غریب پروری یا معاشی فلاح؟
تحریر : زاہد مغل

اعتراض: قربانی پر پیسے ضائع کرنے کے بجائے یہی اگر کسی غریب کو دے دیے جائیں تو کئی لوگوں کا بھلا ہو جائے۔

جواب:

قربانی جیسے اہم مذہبی عمل پر معاشی اعتراضات اکثر پیش کیے جاتے ہیں، حالانکہ عبادات کو خالصتاً معاشی زاویے سے دیکھنا مناسب نہیں کیونکہ اس سے عبادت کی روح متاثر ہوتی ہے۔ تاہم، جو لوگ قربانی پر اعتراض کرتے ہیں اور اسے پیسے کا ضیاع سمجھتے ہیں، ان کے لیے چند معاشی حقائق بیان کیے جا سکتے ہیں۔

فارمنگ اور کیٹل انڈسٹری کی ترقی:

قربانی کے نتیجے میں فارمنگ اور کیٹل انڈسٹری کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ چھوٹے کسان اور غریب طبقہ اس عمل سے وابستہ ہوتا ہے، جو قربانی کے دنوں میں اپنے جانوروں کی فروخت سے بہتر منافع حاصل کرتا ہے۔ یہ ایک ایسی معاشی سرگرمی ہے جو دولت کی منصفانہ تقسیم میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔

غربت کا علاج پیسے بانٹنا نہیں:

غربت کا حقیقی حل پیسے بانٹنا نہیں، بلکہ معاشی سرگرمیوں کو بڑھانا ہے۔ قربانی اس مقصد کو پورا کرتی ہے، کیونکہ اس عمل کے دوران مختلف صنعتوں اور کاروباری حلقوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔

غریبوں میں گوشت کی تقسیم:

قربانی کے گوشت کا ایک بڑا حصہ غریب اور مستحق افراد میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایسے لوگ جو پورا سال گوشت نہیں کھا پاتے، انہیں عیدالاضحی پر گوشت ملتا ہے، جو ان کے لیے ایک نعمت ہوتی ہے۔

لیڈر پراڈکٹس اور روزگار:

قربانی کے جانوروں کی کھالیں لیڈر پراڈکٹس میں تبدیل ہوتی ہیں، جس سے ہزاروں لوگوں کا روزگار وابستہ ہوتا ہے۔ یہ ایک بڑی صنعت ہے جو قربانی کے عمل سے براہ راست فائدہ اٹھاتی ہے۔

ذرائع نقل و حمل اور آمدنی:

جانوروں کی منڈیوں تک ترسیل اور ان کی خرید و فروخت میں نقل و حمل کے ذرائع سے منسلک افراد بھی فائدہ اٹھاتے ہیں، جو اس عمل کو مزید معاشی استحکام فراہم کرتا ہے۔

معاشی پہیہ کی تیز رفتاری:

قربانی کے نتیجے میں جو رقم خرچ ہوتی ہے، وہ معاشی پہیے کو تیز کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ یہ رقم مختلف طبقوں میں تقسیم ہوتی ہے اور ایک قسم کی معاشی سرگرمی پیدا کرتی ہے جو غریب اور متوسط طبقے کے لیے نفع بخش ہوتی ہے۔

دوسری بے مصرف خرچیاں:

ان لوگوں کو کبھی پیزوں، برگروں اور دیگر فضول خرچیوں پر اعتراض نہیں ہوتا، جو امیر طبقہ روزانہ کھربوں روپے کی صورت میں خرچ کرتا ہے۔ اسی طرح، مغربی دنیا میں پالتو جانوروں کے کھلونوں اور کاسمیٹکس پر کھربوں ڈالر ضائع کیے جاتے ہیں، مگر اس پر کوئی اعتراض نہیں اٹھتا۔ ان لوگوں کا اصل مسئلہ غریب پروری نہیں، بلکہ مذہب بیزاری ہے، جو انہیں قربانی جیسے مذہبی عمل کے خلاف بولنے پر اکساتی ہے۔

نتیجہ:

قربانی نہ صرف ایک مذہبی فریضہ ہے بلکہ معاشی طور پر بھی غریبوں اور متوسط طبقے کے لیے فائدہ مند ہے۔ اس پر اعتراض کرنے والے دراصل معاشی حقیقتوں سے ناواقف ہوتے ہیں، یا پھر وہ مذہب بیزاری کے جذبات سے متاثر ہو کر تنقید کرتے ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے