نبی کریم ﷺ کی تاریخ ولادت
نبی کریم ﷺ کی تاریخ ولادت کے حوالے سے مؤرخین کے درمیان مختلف آراء پائی جاتی ہیں، لیکن کسی ایک تاریخ پر مکمل اتفاق نہیں ہوا۔ راجح قول کے مطابق آپ ﷺ ۹ ربیع الاول، بروز سوموار، صبح کے وقت پیدا ہوئے۔ اس قول کو معروف مصری ماہر فلکیات محمود پاشا فلکی اور مشہور ہندوستانی سیرت نگار مولانا صفی الرحمن مبارکپوری نے بھی ترجیح دی ہے۔
(ماخذ: "نور اليقين في سيرة سيد المرسلين” ص 9؛ "الرحيق المختوم” ص 41)
عید میلاد النبی منانے کی شرعی حیثیت
عید میلاد النبی منانے کا جائزہ
عید میلاد النبی کے نام پر خوشی منانا، جشن کرنا یا کسی خاص عبادت کا اہتمام کرنا بدعت اور غیر شرعی عمل ہے۔ اس کی بنیاد نہ نبی کریم ﷺ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین عظام، اور نہ ہی کسی محدث کے عمل سے ثابت ہے۔ اگر یہ عمل اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہوتا، تو نبی کریم ﷺ خود اسے اپناتے اور اپنی امت کو بھی اس کا حکم دیتے۔
قرآن کریم کی دلیل
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’إِنَّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ‘‘
(الحجر: 9)
’’بے شک ہم نے نصیحت (قرآن) نازل کی ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔‘‘
جب عید میلاد النبی کا تصور دین اسلام میں موجود نہیں ہے، تو اسے دین کا حصہ بنانا درست نہیں۔ دین اسلام میں اللہ تعالیٰ کی عبادت اور قرب حاصل کرنے کا معین طریقہ وہی ہے جو رسول اللہ ﷺ نے سکھایا ہے۔ اپنی طرف سے کوئی نیا طریقہ ایجاد کرنا اللہ کے دین میں اضافہ شمار ہوگا، جو کہ ممنوع اور گستاخی کے زمرے میں آتا ہے۔
تکمیل دین کی دلیل
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’ٱلۡيَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِينَكُمۡ وَأَتۡمَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ نِعۡمَتِي‘‘
(المائدہ: 3)
’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی۔‘‘
اگر عید میلاد النبی منانے کا تعلق دین کامل سے ہوتا، تو یہ عمل نبی کریم ﷺ کی حیات میں موجود ہوتا۔ نبی کریم ﷺ کے بعد اس کا ایجاد دین میں بدعت کے زمرے میں آتا ہے، جو دین اسلام کی تکمیل کے نظریے کے خلاف ہے۔
نبی کریم ﷺ کی محبت اور تعظیم
نبی کریم ﷺ سے محبت ایمان کا لازمی حصہ ہے۔ آپ ﷺ کی تعظیم اور محبت کے جذبات کو بیدار کرنا یقینی طور پر دین کا حصہ ہیں، لیکن ان جذبات کے اظہار کا طریقہ وہی ہونا چاہیے جو نبی کریم ﷺ نے سکھایا۔ عید میلاد النبی کو دین میں شامل کرنے کی کوشش، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کے بغیر، بدعت ہے۔
حدیث کی دلیل
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
’’جو شخص ہمارے دین میں کوئی نیا کام ایجاد کرے جس کا دین میں حکم نہ ہو، وہ مردود ہے۔‘‘
(صحیح بخاری: حدیث 2697، صحیح مسلم: حدیث 1718)
عید میلاد النبی کی محافل اور ان میں پائی جانے والی خرابیاں
- غیر شرعی اعمال: عید میلاد کی محفلوں میں اکثر غیر شرعی اعمال کیے جاتے ہیں، جیسے گانے بجانے اور ایسی نعتیں پڑھنا جن میں غلو سے کام لیا جاتا ہے۔
- غلو اور بدعات: ان محفلوں میں رسول اللہ ﷺ کی شان میں مبالغہ آرائی کی جاتی ہے، حتیٰ کہ
نعوذ باللہ
، آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ سے بھی بڑا ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ - غیر شرعی قیام: میلاد کی محفل میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی روح تشریف لاتی ہے، اور اس کے احترام میں سب کھڑے ہوتے ہیں۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ اپنی حیات میں لوگوں کے کھڑے ہونے کو ناپسند فرماتے تھے۔
(جامع الترمذی: حدیث 2755، 2754) - اختلاط: ان محفلوں میں مردوں اور عورتوں کا اختلاط، اور دیگر غیر شرعی امور انجام پاتے ہیں، جو دین میں فساد پیدا کرتے ہیں۔
عید میلاد النبی کا آغاز
عید میلاد منانے کی بدعت کا آغاز پہلی تین بہترین صدیوں کے بعد ہوا۔ یہ عمل دین اسلام کے خالص اصولوں کے خلاف ہے اور امت میں انتشار اور بدعات کو فروغ دیتا ہے۔
خلاصہ
عید میلاد النبی منانے کا کوئی شرعی جواز نہیں ہے۔ یہ عمل بدعت ہے اور دین میں غیر ضروری اضافے کا سبب بنتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی محبت اور تعظیم کے اظہار کے لیے ان طریقوں کو اپنانا چاہیے جو شریعت نے واضح طور پر بیان کیے ہیں۔