بازارِ حسن کی عورت اور معاشرتی رویے: حقیقت یا منافقت؟
محترمہ کی تحریر میں یہ دکھایا گیا کہ ہمارے معاشرے میں عورت، خاص طور پر وہ عورت جو بازارِ حسن سے تعلق رکھتی ہے، کیسے معاشرتی رویوں کا نشانہ بنتی ہے۔ اس نوحے میں انہوں نے مختلف مسائل جیسے جسم فروشی، معاشی بدحالی، اور عورتوں پر دوہرے معیار کے بارے میں بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ عورتیں جو بچوں کے پیٹ پالنے کے لیے مجبور ہو کر غلط راستے پر جاتی ہیں، انہیں صرف معاشرتی نفرت ہی ملتی ہے۔ لیکن اس سب میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا معاشرے میں صرف عورت ہی قصوروار ہے؟ یا یہ رویے خود سیکولر طبقے اور آزاد خیال سوچ کی پیداوار ہیں؟
کیا عورت کی بے بسی مولویوں کا نتیجہ ہے؟
نقاد کا کہنا ہے کہ اکثر بازارِ حسن کی عورتوں کا ذکر آتے ہی الزام مذہبی طبقے پر لگا دیا جاتا ہے، حالانکہ:
- جو دلال عورتوں کو بیچتے ہیں، وہ کسی مدرسے سے نہیں نکلے ہوتے۔
- وہ مرد جو ان عورتوں کا استحصال کرتے ہیں، وہ فقہ یا شریعت کے طالب علم نہیں ہوتے۔
- وہ سیٹھ جو عورت کو نوکری دینے کے بہانے ہوس کا شکار بناتا ہے، وہ کسی دینی جماعت سے تعلق نہیں رکھتا۔
سوال یہ ہے: کیا وہ لوگ جو ان عورتوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں، وہ سب مولوی ہیں یا سیکولر طبقے سے تعلق رکھتے ہیں؟
عورتوں کو جنسی کھلونا کس نے بنایا؟
- شادی بیاہ کی تقریبات میں پیسے پھینکنے والے وہی لوگ ہیں جو بعد میں ان عورتوں کو بے عزت کرتے ہیں۔
- فلموں، ڈراموں اور بازارِ حسن کی زینت بننے والی عورتوں کی بدحالی کا ذمہ دار وہی سیکولر طبقہ ہے، جو ان کے دکھ پر موم بتیاں جلاتا ہے، مگر حقیقت میں ان کی مدد نہیں کرتا۔
فحاشی کا ذمہ دار کون؟
- دلال، گاہک اور ان عورتوں سے فائدہ اٹھانے والے زیادہ تر سیکولر طبقے کے لوگ ہیں۔
- اگر کوئی عورت جسم فروشی سے نکل کر عزت کی زندگی گزارنا چاہے، تو اسے مدد دینے والا کوئی نہیں ہوتا۔
- صرف باتیں اور آرٹیکلز لکھ کر عورت کے دکھ کو محسوس کرنا کافی نہیں، بلکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
مولانا طارق جمیل کا عملی کردار
تحریر میں مولانا طارق جمیل کی مثال دی گئی ہے، جنہوں نے فحاشہ عورتوں کے پورے محلے کو نکاح کے ذریعے باعزت زندگی فراہم کی۔ انہوں نے نہ تو موم بتی مارچ کیے، نہ ٹی وی شوز میں بیٹھ کر دکھ کا اظہار کیا، بلکہ عملی اقدام کے ذریعے ان عورتوں کو ایک بہتر زندگی دی۔
خلاصہ
عورت کے دکھ کا حل صرف باتیں بنانے میں نہیں بلکہ اس کے لیے عملی اقدامات اٹھانے میں ہے۔ صرف موم بتیاں جلا کر، یا بازارِ حسن کی عورتوں سے ہمدردی جتانے سے کچھ نہیں بدلے گا۔ معاشرے میں دوہرے معیار کو ختم کرنا ہوگا، اور اگر واقعی ان عورتوں کی مدد مقصود ہے تو انہیں عزت، گھر اور باعزت روزگار فراہم کرنا ہوگا۔