سوال:
میں ایک طالب علم لڑکی ہوں، لگ بھگ پچیسں نوجوانوں نے مجھے نکاح کی پیش کش کی ہے مگر میں نے ان سب کو انکار کر دیا ہے، اس کو آٹھ سال ہوا چاہتے ہیں۔ میں نے ان نوجوانوں کو اس لیے انکار کیا کہ میں نے ان کے متعلق اللہ عزوجل سے استخارہ کیا مگر مجھے ان سے شادی کرنے پہ اطمینان نہیں ہوا، لیکن میرے گھر والے اکثر مجھے شادی نہ کرنے پر ڈانٹتے ہیں اور کہتے ہیں: شادی کے لیے ہمسر آدمی مل جانا کافی ہے، مگر میں نے اپنے دل میں پختہ عزم کر رکھا ہے کہ میں صرف اور صرف ایسے آدمی سے شادی کروں گی جو سنت کا پابند اور اپنے مال، جان اور قلم سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ہو گا۔ کیا میرا یہ عزم و ارادہ جائز اور درست ہے؟
جواب:
ان شاء اللہ یہ جائز ہے، اور نیک ساتھی بھلائی میں معاون بنتا ہے، بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ عورت نیک ہوتی ہے اور کسی فاسق آدمی سے بیاہ دی جاتی ہے، پس کس قدر جلدی وہ آدمی اس کو غافل کر دیتا ہے اور اس کو بھلائی سے دور کر کے دوسرے کاموں میں مشغول کر دیتا ہے، لہٰذا میں تو اس مذکورہ لڑکی کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے لیے نیک آدمی کو ہی منتخب کرے، اگرچہ اسے اس کے لیے مال ہی کیوں نہ خرچ کرنا پڑے، اگر یہ لڑکی مالدار ہے۔ اور اگر مرد مالدار نہ ہو تو یہ لڑکی اس کو اپنے پاس لے آئے پھر وہ اس کے بعد اس سے دور ہونے کا مطالبہ نہیں کرے گا۔ پس الجزائر وغیرہ میں بحمد اللہ نیک لوگوں کی کثرت ہے اور نیک لوگ نیک عورتوں سے نکاح کے متمنی ہوتے ہیں۔
کس قدر اچھا ہو گا کہ تم کسی نیک آدمی سے شادی کر لو تاکہ تم ایک نیک خاندان کی بنیاد رکھ سکو اور تاکہ تم کتاب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دعوت دے سکو۔ الحمدللہ نیک لوگ بہت زیادہ ہیں، بحمد اللہ میں الجزائر کے کتنے ہی نیک بھائیوں کو جانتا ہوں، حتی کہ ہمارے پاس کتنے زیادہ دیندار نیک سیرت الجزائری طالب علم بھائی موجود ہیں جو اس بات کے خواہش مند ہوتے ہیں کہ وہ کسی نیک عورت سے شادی کر لیں، چاہے ان کو اس عورت کے ساتھ ہمارے ملک یمن میں ہی رہنا پڑے۔ اور وہ ان شاء اللہ امریکہ اور بہت سے دیگر ممالک میں اسلام کی دعوت پہنچانے کے لیے متحرک ہو جائیں گے۔
نیک عورت کو شادی کے لیے خاوند منتخب کرنے کے متعلق صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث موجود ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«تنكح المرأة لأربع خصال: لمالها و لمالها، أو لحسبها و الدينها، فاظفر بذات الدين تربت يدا ك» [صحيح البخاري رقم الحديث 48021، صحيح مسلم رقم الحديث 1466]
”عورت سے چار خوبیوں کی وجہ سے شادی کی جاتی ہے، اس کے مال یا جمال کی وجہ سے، یا اس کے حسب و نسب اور دینداری کی وجہ سے، پس (اے مخاطب !) دیندار عورت سے شادی کر کے کامیابی حاصل کر لو“۔
لہٰذا آدمی کو نیک عورت سے شادی کرنے اور نیک عورت کے نیک مرد سے شادی کے بہتر ہونے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی قول کافی ہے
«المرء على دين خليله، فلينظر أحدكم من يخالل» [حسن، سنن أبى داود رقم الحديث 4833]
آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، لہٰذا تم میں سے ہر کوئی یہ دیکھا کرے کہ وہ کس کو دوست بنا رہا ہے؟
ہاں مرد کے متعلق یہ شرط نہیں لگائی جاتی کہ اس سے غلطی اور نافرمانی نہ ہوئی ہو کیونکہ شاید دنیا میں کوئی ایسا بندہ نہ ہو جس سے غلطی نہ ہوئی ہو۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
«ومن الذى ترضي سجاياه كلها»
«كفى بالمرء نبلا أن تعد معايبه»
”کون ہو سکتا ہے جس کی تمام عادات کو تو پسند کرتا ہو؟ آدمی کی عظمت کے لیے یہی کافی ہے کہ اس کے عیبوں کو شکار کر لیا جائے ایک اور شاعر نے کہا:
“
«ولست بمستبق أخا لا تلمه»
«على شعث أى الرجال المهذب »
”اور تمہیں کوئی ایسا بھائی نہیں ملے گا جس کی پرا گندگی پر مہذب لوگ ملامت نہ کرتے ہوں۔“
لہٰذا ضروری ہے کہ ہم لوگوں سے چشم پوشی کریں۔ اس سے میرا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ میں عورت کو کسی فاسق آدمی سے شادی کرنے اور تارک الدنیا زاہد آدمی سے شادی نہ کرنے کا مشورہ دے رہا ہوں، مگر جب کسی عورت کے پاس کوئی علم دوست طالب علم شادی کی غرض سے آئے تو بہت اچھا ہے، لیکن اگر وہ قرآن کا حافظ، دین کا داعی اور اللہ کی راہ میں قلم سے جہاد کرنے والا ہو اور اس کو نیک بیوی میسر آ جائے جو اللہ سبحانہ وہ تعالیٰ کے دین کی طرف دعوت دینے والی ہو تو مرد کے لیے دنیا ہی جنت ہے۔ واللہ المستعان
(مقبل بن ہادی الوداعی رحمہ اللہ)