عہدِ نبوی میں قرآن کی حفاظت کے انمول انتظامات

جمع القرآن کے دو معانی

  • زبانی یاد کرنے کے معنی میں
  • کتابت اور تدوین کے معنی میں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں قرآن کی حفاظت دونوں طریقوں سے ہوئی، یعنی حفظ اور کتابت۔ ذیل میں ان دونوں پہلوؤں کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔

زبانی حفظ: قرآن کی حفاظت کا بنیادی ذریعہ

رسول اللہ ﷺ کی مثال:

خود نبی کریم ﷺ نے قرآن کریم کو اپنے سینے میں محفوظ کیا۔ آپ ﷺ پر نازل ہونے والا ہر لفظ آپ کے دل پر نقش ہوجاتا تھا۔
صحابہ کرام بھی قرآن کو زبانی یاد کرتے تھے، اور آپ ﷺ کی موجودگی میں ہی ایک بڑی تعداد میں حفاظ تیار ہوچکے تھے۔

زمانہ قدیم میں حفظ کی اہمیت:

پرانے زمانے میں یادداشت کو علم کے تحفظ کا اہم ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ عربوں میں شاعری اور انساب کو زبانی یاد رکھنے کی روایت عام تھی۔ یہی روایت قرآن کے معاملے میں بھی جاری رہی، اور بعد کے ادوار میں بھی قرآن کو حفظ کے ذریعے محفوظ رکھا گیا۔

آج بھی حفظ کی اہمیت:

آج کے جدید دور میں، جب کتابت اور پرنٹنگ عام ہیں، قرآن کی اصل حفاظت کا دارومدار اب بھی حفظ پر ہے۔ اسلامی ممالک میں قرآن کے طباعت شدہ نسخے قاری حضرات کی تصدیق کے بعد ہی شائع کیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں وزارت مذہبی امور دو قراء کرام کی تصدیق کے بغیر کسی پبلشر کو قرآن شائع کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔

حفظ کی پائیداری:

تاریخ کے مختلف ادوار میں مذاہب کی کتب حملوں اور تباہی کا شکار ہوئیں، لیکن قرآن کا زبانی حفظ ہونے کی وجہ سے نہ کبھی مسودوں کے تباہ ہونے کا خطرہ رہا اور نہ ہی کسی انسانی خطا سے یہ متاثر ہوا۔ قرآن کی حفاظت کا یہ طریقہ اللہ تعالیٰ کے وعدے کے عین مطابق ہے، جیسا کہ فرمایا:
إنا نحن نزلنا الذكر وإنا له لحافظون
’’بیشک ہم نے یہ ذکر (قرآن) نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘
(الحجر: ۹)

نبی کریم ﷺ کی قرآنی تعلیم میں احتیاط

نبی کریم ﷺ نزولِ وحی کے وقت جلدی جلدی دہرانے کی کوشش کرتے تاکہ کوئی لفظ یا حرف چھوٹ نہ جائے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ ۝ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ
’’اپنی زبان کو اس (قرآن) کے ساتھ جلدی کرنے کے لیے حرکت نہ دو۔‘‘
’’بیشک اس کا جمع کرنا اور اس کا پڑھانا ہمارے ذمے ہے۔‘‘
(القیامہ: ۱۶-۱۷)

رمضان کے مہینے میں آپ ﷺ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کا دَور کیا کرتے تھے۔ آخری رمضان میں آپ ﷺ نے دو مرتبہ دَور کیا۔
(صحیح بخاری مع فتح الباری، ج ۹، ص ۳۶)

حفاظ صحابہ کرام کی جماعت

نبی کریم ﷺ کے دور میں صحابہ کرام نے قرآن کو زبانی یاد کرنے کا اہتمام کیا۔ ان میں چاروں خلفاء (حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی رضی اللہ عنہم) سمیت دیگر مشہور حفاظ کے نام یہ ہیں:

  • حضرت طلحہ بن عبیداللہ
  • حضرت ابن مسعود
  • حضرت ابو ہریرہ
  • حضرت زید بن ثابت
  • حضرت عائشہ صدیقہ
  • حضرت حفصہ
  • حضرت معاذ بن جبل
  • حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہم

حفاظ کی شہادتیں:

بئر معونہ کے واقعے میں 70 حفاظ شہید ہوئے۔ اسی طرح جنگ یمامہ میں 700 حفاظ کی شہادت کا ذکر ملتا ہے۔
(تفسیر قرطبی: ۱/۳۷، عمدۃ القاری: ۱۳/۵۳۳)

کتابت قرآن: حفاظت کا دوسرا ذریعہ

نبوی نگرانی میں کتابت:

رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں قرآن کو لکھا بھی گیا۔ مختلف اشیاء جیسے چمڑے، ہڈیوں، پتھروں، اور درختوں کے پتوں پر قرآن کریم کی آیات کو محفوظ کیا گیا۔

کتابت کا طریقہ:

حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ پر نزولِ وحی کے وقت بہت مشقت ہوتی تھی، لیکن نزول کے بعد آپ ﷺ آیات لکھواتے اور پھر ان کی تصحیح فرماتے تھے۔
(المعجم الکبیر للطبرانی: ۵/۱۴۲)

کاتبین وحی کی جماعت:

کاتبین وحی کی تعداد 40 سے زائد تھی، جن میں حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت زید بن ثابت اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہم کے نام مشہور ہیں۔
(علوم القرآن، مفتی تقی عثمانی، ص ۱۷۹)

کتابت کے وسائل:

اس دور میں کاغذ عام نہیں تھا، اس لیے درج ذیل اشیاء پر قرآن لکھا گیا:

  • پتھروں کی چوڑی سلیں
  • اونٹوں کی ہڈیاں
  • چمڑے کے پارچے
  • کھجور کی شاخیں
  • بانس کے ٹکڑے

عہدِ نبوی میں قرآن کو مصحف میں جمع نہ کرنے کی حکمت

نزول کا تدریجی عمل:

قرآن کریم 23 سال کے عرصے میں نازل ہوا، اس لیے اسے ایک کتابی شکل میں جمع کرنا اس وقت ممکن نہ تھا۔

نسخ کی حکمت:

قرآن کریم کی بعض آیات یا احکام منسوخ ہوتے رہتے تھے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے قرآن کو مکمل شکل میں مرتب نہیں کروایا۔

نزولی ترتیب:

قرآن کی موجودہ ترتیب اس کی نزولی ترتیب سے مختلف ہے۔ نزول کے دوران اگر اسے کتابی شکل دی جاتی تو ہر نئے نزول پر ترتیب بدلنے کی ضرورت پڑتی۔

خلاصہ

عہد نبوی میں قرآن مجید کی حفاظت کا بنیادی ذریعہ زبانی حفظ تھا، لیکن اس کے ساتھ کتابت کا بھی اہتمام کیا گیا تاکہ قرآن کا ہر لفظ محفوظ رہے۔ صحابہ کرام نے اپنی زندگیوں کو قرآن کے لیے وقف کر دیا۔ حفظ اور کتابت دونوں ذرائع اللہ کے وعدے کے مطابق قرآن کی حفاظت کا حصہ ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ قرآن آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے