ہجرت اور مدینہ میں مہاجرین کا اضافہ
ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں مہاجرین کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا، جس سے مقامی باشندوں کے مقابلے میں مہاجرین کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی (صحیح بخاری)۔ رسول اللہ ﷺ نے مہاجرین کی آبادکاری کے لیے ابتدا ہی سے جامع منصوبہ بنایا۔ یہ منصوبہ نوآبادیاتی ترقی اور شہری منصوبہ بندی کے حوالے سے ایک انقلاب ثابت ہوا۔ مختلف علاقوں اور ثقافتوں سے آنے والے ان مہاجرین کو محدود وسائل کے باوجود رہائش، روزگار، اور سماجی ہم آہنگی فراہم کرنا ایک مشکل کام تھا، لیکن نبی اکرم ﷺ نے نہایت حکمت اور تدبر سے ان چیلنجز کا سامنا کیا۔
اسلامی ٹاؤن پلاننگ کے انقلابی اصول
رسول اللہ ﷺ نے دنیا کو یہ درس دیا کہ شہر صرف عمارتوں اور گلیوں کا مجموعہ نہیں، بلکہ یہ ایک ایسا صحت مند تمدنی ماحول فراہم کرنے کا مرکز ہونا چاہیے جہاں جسمانی، روحانی، اور دینی سکون کے ساتھ اعلیٰ انسانی اقدار پروان چڑھیں۔
مدینہ میں تعمیراتی منصوبے
- مدینہ کی ریاست کے قیام کے بعد، دارالخلافہ کے لیے ایک مناسب مقام کا انتخاب کیا گیا، اور وہاں مسجد اور ازواج مطہرات کے مکانات تعمیر کیے گئے۔
- مہاجرین کے لیے مختصر مکانات تعمیر کیے گئے، جو عموماً تین کمروں پر مشتمل ہوتے تھے۔ (ماخوذ از: ادب المفرد: امام بخاری)
- ریاست کی پالیسی کے تحت مدینہ کی کالونیوں میں صرف مہاجرین کو بسایا جاتا تھا، جبکہ دیگر قبائل کو ان کے علاقوں میں رہنے کی ہدایت کی گئی۔ (طبقات ابن سعد)
عارضی رہائش کا انتظام
- ابتدائی دنوں میں مہاجرین کو مسجد نبوی کے قریب صفہ میں یا خیموں میں ٹھہرایا جاتا۔
- بعض انصار کو کہا جاتا کہ وہ مہاجرین کو اپنے گھروں میں پناہ دیں، خاص طور پر اسلامی ریاست کے ابتدائی ایام میں۔ بعد میں سرکاری طور پر مکانات فراہم کیے گئے۔
مدینہ کی شہری حدود اور توسیع
عہد نبوی کے آخر تک مدینہ شہر کی حدود مشرق میں بقیع الغرقد، مغرب میں بطحا، اور شمال مشرق میں بنی ساعدہ کے مکانات تک پہنچ گئی تھیں۔ آپ ﷺ نے مدینہ کی حدود کو ایک خاص حد سے تجاوز نہ کرنے دیا اور فرمایا کہ اگر آبادی بڑھے تو نیا شہر بسایا جائے۔ (نسائی، کتاب الصلوٰة)
مدینہ کی اسلامی ریاست کا قیام اور نظام حکومت
اسلامی ریاست کی ابتدا
مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد، نبی اکرم ﷺ نے ایک جامع ریاستی نظام قائم کیا، جو عرب قبائلی روایات سے بالکل مختلف تھا۔ یہ نظام اسلام کی بنیاد پر تھا، جہاں قبیلے یا نسل کے بجائے دین کو معاشرت اور حکومت کی اساس بنایا گیا۔
میثاق مدینہ
نبی کریم ﷺ نے ہجرت کے چند مہینوں بعد "میثاق مدینہ” نامی معاہدہ ترتیب دیا، جو مدینہ کی شہری ریاست کے لیے پہلا آئین تھا۔ (ڈاکٹر حمید اللہ، مدینہ کا پہلا دستور)
معاہدے کے نکات:
- امن و امان کا قیام۔
- مذہبی آزادی کی ضمانت۔
- بیرونی حملوں کا مشترکہ دفاع۔
- فتنہ و فساد کو روکنے کے لیے مشترکہ اقدامات۔
- کسی جنگ کا فیصلہ نبی اکرم ﷺ کی اجازت کے بغیر نہ ہو۔
شہری حکومت کے ابتدائی مقاصد
- امن و امان کی بحالی۔
- مہاجرین کے قیام و طعام کا بندوبست۔
- تعلیم و تربیت کی سہولتیں۔
- مقامی باشندوں اور دیگر قبائل کے حقوق کا تعین۔
عہد نبوی میں بلدیاتی نظام
شہری منصوبہ بندی کے اصول
- سڑکوں کی چوڑائی: آپ ﷺ نے راستوں کی چوڑائی کم از کم سات ہاتھ مقرر کی۔ (صحیح مسلم)
- صفائی: آپ ﷺ نے راستوں پر گندگی ڈالنے سے منع فرمایا اور سڑک پر رکاوٹ ہٹانے کو صدقہ قرار دیا۔
- پانی کا انتظام: مدینہ میں پینے کے پانی کے لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہودیوں سے بئر رومہ خرید کر وقف کیا۔ (صحیح بخاری)
تعمیرات اور مکانات
- گلیوں کو کشادہ رکھنے اور غیر قانونی تعمیرات روکنے کے لیے احکامات جاری کیے گئے۔
- آپ ﷺ نے کشادہ گھروں کو پسند فرمایا اور فرمایا: "خوش نصیب ہے وہ شخص جس کی رہائش وسیع ہو۔” (ادب المفرد: امام بخاری)
بازار اور تجارت
- مدینہ کے بازار میں کوئی خراج یا محصول وصول نہیں کیا جاتا تھا۔ (فتوح البلدان، بلاذری)
- آپ ﷺ خود بازاروں میں جا کر ناپ تول اور ملاوٹ کی نگرانی کرتے تھے۔
صحت و صفائی
- اسلامی تعلیمات کے مطابق صفائی کو نصف ایمان قرار دیا گیا، اور مساجد، گلیوں، اور عوامی مقامات کو صاف رکھنے کا حکم دیا گیا۔
- غذا میں ملاوٹ سے منع کیا گیا اور خالص اشیاء فراہم کرنے پر زور دیا گیا۔
اسلامی اصولوں پر مبنی جدید شہری نظام
رسول اللہ ﷺ کے ان اصولوں پر آج بھی عمل کیا جائے تو پیچیدہ شہری مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ مغربی دنیا نے ان میں سے کچھ اصول اپنائے ہیں اور شہری ترقی میں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔