عیدُالاضحیٰ کے گوشت کی تقسیم: کیا تین حصے لازمی ہیں؟ – تحقیقی مضمون
مرتب کردہ : توحید ڈاٹ کام

1) تمہید

قربانی کا مقصد ﷲ کی رضا اور حاجت مندوں کی کفالت ہے۔ شرعاً صرف اتنا لازم ہے کہ قربانی کے گوشت میں سے کچھ خود بھی کھایا جائے اور کچھ صدقہ کیا جائے؛ برابر تین حصوں کا کوئی قطعی حکم نہیں۔

2) قرآنی اصول

  • سورۂ حج، آیت 28

﴿فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ﴾ “اس (قربانی) کا گوشت خود بھی کھاؤ اور محتاج مفلس کو بھی کھلاؤ۔”

  • سورۂ حج، آیت 36

﴿فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ﴾اس میں سے خود کھاؤ اور اُس کو بھی دو جو سوال نہ کرے اور اسے بھی جو سامنے آکر مانگ لے۔”

ان دونوں آیات میں مقدار متعین نہیں؛ صرف کھانے اور کھلانے کی تاکید ہے۔

3) سنتِ نبوی ﷺ

حدیث (صحیح مسلم 1971):

«إِنَّمَا نَهَيْتُكُمْ مِنْ أَجْلِ الدَّافَّةِ؛ فَكُلُوا وَادَّخِرُوا وَتَصَدَّقُوا»

ترجمہ: “میں نے (گزشتہ سال) تمہیں ضرورت مندوں کی آمد کے سبب (گوشت ذخیرہ کرنے سے) روکا تھا؛ اب تم کھاؤ، ذخیرہ بھی رکھو اور صدقہ بھی کرو۔”

یہاں تین افعال ذکر ہیں، لیکن “تین برابر حصے” کا تعین نہیں۔

4) آثارِ صحابہؓ 

  1. عبداللّٰہ بن عباسؓ کا عمل

    «يُطْعِمُ أَهْلَ بَيْتِهِ الثُّلُثَ، وَيُطْعِمُ فُقَرَاءَ جِيرَانِهِ الثُّلُثَ، وَيَتَصَدَّقُ عَلَى السُّؤَّالِ بِالثُّلُثِ»

    ترجمہ: “وہ (قربانی کا) ایک تہائی اپنے گھر والوں کو کھلاتے، ایک تہائی فقیر پڑوسیوں کو دیتے، اور ایک تہائی مانگنے والوں پر صدقہ کرتے تھے۔”
    (أبو موسى الأصفہانی، الوظائف)

  2. عبداللّٰہ بن عمرؓ کی وصیت

    «الضَّحَايَا وَالْهَدَايَا ثُلُثٌ لَكَ، وَثُلُثٌ لِأَهْلِكَ، وَثُلُثٌ لِلْمَسَاكِينِ»

    ترجمہ: “قربانی اور ہَدِی کا ایک تہائی تمہارے لیے، ایک تہائی تمہارے گھر والوں کے لیے، اور ایک تہائی مساکین کے لیے ہے۔”
    (ابن قدامہ، المغنی 9/488)

یہ تقسیم صحابہ کا پسندیدہ طریقہ ہے؛ فرض نہیں۔

5) فقہی موقف کا خلاصہ

  • حنفیہ اور حنابلہ: تین تہائی تقسیم کرنا مستحب ہے؛ کم یا زیادہ صدقہ جائز۔ دلیل آثارِ ابن عباس و ابن عمر ہیں۔

  • شافعیہ: آدھا خود، آدھا صدقہ کرنا کافی؛ قرآن کی عمومیت پر اعتماد۔

  • عصرِ حاضر کے مفتیان (مثلاً شیخ ابن بازؒ، اسلام ویب): اصل مقصد فقراء کا حق ادا کرنا ہے؛ تناسب میں وسعت ہے۔ تین برابر حصے نہ ہونے سے قربانی باطل نہیں ہوتی۔

متفقہ اصول: غرباء کا معقول حصہ ضرور نکلے۔

6) عملی رہنمائی

  1. کم از کم مسنون طریقہ

    • کچھ گوشت خود/گھر والے کھائیں۔

    • کچھ حصہ محتاجوں کو صدقہ کریں۔

  2. افضل ترتیب

    • تقریباً ⅓ صدقہ (غرباء و مساکین)

    • ⅓ ہدیہ (رشتے دار، پڑوسی، دوست)

    • ⅓ خود و اہلِ خانہ کے لیے
      (ضرورت کے لحاظ سے فقراء کا حصہ بڑھایا یا گھٹایا جا سکتا ہے۔)

  3. ذخیرہ کرنے کی اجازت

    تین دن سے زائد رکھنے کی پہلی ممانعت منسوخ ہو چکی؛ محفوظ کرنا جائز ہے۔

  4. قصّاب کی اجرت

    قصّاب کو گوشت/چمڑا دینا اجرت کے طور پر جائز نہیں؛ اجرت نقد الگ دی جائے۔

7) خلاصۂ کلام

  • قرآن و حدیث میں مقدار نہیں باندھی گئی؛ صرف کھانے اور کھلانے کی ہدایت ہے۔

  • صحابہؓ نے سہولت و توازن کیلئے “تین حصوں” کا مشورہ دیا—یہ مستحب ہے، واجب نہیں۔

  • اصل قاعدہ: صدقہ مقدم، رشتہ دار بعد میں، باقی خود کیلئے۔

اَللّٰهُمَّ تَقَبَّلْ مِنَّا وَمِنْكُمْ – اللہ ہماری قربانیاں قبول فرمائے اور ہمیں محتاجوں کی دل جوئی کی توفیق دے۔ آمین۔

 

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1