عید اور جمعہ کے اجتماع کی صورت میں نماز ظہر کا حکم
تحریر: عمران ایوب لاہوری

بروز جمعہ عید ہو تو کیا ظہر پڑھی جائے گی
اس کی بھی ضرورت نہیں۔
امام عطاء سے مروی ہے کہ :
اجتمع يوم جمعة ويوم فطر على عهد ابن الزبير فقال عيدان اجتمعا فى يوم واحد فجمعهما جميعا فصلاهما ركعتين بكرة لم يزدد عليهما حتى صلى العصر
”حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ایک مرتبہ جمعہ اور عید الفطر ایک ہی دن میں اکٹھے ہو گئے تو انہوں نے کہا کہ ایک ہی دن میں دو عیدیں جمع ہو گئی ہیں ، پھر انہوں نے ان دونوں کو اس طرح اکٹھے جمع کیا کہ صبح کے وقت ان دونوں نمازوں کے لیے دو رکعت نماز ادا کر لی اس سے زائد کچھ نہ پڑھا تا آنکہ نماز عصر ادا کی ۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 947 أيضا ، أبو داود: 1072]
(شوکانیؒ) اس حدیث کا ظاہری مفہوم یہی ہے کہ انہوں نے نماز ظہر نہیں ادا کی اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یقیناً اگر کسی وجہ سے جمعہ ساقط ہو جائے تو جس سے ساقط ہوا ہے اس پر نماز ظہر کی ادائیگی بھی واجب نہیں جیسا کہ امام عطاءؒ بھی اسی کے قائل ہیں اور ظاہر یہ ہے کہ یہ بات وہی لوگ کہتے ہیں جو جمعہ کو اصل قرار دیتے ہیں۔ اور آپ کو اس بات کا علم ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بروز جمعہ بندوں پر جو فرض ہے وہ محض نماز جمعہ ہی ہے لٰہذا کسی عذر یا بغیر کسی عذر کے نماز جمعہ چھوڑنے والے شخص پر نماز ظہر کو واجب قرار دینے کے لیے دلیل کی ضرورت ہے اور میرے علم کے مطابق ایسی کوئی صحیح دلیل موجود نہیں ہے۔
[نيل الأوطار: 578/2 ، معنا و مفهوما]
➊(امیر صنعانیؒ )  یہ بات مخفی نہیں ہے کہ عطاءؒ نے یہ خبر دی ہے کہ حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ نماز جمعہ کے لیے نہیں نکلے لیکن محض اتنی بات اس میں نص قطعی کی حیثیت نہیں رکھتی کہ انہوں نے گھر میں بھی نماز ادا نہیں کی اس لیے بالجزم یہ کہنا کہ حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ کا موقف بھی یہی تھا کہ نماز ظہر ضروری نہیں اس احتمال کی وجہ سے صحیح نہیں کہ عین ممکن ہے کہ انہوں نے وہ نماز گھر میں ہی پڑھ لی ہوگی۔
➋ بلکہ اس کی مزید تائید امام عطاءؒ نے اس قول سے بھی ہوتی ہے کہ انهم صلوا وحدانا ”لوگوں نے اکیلے اکیلے نماز ادا کر لی.“ اور (اس کے برخلاف) بالاتفاق نماز جمعہ جماعت کے ساتھ ہی درست ہے (لٰہذا انہوں نے جمعہ نہیں پڑھا بلکہ صرف نماز ظہر ہی اکیلے ادا کر لی )۔
➌ اور یہ کہنا کہ جمعہ کے دن نمازِ جمعہ اصل ہے اور نمازِ ظہر کا بدل ہے مرجوح قول ہے بلکہ اصل فرض جو اسراء کی رات مقرر کیا گیا وہ ظہر ہی ہے اور جمعہ کی فرضیت متاخر ہے پھر (یہ مسئلہ بھی محتاج بیان نہیں ہے کہ ) جب جمعہ رہ جائے تو نماز ظہر پڑھنا اجماعا واجب ہے تو (ثابت ہوا کہ ) جمعہ ظہر کا بدل ہے (نہ کہ ظہر جمعہ کا بدل ہے ) ۔
[سبل السلام: 646/2]
(شمس الحق عظیم آبادیؒ) انہوں نے امیر صنعانیؒ کے قول کو درست قرار دیا ہے۔
[عون المعبود: 288/3]
(راجح) عید کے دن جمعہ کی رخصت ہے نماز ظہر کی نہیں ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1