عیش و عشرت اور اسراف سے قوموں کے زوال کی حقیقت
تحریر: خالد سیف اللہ رحمانی

لکژری: تہذیبوں کو کھانے والی دیمک

عیش و عشرت، طاؤس و رباب اور اسراف دنیا کی بڑی بڑی تہذیبوں اور حکومتوں کو برباد کرچکے ہیں۔ روم، یونان، ہسپانیہ، مغل اور ترک شہنشاہیت جیسی عظیم سلطنتیں لکژری، آرام طلبی اور سستی کی وجہ سے زمین بوس ہوئیں۔

رومی سلطنت

چھ براعظموں پر محیط سلطنت عیش و عشرت اور ناانصافی کے باعث تاریک کے کوڑے دان کا حصہ بن گئی۔

سکندر اعظم کی سلطنت

دنیا کے 51 ملکوں پر حکمرانی کرنے والی سلطنت ظلم اور ناانصافی کے باعث مٹ گئی۔

ایران کے بادشاہ کسریٰ

آدھی دنیا پر حکمرانی کرنے والا کسریٰ بھی لکژری، اسراف اور ظلم کا شکار ہوا۔

مغل سلطنت

چھ سو سال تک بھارت پر حکمرانی کرنے والے مغل بھی طاؤس و رباب کے شوق میں تباہ ہوگئے۔ ہندوستان کے آخری حکمران نے اپنی زندگی رنگون کے قید خانے میں گزاری اور وفات کے بعد دہلی میں دو گز زمین تک نصیب نہ ہوئی۔

سقوطِ اندلس: مسلمانوں کی عبرتناک داستان

مسلمان اندلس پر فخر کرتے ہیں، لیکن لکژری اور اسراف نے اس عظیم تہذیب کو بھی برباد کردیا۔

قرطبہ کی ترقی

جب یورپ جہالت میں ڈوبا ہوا تھا، قرطبہ میں صاف ستھری گلیاں، ڈھائی لاکھ مکانات، 80 ہزار دکانیں اور 1600 شاندار مساجد تھیں۔

زوال کا آغاز

28 فروری 1492 کو آخری مسلم بادشاہ ابو عبداللہ محمد نے قصرِ الحمرا کی چابیاں عیسائی بادشاہ فردیننڈ کے حوالے کیں اور مراکش جا کر بھیک مانگنے پر مجبور ہوا۔

نتیجہ

سقوط کے پانچ سال بعد، 1497 تک اسپین میں کوئی مسلمان باقی نہ بچا۔ جو رہ گئے، انہوں نے عیسائیت قبول کی، لیکن بالآخر ان کا نام و نشان بھی مٹ گیا۔

رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات اور امت مسلمہ کا حال

فقر و عیش کا خوف

رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں معرکہ آرائیاں اور فقر و فاقہ کی آزمائشیں دیکھنے کو ملتی ہیں، لیکن اسلام کی طاقت اسی جدوجہد میں پنہاں تھی۔

آپ ﷺ نے فرمایا:

"خدا کی قسم! مجھے تم پر فقر و محتاجی کا خوف نہیں ہے؛ لیکن میں ڈرتا ہوں کہ تم پر دنیا کی نعمتیں بچھادی جائیں گی اور تم ان کے پیچھے بھاگنے لگو گے اور غفلت میں مبتلا ہوجاؤ گے۔”
(بخاری، حدیث نمبر: 6425)

علامہ اقبال کا پیغام

اقبال نے خوب کہا:

آ، تجھ کو بتاؤں میں تقدیرِ اُمم کیا ہے
شمشیر و سنان اول، طاؤس و رباب آخر

یعنی عروج تلوار اور محنت سے آتا ہے، لیکن زوال عیش و عشرت اور رقص و سرود میں غرق ہونے سے۔

غیر مسلم اقوام کی ترقی: ایک غلط فہمی

سائنسی ترقی اور تہذیب کا زوال

یہ مفروضہ کہ سائنسی ترقی تہذیب کی بقا کا پیمانہ ہے، غلط ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اکثر تہذیبوں میں سائنسی ترقی اُس وقت ہوئی جب وہ تہذیب زوال پذیر تھیں۔

بابلی تہذیب

عظیم سائنسی کارنامے اس وقت منظر عام پر آئے جب تہذیب ختم ہو رہی تھی۔

یونانی تہذیب

اقلیدس اور بطلیموس جیسے عظیم سائنسدان اُس وقت ابھرے جب یونان کا سیاسی نظام ختم ہو چکا تھا۔

اسلامی تہذیب

اسلامی سائنس ابتدا ہی میں عروج پر تھی۔ جابر بن حیان اور ابن سینا جیسے عظیم سائنسدان اسلامی تہذیب کے آغاز میں سامنے آئے۔

اسلامی سلطنتیں (عثمانی، صفوی، مغلیہ) سیاسی، عسکری اور معاشی طور پر مستحکم تھیں لیکن بعد میں ان کی تخلیقی توانائیاں فنون اور دیگر شعبوں کی طرف مڑ گئیں۔

اسلامی تہذیب اور سائنس کا تناظر

اسلامی تہذیب کو سائنس کے زوال کے تناظر میں دیکھنا غیر مناسب ہے۔ ہر تہذیب کی تخلیقی توانائی مختلف ادوار میں مختلف میدانوں میں نظر آتی ہے۔ اسلامی تہذیب میں سائنس کی ترقی کو اسلامی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے، تاکہ یہ تہذیب دوبارہ اپنی کھوئی ہوئی عظمت حاصل کرسکے۔

اہم نکات:

تخلیقی فعالیت کا رخ بدلنا: اسلامی تہذیب کی توانائیاں آہستہ آہستہ فلسفہ، ادب، فن تعمیر اور تصوف کی طرف منتقل ہو گئیں۔

اسلامی فنون کی عظمت: تاج محل، شاہی مسجد اصفہان، اور مسجد سلطان احمد جیسے عظیم شاہکار اسلامی تہذیب کی تخلیقی طاقت کے ثبوت ہیں۔

خلاصہ

قوموں کے عروج و زوال کا راز عیش و عشرت اور جدوجہد میں پوشیدہ ہے۔ مسلمانوں کو اپنی تاریخ سے سبق لینا ہوگا اور عیش و عشرت کے بجائے جدوجہد، علم اور دین کی بنیاد پر ترقی کی راہیں تلاش کرنی ہوں گی۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے