغتسل عریاناً ۸۷۲، مسلم، الحیض، جواز الاغتسال عریاناً فی الخلوۃ، ۹۳۳)
ایک ہی غسل سے کئی بیویوں سے مباشرت
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی رات میں ایک غسل کے ساتھ اپنی بیویوں کے پاس چکر لگاتے تھے۔”
(مسلم، الحیض، جواز نوم الجنب واستحباب: ۹۰۳)
سیدنا ابو رافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات میں اپنی مختلف بیویوں کے پاس گئے اور ہر بیوی کے قریب جاتے ہوئے غسل کیا۔
میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ ایک ہی غسل کر لیتے (تو کافی نہ تھا)؟
آپ نے فرمایا:
"یہ زیادہ طہارت اور پاکیزگی کا باعث ہے۔”
(ابو داؤد، الطھارۃ، الوضوء لمن اراد ان یعود، ۹۱۲)
غسل جنابت کا وضو ہی کافی ہوتا ہے
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غسل (جنابت) کے بعد وضو نہیں کرتے تھے۔”
(ترمذی، الطھارۃ، باب الوضوء بعد الغسل، حدیث: ۷۰۱، ابو داؤد، الطھارۃ، باب فی الوضوء بعد الغسل، حدیث: ۰۵۲)
(امام حاکم، ذہبی اور ترمذی نے اسے صحیح کہا۔)
یعنی آپ غسل کے آغاز میں وضو کر لیتے اور اسی کو کافی جانتے تھے۔ تاہم اگر غسل کے دوران شرمگاہ کو ہاتھ لگا ہو تو دوبارہ وضو کرنا چاہیے۔
جمعہ کے دن غسل
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں:
"جب تم میں سے کوئی شخص نماز جمعہ کے لیے آئے تو اسے غسل کرنا چاہیے۔”
(بخاری: ۷۷۸، مسلم: ۴۴۸)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
"ہر مسلمان پر حق ہے کہ ہفتے میں ایک دن (جمعہ کو) غسل کرے۔ اس میں اپنا سر اور بدن دھوئے۔”
(بخاری، الجمعۃ، باب ھل علی من لم یشھد الجمعۃ غسل، ۷۹۸، مسلم، الجمعہ، ۹۴۸)
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"جمعہ کے دن ہر بالغ مسلمان پر نہانا واجب ہے۔”
(بخاری، الجمعہ، باب فضل الغسل یوم الجمعۃ، ۹۷۸، مسلم، الجمعۃ، باب وجوب غسل الجمعۃ علی کل بالغ من الرجال، ۶۴۸)
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن تاخیر سے آنے پر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
"کیا تم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے نہیں سنا کہ جب تم میں سے کوئی شخص جمعہ کے لیے آئے تو اسے چاہیے کہ وہ غسل کرے؟”
(صحیح بخاری، الجمعہ، فضل الجمعہ، ۲۸۸، مسلم: ۵۴۸)
سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"جمعہ کے دن جس نے وضو کیا اس نے اچھا کیا، اور جس نے غسل کیا تو غسل افضل ہے۔”
(ابو داؤد، الرخصۃ فی ترک الغسل یوم الجمعۃ، ۴۵۳، ترمذی، الجمعۃ، الوضوء یوم الجمعۃ، ۷۹۴)
یہ حدیث بتاتی ہے کہ غسل جمعہ سنت مؤکدہ ہے۔
میت کو غسل دینے والا بھی غسل کرے
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"جو شخص مُردے کو غسل دے، اسے چاہیے کہ وہ خود بھی نہائے۔”
(ابو داؤد، الجنائز، باب فی الغسل من غسل المیت، ۱۶۱۳، ترمذی، الجنائز ۳۹۹، ابن ماجہ: ۳۶۴۱)
(ابن حبان: ۱۵۷، ابن حزم: ۲/۳۲ – صحیح قرار دیا)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
"تم پر میت کو غسل دینے سے کوئی غسل واجب نہیں کیونکہ تمہاری میت طاہر مرتی ہے نجس نہیں، لہٰذا تمہیں ہاتھ دھو لینا ہی کافی ہے۔”
(بیہقی ۱/۶۰۳، حاکم، ذہبی – صحیح، ابن حجر – حسن)
ان دونوں احادیث سے ثابت ہوا کہ میت کو غسل دینے والے کے لیے غسل کرنا مستحب ہے، واجب نہیں۔
نومسلم کا غسل کرنا
سیدنا قیس بن عاصم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"جب وہ مسلمان ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ پانی اور بیری کے پتوں کے ساتھ غسل کریں۔”
(ابوداود، الطھارۃ، باب فی الرجل یسلم فیؤمر بالغسل، ۵۵۳، ترمذی، ابواب السفر، باب ما ذکر فی الاغتسال عندما یسلم الرجل، ۵۰۶)
(امام نووی: حسن، ابن خزیمہ ۱/۶۲ حدیث ۴۵۱، ابن حبان: ۴۳۲ – صحیح)
عیدین کے دن غسل
حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"عیدین کے دن غسل کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث ثابت نہیں، البتہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا عمل ہے۔ بعض اہل علم اسے غسل جمعہ پر قیاس کرتے ہوئے مستحب سمجھتے ہیں۔”
نافع فرماتے ہیں:
"سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما عید الفطر کے دن غسل کیا کرتے تھے۔”
(موطا امام مالک ۱/۷۱)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول:
"جمعہ، عرفہ، قربانی اور عید الفطر کے دن غسل کرنا چاہیے۔”
(بیہقی ۳/۸۷۲)
احرام کا غسل
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"حج کا احرام باندھتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل فرمایا۔”
(ترمذی، الحج، باب ماجاء فی الاغتسال عند الاحرام: ۰۳۸ – امام ترمذی: حسن)
مکہ میں داخل ہونے کا غسل
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوتے وقت غسل کرتے تھے۔”
(بخاری، الحج، باب الاغتسال عند دخول مکۃ، ۳۷۵۱، مسلم، الحج، باب استحباب المبیت بذی طوی عند ارادۃ دخول مکۃ: ۹۵۲۱)
مسواک کا بیان
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو تہجد کے لیے اٹھتے تو مسواک کرتے۔”
(بخاری، الوضوء، باب السواک، حدیث ۵۴۲، مسلم، الطھارۃ، باب السواک، ۵۵۲)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
"نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم رات کو ہر دو رکعت کے بعد مسواک کرتے۔”
(مسلم: الطہارۃ، باب: السواک: ۶۵۲)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں:
"مسواک منہ کے لیے طہارت کا سبب اور ﷲ کی رضا مندی کا ذریعہ ہے۔”
(نسائی، الطھارۃ، باب الترغیب فی السواک حدیث ۵ – امام نووی اور ابن حبان: صحیح)
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت:
"جب بھی میرے پاس جبرائیل آتے تو مجھے مسواک کرنے کا حکم کرتے تھے۔ مجھے خطرہ لاحق ہوا کہ میں اپنے منہ کی اگلی جانب نہ چھیل لوں۔”
(السنن الکبری للبیہقی ۷/۹۴ – امام بخاری: حسن)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت:
"اگر میں اپنی امت کے لیے مشکل نہ جانتا تو ہر نماز سے پہلے مسواک کرنے کا حکم دیتا۔”
(بخاری، الجمعۃ، باب السواک یوم الجمعۃ، ۷۸۸، مسلم، الطھارۃ، باب السواک: ۲۵۲)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے لیے پسند فرمایا کہ وہ ہر فرض نماز سے پہلے مسواک کریں، لیکن مشقت کے باعث اسے فرض قرار نہیں دیا۔
اللھم صل علی محمد و علی آل محمد۔