عید کے بعد مسلمان عمومی طور پر ایک دوسرے سے مصافحہ (ہاتھ ملانا) اور معانقہ (گلے ملنا) کرتے ہیں، لیکن کیا یہ عمل دین میں ثابت ہے؟ اس کا جائزہ ہم قرآن، صحیح احادیث، اور صحابہ کرام کے عمل کی روشنی میں لیں گے۔
➊ قرآن سے دلیل
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَإِذَا حُيِّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ حَسِيبًا
(سورۃ النساء: 86)
(اور جب تمہیں کوئی سلام کرے تو تم اس سے بہتر انداز میں جواب دو یا کم از کم اسی طرح لوٹا دو، بے شک اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔)
اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ سلام اور خیر سگالی کے اظہار کی اجازت ہے، لیکن اس میں معانقے (گلے ملنے) کا ذکر نہیں۔
➋ احادیث سے دلائل
نبی کریم ﷺ کا معمول:
نبی کریم ﷺ کا عمومی معمول یہ تھا کہ جب صحابہ کرام سے ملاقات ہوتی تو وہ مصافحہ (ہاتھ ملانا) فرماتے تھے، لیکن عید کے دن خاص طور پر معانقہ کرنے کا کوئی صحیح اور صریح ثبوت نہیں ملتا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"كان أصحاب النبي ﷺ إذا تلاقوا تصافحوا، وإذا قدموا من سفر تعانقوا.”
(نبی کریم ﷺ کے صحابہ جب ایک دوسرے سے ملاقات کرتے تو مصافحہ کرتے، اور جب کسی سفر سے واپس آتے تو معانقہ کرتے۔)
(سنن الطبراني، المعجم الأوسط: 6247، صحیح)
یہ حدیث اس بات کو واضح کرتی ہے کہ گلے ملنا نبی کریم ﷺ اور صحابہ کا عمومی معمول نہیں تھا، بلکہ یہ خاص طور پر سفر سے واپسی پر کیا جاتا تھا۔
معانقے کے بارے میں دیگر احادیث:
حضرت جریر بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"بايعت النبي ﷺ فاشترط عليّ النصح لكل مسلم، فكنت إذا لقيت مسلماً صافحته وأخذت بيده، فوجدت برد كفه.”
(میں نے نبی کریم ﷺ سے بیعت کی، اور آپ نے ہر مسلمان کے لیے خیر خواہی کی شرط رکھی۔ چنانچہ میں جب کسی مسلمان سے ملتا، تو میں اس سے مصافحہ کرتا اور اس کا ہاتھ تھام لیتا۔)
(صحیح البخاری: 2560)
یہ حدیث بھی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ مصافحہ کرنا مسنون ہے، لیکن معانقہ کا ذکر نہیں آیا۔
➌ اجماع صحابہ کرام
عید کے دن صحابہ کرام کا مبارک باد دینا:
حضرت جبیر بن نفیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"كان أصحاب النبي ﷺ إذا التقوا يوم العيد يقول بعضهم لبعض: تقبل الله منا ومنك.”
(نبی کریم ﷺ کے صحابہ جب عید کے دن ایک دوسرے سے ملتے تو کہتے: "اللہ ہم سے اور تم سے (عبادت) قبول فرمائے۔”)
(المحدث ابن حجر في فتح الباري: 2/446، حسن)
یہ حدیث ثابت کرتی ہے کہ عید کے دن مبارک باد دینا جائز ہے، لیکن گلے ملنے یا معانقہ کرنے کا ذکر نہیں۔
➍ معانقے کے خلاف دلائل اور ان کا جائزہ
جو علماء عید کے دن معانقہ کرنے کے قائل نہیں، ان کے دلائل:
- معانقہ ایک مخصوص عمل ہے جو صرف خاص مواقع پر ثابت ہے، جیسے سفر سے واپسی پر۔
- نبی کریم ﷺ اور صحابہ سے عید کے دن خاص طور پر معانقہ کرنا ثابت نہیں۔
- اگر کوئی عمل نبی کریم ﷺ سے ثابت نہ ہو، اور اسے دین میں لازم سمجھا جائے، تو وہ بدعت (نیا طریقہ) شمار ہوگا۔
یہ دلائل درست ہیں، لیکن اگر معانقہ کو بطور دین یا لازم نہ سمجھا جائے، بلکہ محبت اور خوشی کے اظہار کے طور پر کیا جائے، تو اسے بدعت نہیں کہا جا سکتا۔
➎ معانقہ کرنے کے قائلین کا مؤقف
بعض علماء کے نزدیک، اگر معانقہ محبت اور خوشی کے اظہار کے طور پر ہو، اور اسے لازم یا مسنون نہ سمجھا جائے، تو یہ جائز ہو سکتا ہے۔
مشہور تابعی امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"لا بأس بالمعانقة إذا لم تكن على وجه التدين.”
(اگر معانقہ عبادت کے طور پر نہ ہو، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔)
(مسائل الإمام أحمد: 2004)
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ معانقہ منع نہیں، لیکن اسے دین کا حصہ نہ بنایا جائے۔
نتیجہ
- عید کے دن گلے ملنے کا کوئی صریح حکم قرآن یا صحیح حدیث میں نہیں ملتا۔
- نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام سے عید کے دن مصافحہ (ہاتھ ملانا) اور دعا (تقبل الله منا ومنكم) ثابت ہے۔
- معانقہ صرف سفر سے واپسی پر نبی کریم ﷺ کے صحابہ سے ثابت ہے۔
- اگر کوئی معانقہ محبت اور خوشی کے اظہار کے لیے کرتا ہے، نہ کہ دین کا لازم حصہ سمجھ کر، تو بعض علماء اسے جائز قرار دیتے ہیں۔
- اگر کوئی شخص معانقہ نہ کرنا چاہے تو اسے برا نہیں سمجھنا چاہیے، کیونکہ یہ سنت سے ثابت نہیں۔
بہترین طریقہ:
عید کے دن مصافحہ کرنا اور دعا دینا مسنون عمل ہے۔
اگر کوئی معانقہ کرے تو اسے برا نہ سمجھا جائے، لیکن اسے ضروری عمل نہ بنایا جائے۔
اگر کوئی نہ کرے تو اسے بھی برا نہ سمجھا جائے، کیونکہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کا عمل یہی تھا۔
خلاصہ
مسنون: "تقبل الله منا ومنكم” کہنا اور مصافحہ کرنا۔
غیر ثابت: عید کے دن معانقہ (گلے ملنا) بطور عبادت۔
جائز: اگر کوئی محبت سے کرے اور اسے لازم نہ سمجھے، تو بعض علماء کے نزدیک حرج نہیں۔